مرقاۃ میں ان الفاظ (ماکان معکم لھو) کے ذیل میں ہے۔ کیا تمھارے پاس کوئی دف بجانے والا نہیں اورنہ ایسا کوئی اشعار پڑھنے والا ہے کہ جن میں کوئی گناہ نہیں، شادیوں میں اس کی اجازت ہے یونہی کہا گیا ۔ اور زیادہ ظاہر وہ بات ہے جو علامہ طیبی نے ارشاد فرمائی کہ حدیث میں تحضیض یعنی ابھار نے اور اکسانے کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی روایت میں ''الا ارسلتم الخ '' کے الفاظ ہیں یعنی کیا تم نے اس لڑکی کے ساتھ اس کو نہ بھیجا جو یوں کہتا (اتیناکم الحدیث) ملخص پورا ہوگیا۔
(۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب النکاح باب اعلان النکاح الفصل الاول مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۶/ ۳۰۲)
وفیھا تحت الحدیث السابع ای وان اﷲ یحب ان تؤتی رخصۃ کما یحب ان تؤتی عزائمہ ۳؎ اھ قلت فالتحضیض کالتخضیض علی الرخصۃ لا لانہ الافضل فافھم وفی اشعۃ اللمعات تحت الحدیث السادس تغنی مباح است درنکاح مثل دف ۴؎ اھ
اور اسی میں ساتویں حدیث کے ذیل میں ہے یعنی اللہ تعالٰی پسند کرتا ہے کہ رخصت پر عمل کیا جائے جیسا کہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی عزیمتوں کو ادا کیا جائے (عبارت مکمل) میں کہتا ہوں یہ تخضیض اسی طرح ہے جیسے رخصت پر تحضیض ، یہ نہیں کہ وہ افضل ہو اس کو سمجھ لیا جائے، اشعۃ اللمعات میں چھٹی حدیث کے ذیل میں ہے کہ نکاح میں گانا بجانا مباح ہے جیسے دف بجانا اھ ________
(۳؎مرقاۃ المفاتیح کتاب النکاح باب اعلان النکاح الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۶/ ۳۱۹)
(۴؎ اشعۃ اللمعات کتاب النکاح باب اعلان النکاح الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۱۲۰)
وفی حظر ردالمحتار قبیل فصل اللبس عن الحسن لابأس بالدف فی العرس یشتھرو فی السراجیۃ ھذا اذا لم یکن لہ جلاجل ولم یضرب علی ھیأۃ التطرب ۱؎ اھ
فتاوٰی شامی کی بحث حظر میں ہے جو فصل اللبس سے کچھ پہلے حضرت حسن سے روایت ہے کہ تشہیر کے لئے تقریب میں دف بجائی جاسکتی ہے اور دف کے بجائے میں کوئی حرج نہیں، سراجیہ میں ہےکہ یہ اجازت اس صورت میں ہے کہ دف بآواز جہار نہ ہو، اور وہ گانے کی طرز پر نہ بجائی جائے، (عبارت مکمل)
(۱؎ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۳)
وفی الھندیۃ سئل ابویوسف عن الدف أ تکرھہ فی غیر العرس بان تضرب المرأۃ فی غیر فسق للصبی قال لااکرھہ واما اللذی یجیئ منہ اللعب الفاحش للغناء فانی اکرھہ کذا فی محیط السرخسی ولا باس بضرب الدف یوم العید کما فی خزانۃ المفتین ۲؎ اھ،
اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دف کے بجانے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آپ تقریب شادی کے بغیر اس کو ناپسند کرتے ہیں کہ عورت بغیر حالت فسق کے صرف بچہ کے لئے بجائے، فرمایا میں اس کو ناپسند نہیں کرتا لیکن وہ جو گانے کے لئے فحش کھیل کے طور پر بجائے تو وہ ناپسندیدہ ہے۔ محیط سرخسی میں یونہی مذکور ہے۔ عید کے دن دف بجانے میں کوئی مضائقہ نہیں اسی طرح خزانہ المفتین میں ہے اھ،
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ البا ب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۲)
وفی شھادات ردالمحتار جواز ضرب الدف فیہ (ای فی العرس) خاص بالنساء کما فی البحر عن المعراج بعد ذکرہ انہ مباح فی النکاح ومافی معناہ من حادث سرور قال ھو مکروہ للرجال علی کل حال للتشبہ بالنساء ۳؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ردالمحتار کی بحث شہادت میں ہے کہ شادی میں دف بجانا عورتوں کے ساتھ خاص ہے اس وجہ سے جو بحرالرائق میں معراج سے منقول ہے بعد اس ذکر کرنے کے کہ وہ تقریب نکاح اور خوشی کے موقع سے جو مناسبت رکھتاہو اس میں دف بجانا مباح ہے۔ اور فرمایا مردوں کے لئے وہ ہر حال میں مکروہ ہے کیونکہ اس میں عورتوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور اللہ تعالٰی بڑا علم والا ہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الشہادات باب قبول الشہادت داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۸۲)
مسئلہ ۹۱ و ۹۲: ا زموضع ہر نمیگل کمرلا علاقہ بنگالہ مرسلہ مولوی عبدالحمید صاحب ۲ ربیع الاول
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں :
سوال اول: کیا شادی وغیرہ میں آتشبازی چھوڑنا جائز ہے یانہیں؟
سوال دوم: اعلان کے لئے شادی میں بندوق چھوڑنا جائز ہے یانہیں؟
الجواب
جوا سوال اول: ناجائز ہے ، اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
ولا تبذر تبذیرا o ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا o ۱؎۔
بے جا خرچ نہ کرو کیونکہ بے جا اور فضول خرچ کرنیوالے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۲۶ و ۲۷)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اﷲ تعالٰی حرم علیکم عقوق الامھات و وأدالبنات ومنعاوھات وکرہ لکم قیل وقال وکثرۃ السؤال واضاعۃ المال، رواہ الشیخان ۲؎ عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بے شک اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام کردی اور بچیوں کو زندہ درگور کرنا اور بخل کرنا اور گدا گری کرنا اور ادھر ادھر کی فضول باتیں کرنا تم پر حرام کردیا ہے۔ اور فرمایا زیادہ سوال کرنا اور مال کو ضائع کرنا بھی حرام کردیا گیا ہے۔ بخاری ومسلم نے اس کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور اللہ تعالٰی خوب جانتاہے۔ (ت)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۴)
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب النہی من کثرۃ المسائل الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۵، ۷۶)
جواب سوال دوم: جائز ہے۔
اخرج الترمذی عن ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قالت قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
امام ترمذی نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تخریج فرمائی کہ آپ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛
اعلنوا ھذا النکاح واجعلوہ فی المساجد واضربوا علیہ بالدفوف ۱؎۔ وروی احمد بسند صحیح وابن حبان فی صحیحہ و الطبرانی فی الکبیر وابونعیم فی الحلیۃ والحاکم فی المستدرک عن عبداﷲ بن الزبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال اِعْلَنوا النکاح ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
لوگو! نکاح کااعلان کیا کرو (یعنی اس کی تشہیر کیا کرو) اور مسجدوں میں نکاح کیا کرواور اس کی تشہیر کے لئے دف بجایا کرو۔ امام احمد نے سند صحیح سے ابن حبان نے اپنی صحیح میں طبرانی نے الکبیر میں اور ابونعیم نے الحلیۃ میں اور حاکم نے المستدرک میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نکاح کا اعلان کیا کرو، اللہ تعالٰی تو بخوبی واقف اور آگاہ ہے۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب النکاح باب ماجاء فی اعلان النکاح امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲۹)
(۲؎ المستدرک للحاکم کتاب النکاح الامر باعلان النکاح دارالفکر بیروت ۲/ ۱۸۳)
(مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن الزبیر المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۵)
(حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۴۲۸ عبداللہ بن وہب دارالکتاب العربی بیروت ۸/ ۳۲۸)
(مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی فی الکبیر کتاب النکاح باب اعلان النکاح دارالکتاب بیروت ۴/ ۲۸۹)
(موارد الظمان حدیث ۱۲۸۵ ۱/ ۳۱۳ و کنز العمال حدیث ۴۴۵۳۴ ۱۶/ ۲۹۱)