مسئلہ ۲۷ : ۲۱ صفر یوم سہ شنبہ ۱۳۰۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بزرگان دین کی نذرونیاز مثل مولود شریف وغیرہ کے ہندؤوں کی بنائی ہوئی شیرینی پر چاہئے یا مسلمان کی اور جہاں مسلمان حلوائی بھی ہوں تو مسلمان کو کن سے خریدنا اولٰی ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : شک نہیں ہنود وعموما سخت ناپاکیوں میں آلودہ رہتے ہیں دھوتیوں میں پیشاب کرتے ہیں اور انھیں اپنے کنوؤں کی من پر کھڑے ہو کر ایک لٹیا پانی بھینچتے ہیں سب چھینٹیں کنویں میں جاتی ہیں، پاخانے میں ڈھیلے لے جانا تو انھیں کہاں نصیب ، چھوٹی سی لٹیا ہوتی ہے وہ بھی بارہا آدھی یا پونی، پھر اس میں آبدست اسی میں ہاتھ دھونا، اور اتنا بچالا ئے جس سے بارہ کلاکئے، مشاہدہ ہوا کہ ان کے حلوائیوں نے اپنی اسی بے احتیاطی کے پانی سے کڑاہی دھوئی اور اسی انگوچے سے پونچھ لی جو سال سال بھر بدلا نہیں جاتا اور اس میں تولوں بلکہ چھٹنکیوں موت ہوتاہے علاوہ بریں ان کے مذہب میں گائے بھینس کا گوبر اور بچھیا کا موت متر پاک بلکہ پَبِتر یعنی پاک کرنے والا ہوتاہے تو اس سے احتراز کیا معنی بلکہ اسے مشک وعطر کی جگہ استعمال کرنا ان سے بعید نہیں ایسی حالتوں میں اگر چہ اس شریعت سمحہ سہلہ غرابیضا صلی اﷲ تعالٰی علی صاحبہا وآلہٖ وبارک وسلم نے جب تک کسی خاص شیئ میں وقوع نجاست کا یقین نہ ہوبحکم قاعدہ کلیہ الاصل الطہارۃ وضابطہ عام الیقین لایزول بالشک (اشیاء میں اصلا پاکیزگی اور طہارت ہے اور اس کے لئے عام قاعدہ یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا) حکم فتوٰی آسانی فرمائی مگر شبہہ نہیں کہ تقوٰی حتی الامکان اس سے بچنا ہے خصوصا جبکہ وہ باوصف اپنی گندگیوں ناپاکیوں کے پاک ستھرے نظیف مسلمانوں سے کس درجہ پرہیز رکھتے اور بحکم المرء یقیس علی نفسہٖ (ہر شخص دوسرے کے بارے میں اپنی ذات کے حوالے سے قیاس کرتاہے۔ ت) معاذاللہ انھیں مچھ سمجھتے ہیں عجب کہ ناپاکوں کو پاکوں سے احتراز ہو اور پاک ناپاک سے اختلاط رکھیں اور ان کی ایسی اوندھی اندھی چھوت پر بھی غیرت نہ کریں مانا کہ اپنے نفس کے لئے نہ بچیں مگر بیشک حضرات بزرگان دین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی سیدھم ومولاھم وعلیہم اجمعین کی نذرونیاز بلکہ عموما وصدقات وامور خیرات میں اس سے احتراز چاہئے کہ یہ امور بامید قبول کیے جاتے ہیں اور حدیث میں ارشاد ہوا : ان اﷲ طیب لایقبل الاالطیب ۱؎۔بیشک اللہ عزوجل طیب ہے نہیں قبول فرماتا مگر پاکی ستھری چیز کو۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ باب ان اسم الصدقۃ یقع الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۶)
(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب صلٰوۃ الاستستقاء باب الخروج من المظالم دارصادر بیروت ۳/ ۳۴۶)
تو اگر علم الٰہی میں ان شیرینیوں کی ناپاکی معاذاللہ باعث عدم قبول ہوئی کیسا خسارہ ہے۔ غرض جہاں تک ممکن ہو ہنود کی ایسی اشیاء سے کھانے پینے عموما اور نذر ونیاز فاتحہ صدقات میں خصوصا احتراز اولٰی ہے اور جب مسلمان حلوائی بھی موجود ہوں تو خواہ مخواہ ہنود کی طرف جھکنے کی وجہ کیا ہے، ان سے خریدنے میں علاوہ ان خوبیوں کے یہ کیسا فائدہ ہے کہ اپنے مال کا نفع اپنے بھائی مسلمان ہی کو پہنچا،
فتاوٰی ذخیرہ وطریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے :
یکرہ الاکل والشرب فی اوانی المشرکین قبل الغسل لان الغالب والظاھر من حال اوانیھم النجاسۃ فانھم یستحلون الخمر ویاکلون المیتۃ ولحم الخنزیر ویشربون ذٰلک ویاکلون فی قصاعھم واوانیھم فیکرہ الاکل والشرب فیھا قبل الغسل اعتبارا للظاھر کما کرہ الترضئ بسور الدجاجۃ المخلاۃ لانھا لاتتوقی عن النجاسۃ فی الغالب الا ان الاصل فی الاشیاء الطہارۃ وتشککنا فی النجاسۃ فلم تثبت النجاسۃ بالشک ھذا حاصل ماذکر عن الذخیرۃ ۱؎۔
مشرکین کے برتن بغیر دھوئے استعمال کرنا مکروہ ہے اس لئے کہ غالبا ان کے برتن بظاھر ناپاک ہوتے ہیں بایں وجہ کہ وہ شراب پینا حلال جانتے اور مردار اور سور وغیرہ کھاتے ہیں اور اس مقصد کے لئے اپنے برتن استعمال کرتے ہیں لہذا انھیں دھوئے بغیر ان میں کھانا پینا مکروہ ہے۔ ظاہرحال کا اعتبار کرتے ہوئے جیسے اس مرغی کے جھوٹے سے وضو کرنا مکروہ ہے جو گلی کوچوں میں آزاد پھرنے والی ہے اس لئے کہ وہ گندگی سے محفوظ نہیں ہوتی البتہ اصل اشیاء میں طہارت ہوتی ہے اور ہمیں نجاست کامحض شک ہوجائے تو شک سے نجاست ثابت نہیں ہوتی خلاصہ از ذخیرہ مذکور ہوا۔ (ت)
(۱؎ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقہ المحمدیہ النوع الرابع مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور ۲/ ۷۱۲)
نصاب الاحتساب میں ہے :
قال العبد اصلحہ اﷲ تعالٰی وما اتبلینا من شراء السمن والخل واللبن و الجبن وسائر المائعات من الھنود علی ھذا الاحتمال تلویث اواینھم وان نسائھم لاتتوقین عن السرقین وکذا یاکلون لحم ماقتلوہ وذٰلک میتۃ فالا باحۃ فتوٰی والتحرز تقوٰی ۲؎ اھ ملخصا واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم بالصواب۔
بندہ کہتاہے کہ اللہ تعالٰی اس کی اصلاح فرمائے اور ہم گھی ، سرکہ، پنیر ، دودھ اور دیگر تمام سیال چیزیں ہندؤوں سے خریدتے ہیں۔ ان کی عورتیں گوبروغیرہ سے پرہیز نہیں کرتیں، اور ہندو لوگ بغیر ذبح کئے مارڈالے جانے والے جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اس لئے ان کے برتنوں کے ناپاک ہونے کا احتمال ہوتاہے ان کے برتنوں کے استعمال کی اباحت ہمارے لئے بربتائے فتوٰی ہے جب کہ ان سے پرہیز کرنا تقوٰی ہے ملخصا۔ اللہ تعالٰی پاک برتر اور خوب جاننے والا ہے۔ (ت)
(۲؎ نصاب الاحتساب)
مسئلہ ۲۸ : از پیلی بھیت محلہ پکریا مرسلہ شیخ عبدالوہاب صاحب ۱۵ ربیع الاول شریف ۱۳۱۲ھ
حامی دین ومفتی شرع متین جناب مولوی محمد احمد رضاخاں صاحب انار اللہ برہانہ بعد سلام علیک ورحمۃ اللہ غرض ہے کہ مسئلہ حل طلب ارسال حضور ہے براہ کرم جلد جواب سے مشرف فرمائے، بعد ختم بیان ولادت جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر پنج آیت پرھ کر شیرینی تقسیم کی جائے تو جائز ہے یاناجائز؟ اعتراض یہ ہے کہ پنج آیت مخصوص محفل غم کے واسطے ہیں نہ کہ محفل شادی کےچنانچہ سوم میں بعد ختم کلام مجید پنج آیت پڑھ کے شیرینی تقسیم کرتے ہیں محفل میلاد میں پرھنا موجب کراہت ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب: پنج آیت میں شادی وغمی کا تفرقہ اور اسے مجلس غم سے مخصوص ماننا محض باطل وبے اصل ہے صحابہ کرام کی عادت کریمہ تھی جب کسی مجلس میں جمع ہوتے کسی سے کچھ آیات کلام مجید پڑھ کر سنتے، عالمگیریہ میں ہے :
لوقرأ طمعا فی الدنیا فی المجالس یکرہ وان قرأ لوجہ اﷲ تعالٰی لایکرہ وقد کان اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ واصحابہ اذاجتمعوا امروا احدھم ان یقرأسورۃ من القراٰن کذا فی الغرائب ۱؎۔
اگر دنیوی لالچ اور طمع کی بنا پر مجلس میں قرآن مجید پڑھا جائے تو یہ مکروہ ہے۔ اور اگر اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لئے پڑھا جائے تو مکروہ نہیں اور بے شک اصحاب رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم ) جب کسی مجلس میں جمع ہوتے تو اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو فرمایا کرتے تھے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی سورت تلاوت کرے۔ یونہ غرائب میں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۱۶)
حدیث میں ہے حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ان ھذا القراٰن مأدبۃ اﷲ فاقبلوا مادبتہ ما استطعتم رواہ الحاکم ۲؎ وصححہ عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بیشک یہ قرآن اللہ عزوجل کی طرف سے تمھاری دعوت ہے تو جہاں تک ہوسکے اس کی دعوت قبول کرو، (حاکم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کرکے اس کی تصحیح فرمائی۔ ت)
(۲؎ المستدرک للحاکم کتاب فضائل القرآن القرآن مأدبۃاللہ دارالفکر بیروت ۱/ ۵۵۵)
دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
کل مؤدب یحب ان یؤتی ادبہ وادب اﷲ القراٰن فلا تھجروہ (رواہ البیہقی۱؎ عن سمرۃ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ)۔
ہر دعورت کرنے والا دوست رکھتا ہے کہ لوگ اس کی دعورت میں آئیں اور اللہ عزوجل کا خوان نعمت قرآن ہے تو اسے نہ چھوڑو ( اس کی امام بیہقی نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ کنز العمال بحوالہ ھب عن سمرۃ رضی اللہ عنہ حدیث ۲۲۸۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱/ ۵۱۴)
کیا اللہ عزوجل کی دعوت قبول کرنا اور اس کے خوان نعمت سے بہرہ مند ہونا صرف غمی میں چاہئے شادی میں نہیں، لاجرم مجلس میلاد مبارک میں تلاوت قرآن مجید ہمشہ سے معمول علمائے کرام و بلاد اسلام ہے۔
امام جلال الملۃ والدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں :
اصل المولد الذی ھو اجتماع الناس و قرأۃ ماتیسر من القراٰن وروایۃ الاخبار الواردۃ فی مبدأ امر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ماوقع فیہ من الاٰیات ۲؎ الخ۔
میلاد شریف کی اصل لوگوں کا مجمع ہونا، قرآن مجید کا تلاوت کیا جانا، اور ان آیات واحادیث و روایات کو بیان کرنا ہے جو آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں وارد ہوئی ہیں الخ۔(ت)
(۲؎ الحاوی للفتاوٰی حسن المقصد فی عمل المولد دارالفکر بیروت ۱/ ۱۸۹)