من عُرِضَ علیہ ریحان فلا یردہ فانہ خفیف المحمل طیب الریح۔ رواہ مسلم ۱؎وابوداؤد عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
یعنی جس کے سامنے خوشبو نبات پھول پتی وغیرہ پیش کی جائے تو اسے رد نہ کرے کہ اس کا بوجھ ہلکا اور بو اچھی ہے (بوجھ ہلکا یہ کہ پیش کرنے والے پر مشقت نہیں کوئی بھاری احسان نہیں) (امام مسلم اور امام ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب باب استعمال المسک الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۳۹)
(سنن ابی داؤد کتاب الترجل باب فی ردالطیب آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۱۹)
اور فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
اربع من سنن المرسلین الختان والتعطر والنکاح والسواک، رواہ الامام احمد والترمذی ۲؎ والبیھقی فی شعب الایمان عن ابی ایوب الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ قال الترمذی ھذا حدیث حسن غریب صحیح ۔
یعنی چار باتیں انبیائے مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں میں سے ہیں: ختنہ کرنا اور خوشبو لگانا اور نکاح اور مسواک (امام احمد، ترمذی اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اسے روایت فرمایا اور امام ترمذی نے فرمایا حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ (ت)
(۲؎ جامع الترمذی ابواب النکاح امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲۸)
(شعب الایمان حدیث ۷۷۱۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶/ ۱۳۷)
ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان لایرد الطیب رواہ ھوالامام احمد ۱؎ والترمذی و النسائی عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
یعنی بیشک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خوشبو کی چیز رد نہ فرماتے تھے (بخاری، امام احمد، ترمذی اور نسائی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الہبہ باب مالا یرد من الہدیۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۵۱)
(صحیح البخاری کتاب اللباس باب من لم یرد الطیب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۷۸)
(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۱۳۳ و ۲۶۱)
ہار کہ گلے میں پہنیں ان میں پھولوں سے اسی قدر زائد ہے کہ ایک ڈورے میں پرولیا ہے اور گلے میں ڈالنا وہی خوشبو سے فائدہ لینا ہے او ر اپنے جلیس آدمیوں اور فرشتوں کو فرحت پہنچانا ہے کہ کسی برتن میں رکھیں تو اس کا ساتھ لئے پھرنا دقت سے خالی نہیں اور ہاتھ میں لئے رہیں تو ہاتھ بھی رکے اور پھول بھی جلد کملا جائیں۔ تو اس قدر سے ممانعت وحرمت وناجوازی کس طرف سے آگئی۔
امام ابن امیر الحاج محمد محمد محمد حلبی حلیہ میں احادیث متعد ذکر کرکے فرماتے ہیں: عن سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ انہ دخل مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی امرأۃ وبین یدیھا نوی اوحصی تسبح بہ فقال الا اخبرک بما ھو ایسر علیک من ھذا او افضل فقال سبحان اﷲ عدد ماخلق اﷲ فی السماء وسبحان اﷲ عدد ماخلق اﷲ فی الارض، وسبحان اﷲ عدد مابین ذٰلک ، وسبحان اﷲ عدد ماھو خالق واﷲ اکبر مثل ذٰلک لا الہ مثل ذٰلک ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ مثل ذٰلک ۔ رواہ ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن حبان فی صحیحہ والحاکم وقال صحیح الاسناد فلم ینھا عن ذٰلک وانما ارشدھا الی ماھو ایسر وافضل ولو کان مکروھا لبین لھا ذلک ثم ھذہ الاحادیث مما تشھد بجواز اتخاذ السبحۃ المعروفۃ لاحصاء عدد التسبیح وغیرہٖ من الاذکار من غیران یتوقف علی ورود شیئ خاص فیھا بعینھا بل حدیث سعد ھذا کالنص فی ذٰلک اذ لا تزید السبحۃ علی مضمونہ بضم النوٰی و نحرہ فی خیط ومثل ذٰلک لایظھر تاثیرہ فی المنع فلا جرم ان نقل اتخاذ ھا والعمل بھا عن جماعۃ من السادۃ الاخیار۔ واﷲ سبحانہ الموفق ۱؎۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی معیت میں ایک عورت کے پاس گئے اس کے آگے گٹھلیاں اور کنکریاں پڑی ہوئی تھیں کہ جن پر وہ تسبیح پڑھتی تھی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمھیں وہ طریقہ عمل نہ بتادوں جو اس سے زیادہ آسان اور زیادہ بہتر ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : پاک ہے اللہ تعالٰی اس تعداد کے مطابق جو اس نے آسمان میں پیدا فرمائی، اللہ تعالٰی پاک ہے اس تعداد کے مطابق جو اس نے زمین میں پیدا فرمائی، اور اللہ تعالٰی پاک ہے اس تعداد کے مطابق جو ان دونوں کے درمیان ہے اللہ تعالٰی پاک ہے اس تعداد کے مطابق جس کا وہ پیدا کرنے والا ہے۔ (اور اللہ اسی کے مطابق سب سے بڑا ہے) اللہ اکبر اسی کے مطابق ہے لا الہ الا اللہ اسی کے مطابق ہے اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ اسی کے مطابق ہے (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کے مطابق گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت کسی میں نہیں سوائے اللہ تعالٰی کی توفیق کے) ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن حبان نے اپنی اپنی صحاح میں اور حاکم نے اسے روایت کیا اور فرمایا اس کی اسناد صحیح ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عورت مذکورہ کو مذکورہ طریق سے تسبیح کرتا دیکھ کر اسے منع نہیں فرمایا بلکہ زیادہ آسان اور افضل طریقہ کی رہنمائی فرمائی، اگر آپ کو اس کا طریقہ پسند نہ ہوتا تو اس کو منع فرمادیتے، یہ احادیث مروجہ تسبیح کے جواز پر دلالت کرتی اور شہادت دیتی ہیں، یہ تسبیح اعداد وشمار اذکار کے لئے بنائی جاتی ہے البتہ اور اورادووظائف کا پڑھنا محض اسی پر موقوف نہیں، حضرت سعد کی حدیث اس کے جواز کے سلسلے میں نص کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ تسبیح مروجہ میں صرف یہی چیز زائد ہے کہ گٹھلیاں کسی دھاگے میں پرو کر مطلوبہ تعداد کے مطابق اسے تیار کرلیا جاتا ہے اور اس نوعیت کے اضافہ میں کوئی تاثیر منع ظاہر نہیں ہوتی۔ بلا شبہہ تسبیح بنانا اور اس کے ذریعے ذکر واذکار کا شغل رکھنا (ایک اچھا عمل ہے) اور عمدہ اکابرین امت کے ایک بڑے گروہ سے منقول ہے اور اللہ تعالٰی پاک ہے اور بندوں کو امور خیر کی توفیق دیتا ہے (ت)
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
جو اسے ناجائز کہتاہے وہ شریعت مطہرہ پر افتراء کرتاہے اگر سچا ہے تو بتائے کہ اللہ تعالٰی ورسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے کہاں منع فرمایا ہے ۔ اور جب اللہ ورسول نے منع نہ فرمایا تو پھر دوسرا اپنی طرف سے منع کرنے والا کون ؟ جل جلالہ وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔