ابوالصبہا گوئد ابن مسعودر ضی اللہ تعالٰی عنہما ازیں آیت پر سپیدم گفت ھو الغناء واﷲ الذی لا الہ الا ھو ۱؎ او سرود است سوگند بخدائے کہ ہیچ خدائے نیست جز ا ویرددھا ثلث مرات ۲؎ سہ بار ہمیں سخن وسوگند راتکرار فرمود بلکہ خود درحدیث آمدہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرمود لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن واثما نھن حرام وفی مثل ھذا نزلت ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اﷲ ۳؎ الحدیث (ترجمہ) روا نیست زنان سرآئندہ را آموختن ونہ آنہارا خریدن وفروختن وبہاء آنہا حرام است ودر ہمچنیں کارایں آیت فرمود آمدہ ست کہ برخے ازمردم سخن لاگ مے خرند تا مردماں رااز راہ خدا اے دور برند، رواہ الامام البغوی ۱؎ عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی تعالٰی عنہ۔
ابوالصبہاء فرماتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہما سے آیت مذکور کے متعلق پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ اس سے گانا مراد ہے، اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی سچا معبودنہیں، چنانچہ اس بات اور قسم کا تین مرتبہ تکرار فرمایا، بلکہ خود حدیث پاک میں آیا ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گویّا عورتوں کو تعلیم دینا جائز نہیں اور نہ ہی ان کا خرید وفروخت کرنا جائز ہے بلکہ ان کی قیمت وصول کرنا بھی حرام ہے اسی سلسلہ میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ لوگوں میں کوئی وہ شخص ہے جو یاوہ گوئی والی باتیں خریدتاہے تاکہ لوگوں کو اللہ تعالٰی کے راستے سے دور کردے، چنانچہ امام بغوی نے حضرت ابوامامۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۱/ ۶)
(۱؎ معالم التنزیل علی ہامش تفسیر الخازن تحت آیۃ ۳۱ / ۶ مصطفی البابی مصر ۵/ ۱۴۔۲۱۳)
وقال اﷲ تعالٰی: قال اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء موفورا oواستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکہم فی الاموال والاولاد وعدھم وما یعدھم الشیطان الاغرورا o ان عبادی لیس لک علیھم سلطان ۲؎o حق جل وعلامر ابلیس لعین رافرمود درشو، پس ہر کہ از فرزندان عالم ترا پیروی کند پس ہر آئینہ دوزخ پاداش ہمہ شما است پاداش کامل وسبک سارکن وبلغزاں ہر کہ برودست یابی از ایشاں بآواز خود، الآیۃ، امام مجاہد کہ ازاجلہ تلامذہ سلطان المفسرین عبداللہ بن عباس است رضی اﷲ تعالٰی عنہم دریں آیۃکریمہ آواز شیطان رابغنا ومزامیر تفسیر کردہ است۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: ابلیس لعین کو مخاطب کرتے ہوئے حکم فرمایا کہ یہاں سے چلا جا پھر اولاد آدم میں جو کوئی تیرے پیچھے جائیگا یقینا دوزخ ان سب کے لئے پوری اور کامل سزا ہے۔ پھر ان میں سے جس پر تو قابو پائے اپنی آواز سے اسے ہلکا پھلکا کرتے ہوئے پھیلادے اور ان پر لام باندھ لا اپنے سواروں اور اپنے پیادوں کا، اور ان کا ساجھی ہو مالوں اور بچوں میں اور انھیں وعدہ دے اور شیطان انھیں وعدہ نہیں دیتا مگر فریب سے۔ بیشک جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کچھ قابونہیں۔امام مجاہد، جو مفسرین کے بادشاہ حضرت عبداللہ ابن عباس کے جلیل القدر شاگردوں میں سے ہیں اللہ تعالٰی ان سب سے راضی ہو) وہ اس آیت کریمہ میں مذکور شیطان کی آواز سے گانا بجانا اور اس کے آلات وغیرہ مراد لیتے ہیں۔
(۲؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۶۳ تا ۶۵)
وقال تعالٰی: ولیضربن بخمر ھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن اواٰبائھن ۱؎ الاٰیۃ۔
یعنی اے نبی! زنان مومنات رافرماے کہ بزنند سراند از ہائے خود رابرگریبان ہائے خود، (تاسر وموو سینہ وگلو ہمہ نہاں ماند) و نہ نمایند آرائش خود را مگر بشوہر ان یامحارم۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا اے نبی مکرم! مسلمان عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھا کریں تا کہ سر، بال، سینہ اور گلا سب با پردہ ہوجائیں اور اپنی زیبائش کو نمایاں نہ کیا کریں بجز ان کے جوان کے شوہر یا دیگر محارم ہیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۳۱)
وقال اﷲ تعالٰی فی اخر الکریمۃ ولا یضربن بارجلھن لیعلم مایخفین من زینتھن ط وتوبوا الی اﷲ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون ۲؎ o
(ترجمہ) وزنان نزنند پاہائے خویش راتا دانستہ شود آنچہ نہاں مے دارند از آرائش خود وہمہ باز گردید بسوئے خدا ئے تعالٰی اے مسلمانان تابکام رسید (نجات یابید)
اور اللہ تعالٰی نے اایت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا عورتیں اپنے پاؤں زور سے زمین پر نہ ماریں جس سے ان کی مخفی زینت ظاہر ہونے لگے۔ اور اے مسلمانو! تم سب اللہ تعالٰی کی طرف لوٹ جاؤ تاکہ مراد پالو۔
(۲؎القرآن الکریم ۲۴/ ۳۱ )
وقال تعالٰی: ولا تقربوا الفواحش ماظھر منھا ومابطن ۳؎
(ترجمہ) ونزدیک مشوید کارہائے بے حیائی راہر چہ از آنہا آشکارا است، دہر چہ نہاں است ایں ہمہ آیات وغیر اینہا در تحریم ہمہ اجزائے ایں کار شنیع نص منیع است، ودر احادیث خود کثرتے است کہ احصانتواں کرد۔
نیز ارشاد خداوندی ہے : لوگو ! بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی مت جاؤ خواہ وہ ظاہر ہوں یا مخفی، یہ تمام آیات اور ان کے علاوہ دوسری آیتیں اس برے کام کے تمام اجزاء کے حرام قرار دینے کے لئے قوی اور مضبوط نصوص ہیں، رہا احادیث کا معاملہ، تو وہ اس کثرت سے ہیں کہ ان کو احاطہ شمار میں نہیں لایا جاسکتا۔
(۳؎القرآن الکریم ۶/ ۱۵۱)
بالجملہ زن اجنبیہ را ایں چنین بے حجابانہ بمجلس مردان را ہ دادن (یکے) وہرچہ تمام تر ہر ہفت وآراستہ بودنش (دو) مردمان رابسوئے او بنظر تلذذدیدن (سہ) وباعضائے عورت او از سر ومو ومساعد وبازو وسینہ وگلونگر یستن (چہارم) وسرود وزمزمہ اش (پنج)، ولفظ مزامیر برآں آتش تیز وتند (شش) وپائے کوبی آن زن خاصہ با آواز خلخال و زنگلہ زیور (ہفت) ودیگر حرکات فتنہ انگیز وشہوت خیز (ہشت) ایں ہمہ ہا در شرع محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرام وحرام وحرام است، ظلمت بعضھا فوق بعض ۱؎۔
(خلاصہ کلام) اس برے عمل میں بہت سی خرابیاں ہیں (۱) غیر محرم عورت کا اس طرح بے پردہ، مردوں کی محفل میں جانا، ہیجان خیز اور فتنے کا باعث ہے (۲) اس کا آراستہ و پیراستہ ہونا اور بن ٹھن کرنکلنا (۳) مردوں کا اسے شہوت کی نگاہ سے حصول لذت کے لئے دیکھنا (۴) اس کے اعضاء مثلا سر، بال، بازو، سینہ اور گلا، ان سب کی طرف دیکھنا (۵) اس کا ترنم سے گیت گانا (۶) گانے بجانے کے آلات استعمال کرنا، یہ ان پر مزید تند وتیز آگ ہے (۷) اس خاص عورت کا زور سے پاؤں زمین پر مارنا کہ جس سے اس کے زیورات کی جھنکار محسوس ہونے لگے (۸) ان سب کے علاوہ، دوسری فتنہ برپا کرنے والی حرکت اور شہوت خیز انداز یہ سب کام حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شریعت میں حرام، حرام اور حرام ہیں اور یہ ایک دوسرے پر مزید اندھیرے ہیں۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۴۰)
الحاصل حرمت ایں فاحشہ شنیعہ از ضروریات دین محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تاآنکہ ہر کہ او راحلال داند بالقطع و الیقین کافرشود، والعیاذ باللہ تعالٰی ودیگر لہو ہائے نامشروعہ راسائل تفصیل نہ کرد بعضے از لہو ہائے ممنوعہ کبیرہ باشد، وبعضے صغیرہ کہ باصرار کبیرہ شود،
خلاصہ یہ ہے کہ اس برے اور بے حیائی کے کام کی حرمت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین میں واضح ہے۔ یہاں تک کہ جوکوئی اس کو حلال جانے وہ قطعی اور یقینی طور پر کافر ہوجائیگا اللہ تعالٰی کی پناہ، اور دوسرے ناجائز کھیلوں کی سائل نے کوئی تفصیل ذکر نہیں کی لیکن ان میں سے بعض ممنوع اور گناہ کبیرہ ہیں اور بعض گناہ صغیرہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
وعلی الاجمال درحدیث مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم آمدہ است کل شیئ یلھوبہ الرجل باطل الارمیہ بقوسہ وتادیبہ فرسہ وملاعبتہ بامرأتہ فانھن من الحق ۱؎ یعنی ہمہ بازی ہا باطل است مگر تیراندازی واسپ تازی وبازن خود بازی کہ اینہا از حق است رواہ احمد والدارمی و ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن عقبۃ بن عامر والحاکم فی المستدرک عن ابی ھریرہ والطبرانی فی الاوسط عن امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔ وخود مومن را ایں حدیث عام وتام وجامع ونافع بسند است کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرمود الدنیا ملعونۃ وملعون مافیھا الاماکان منھا ﷲ عزوجل یعنی بر دنیا نفرین وبر ہر چہ درآن است نفرین مگر آں چہ ازاں برائے خدائے عزوجل باشد، رواہ ابونعیم فی الحلیۃ ۲؎۔ والضیاء فی المختارۃ عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنھما بسند حسن۔