فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مگر بار بار کرنے سے وہ بھی کبیرہ ہوجائیں گے، اجمالی طریقہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد میں سے ایک ارشاد یوں ہے کہ جس کھیل میں بھی آدمی مشغول ہو وہ ناجائز ہے مگر تین قسم کے کھیل جائز ہیں: (۱) کمان سے تیر اندازی کرنا (۲) اپنے گھوڑے کو جہاد کے لئے تیار کرنا (۳) اپنی منکوحہ یعنی بیوی سے کھیلنا ۔ امام احمد، دارمی۔ ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عقبہ بن عامر کے حوالے سے یہ حدیث روایت کی ہے اور حاکم نے مستدرک میں حضرت ابوہریرہ سے اور طبرانی نے اوسط میں حضرت امیرالمومنین عمر فاروق سے اسے روایت کیا ہے (اللہ تعالٰی ان سب سے راضی ہو) خود مرد مومن کے لئے یہ حدیث عام، تام اور یقینی حیثیت کی وجہ سے کافی ہے کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے اللہ تعالٰی بزرگ وبرتر کی یاد کے سند حسن کے ساتھ اس حدیث کو ابونعیم نے الحلیہ میں ضیاء مقدسی نے المختارہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔
(۱؎ جامع الترمذی ابواب فضائل الجہاد باب ماجاء فی فضل الرمی الخ امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۹۷) (سنن ابن ماجہ ابواب الجہاد باب الرمی فی سبیل اللہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰۷) (سنن الدارمی کتاب الجہاد باب فی فضل الرمی حدیث ۲۴۱۰ دارالمحاسن للطباعۃ قاہرۃ ۲/ ۱۲۴) (مسند احمد بن حنبل عن عقبہ بن عامر المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۱۴۴ و ۱۴۸) (۲؎ حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۲۳۰ محمد بن المنکدر دارالکتاب العربی بیروت ۳/ ۱۵۷ و ۷/۹۰)
درحدیث دیگر فرمود صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم: الدنیا ملعونۃ ملعون مافیھاالا ماابتغی بہ وجہ اﷲ تعالٰی یعنی بردنیا لعنت وبر ہر چہ درآں ست لعنت جزآنچہ باو رضا ئے خدا خواستہ شود، رواہ الطبرانی ۱؎ فی الکبیر عن ابی الدردا، رضی اﷲ تعالٰی عنہ باسناد حسن۔
اورایک دوسری حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: دنیا اور جوکچھ اس میں ہے سب ملعون ہے بجز اس کے کہ جس میں اللہ تعالٰی کی رضا جوئی مقصود ومطلوب ہو، امام طبرانی نے ''الکبیر'' میں اچھی سند کے ساتھ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔
(۱؎مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی فی الکبیر کتاب الزہد باب فی الربائ دارلکتاب بیروت ۱۰/ ۲۲۲)
درحدیث آخر ست کہ فرمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : الدنیا ملعونۃ ملعون مافیھا الاذکر اﷲ وما والاہ وعالما اومتعلما یعنی دنیا ملعونہ است وہر چہ درواست ہمہ ملعونہ جز یادخدا تعالٰی آنچہ پسندیدہ اوست وعالمے یا علم آموزے، روہ ابن ماجہ ۲؎ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ایک اور حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے یہ ارشاد مروی ہے کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب قابل لعنت ہے سوائے اللہ تعالٰی کی یاد اور اس چیز کے جسے اس نے پسند فرمایا، عالم اور علم حاصل کرنے والا ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے۔
(۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الزبد باب مثل الدنیا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۱۲ و ۳۱۳)
ودر حدیث آخرست کہ فرمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : الدنیا ملعونۃ ملعون مافیھا الا امرا بمعروف اونھیا عن منکر اوذکر اﷲ یعنی دنیا ملعونہ وہر چیز دنیا ملعونہ جز بہ نیکی فرمودن واز بدی باز داشتن ویاد خدائے تعالٰی جل جلالہ رواہ البزار ۱؎ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ وعند الطبرانی فی الاوسط ۲؎ کحدیث ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ ونماز پس فاسق بکراہت شدیدہ مکروہ است کما فی الغنیۃ ۳؎ وغیرھا وقد فصلناہ فی رسالتنا النھی الاکید عن الصلوٰۃ وراء عدی التقلید۔
اور ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے مگر بھلائی کرنے کا حکم دینااور برے کام سے روکنا اور اللہ تعالٰی کی یاد اس سے مستثنٰی ہیں(یہ تینوں کام قابل تحسین ہیں) محدث بزار نے اس کو حضرت عبداللہ ابن مسعود (اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو) سے روایت کیا ہے۔ اور امام طبرانی نے ان سے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ نماز کا کیا حکم ہے تو واضح ہو کہ فاسق کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے جیسا کہ الغنیہ وغیرہ میں مذکور ہے ہم نے اس مسئلہ کو اپنے رسالہ النہی الاکید عن الصلوٰۃ وراء عدی التقلید میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(۱؎ الجامع الصغیر بحوالہ البزار عن ابن مسعود حدیث ۴۲۸۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۲۶۰) (۲؎ المعجم الاوسط حدیث ۴۰۸۴ مکتبہ المعارف ریاض ۵/ ۴۹) (۳؎ غنیہ المستملی فصل فی الامامۃ سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۱۳)
وقلیان کشید ن اگر بعقل وحواس فتور آورد چنانکہ وقت افطار رمضان معمول جہال ہندوستان است، خو دحرام است الحدیث ام سلمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن کل مُسْکِرو مفتر رواہ احمد وابوداؤد۴؎ بسند صحیح ورنہ اگر تعاھد نکنند ورائحہ کریہہ آرد، مکروہ تنزیہی وخلاف اولٰی باشد آنچنانکہ سیر و پیاز خام، واگر ازیں ہم خالی است مباح است، کما حققہ المولوی عبدالغنی النابلسی فی الحدیقۃ وغیرہا وقد فصلنا القول فی فتاوٰنا، وَاﷲ سُبْحٰنَہ وتَعَالٰی اَعْلَمُ وَعِلْمُہ جَلَّ مَجْدُہ اَتَمُ وَاَحْکَمْ۔
رہا حقہ نوشی کا تمباکو نوشی کا مسئلہ، تو اگر وہ عقل اور حواس میں فتور پیدا کرے جیسا کہ رمضان شریف میں افطار کے وقت ہندوستان کے جاہلوں کا معمول ہے تو یہ بطور خود حرام ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ایک حدیث کی وجہ سے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نشہ اور فتورپیدا کرنے والی چیز کا استعمال ممنوع ہے۔ امام احمد اور ابوداؤد نے سند صحیح کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے ورنہ اگر اسے معمول نہ بنائیں لیکن قابل نفرت بدبو پیدا ہو جائے تو مکروہ تنزیہہ اور خلاف اولٰی ہے جیسے کچا لہسن اور پیاز استعمال کرنا اور اگر اس سے بھی خالی ہو یعنی بدبو وغیرہ نہ ہو تو مباح ہے جیسا کہ مولانا عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ ندیہ وغیرہ میں اس کی تحقیق فرمائی ہے اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس قول کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالٰی پاک وبرتر سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے اور اس عظیم شان والے کا علم بڑا کامل اور محکم ہے۔
(۴؎ سنن ابی داؤد کتاب الاشربہ باب ماجاء فی السکر آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۱۶۳) (مسند احمد بن حنبل عن ام سلمہ المکتبہ الاسلامی بیروت ۶/ ۳۰۹)
مسئلہ ۹۵: از کوہ سباتھو، آکسفورڈ رجمنٹ مرسلہ امداد علی صاحب رجمنٹ اسکوتوالی ۲۸ ربیع الاول ۱۳۲۲ھ عالم علوم ظاہری وباطنی دام فیوضکم۔ تسلیم بصد تعظیم، جناب عالی! یہاں ایک امر میں دو فریق بر سر جنگ ہیں، وہ یہ ہے کہ بوقت نکاح زید کو خوشبو لگانا اور پھولوں کا گلے میں ڈالنا مسنون ہے یا ممنوع، یہاں ایک مولوی کاشمیری پھولوں کا گلے میں ڈالنا ناجائزفرماتے ہیں اوربہت زور دیتے ہیں، لہذا امیدوار کو جناب از راہ شفقت بزرگانہ جوبات حق ہو جواب سے مشرف فرمائیں۔
الجواب : خوشبو لگانا سنت ہے اور خوشبو کی چیزیں پھول پتی وغیرہ پسند بارگاہ رسالت ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہٖ وبارک وسلم۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: