Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
55 - 190
فاخرج الطبرانی عن السائب بن یزید رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال لقی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جواری یتغنین یقلن تحیونا نحییکم فقال لاتقولوا ھکذا ولکن قولوا حیانا وایاکم فقال رجل یارسول اﷲ اترخص للناس فی ھذا قال نعم انہ نکاح لا سفاح ۲؎
اما م طبرانی نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے تخرج فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ملاقات چند بچیوں سے ہوئی جو گارہی تھیں اور یہ کہہ رہی تھیں کہ ہم تمھیں اپنی زندگی بخشتی ہیں تو ہمیں بخشو آپ نے فرمایا: یوں نہ کہو بلکہ یوں کہو حیانا وایاکم اللہ تعالٰی ہمیں بھی زندہ رکھے اور تمھیں بھی زندہ رکھے۔ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی وسلم! کیا آپ لوگوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں ؟ فرمایا: ہاں اے برادر یہ نکاح ہے کوئی بدکاری تو نہیں ہے۔
(۲؎ المعجم الکبیر         حدیث ۶۶۶۶         المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۷/ ۱۵۲)
واخرج احمد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن محمد بن حاطب الجمحی عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال فصل مابین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح ۱؎۔
امام احمد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے محمد بن حاطب جمحی کے حوالے سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تخریج فرمائی، آپ نے ارشاد فرمایا حلال اور حرام کے درمیان فرق نکاح میں اعلان اور دف بجانے کا ہے۔
 (۱؎ جامع الترمذی     ابوب النکاح باب ماجاء فی اعلان النکاح        امین کمپنی کراچی    ۱/ ۱۲۹)

(سنن النسائی         کتاب النکاح اعلان النکاح  بالصوت وضرب الدف     نورمحمد کارخانہ کراچی    ۲/ ۹۰)

(سنن ابن ماجہ ابواب النکاح     اعلان النکاح                  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۳۸)

(مسند احمد بن حنبل     حدیث محمد بن حاطب             المکتب الاسلامی بیروت    ۳/ ۴۱۸و ۴/ ۲۵۹)
واخرج النسائی عن عامر بن سعد قال دخلت علی قرظۃ بن کعب وابی مسعود الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما فی عرس واذا جوار یغنین فقلت انتما صاحبا رسول اﷲ تعالٰی وسلم ومن اھل بدر یفعل ھذا عندکم فقالا اجلس ان شئت فاسمع معنا وان شئت فاذھب قدرخص لنافی اللھو عند العرس ۲؎
امام نسائی نے عامر بن سعد کے حوالہ سے تخریج فرمائی کہ انھوں نے فرمایا کہ میں قرظہ بن کعب اور ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما کے پاس ایک تقریب شادی میں گیا میں نے دیکھا کہ چند لڑکیاں گارہی تھیں میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اے دو ساتھیو! اور غزوہ بدر میں شریک ہونے والو! تمھارے ہاں یہ کچھ کیا جارہا ہے ؟ انھوں نے فرمایا اگر پسند کرتا ہے تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر سن لو اور اگر نہیں پسند کرتا اور نہیں چاہتا تو واپس چلا جا کیونکہ شادیوں میں ہمیں اس کی رخصت دی گئی ہے۔
 (۲؎ سنن النسائی      کتاب النکاح اللہو والغناء عند العرس             نورمحمد کارخانہ تجارت کراچی        ۲/ ۹۲)
قال الامام البدر محمود العینی فی عمدۃ القاری تحت الحدیث الاول فی الحدیث فوائد (الٰی ان قال) منھا الضرب بالدف بحضرۃ الشارع الملۃ ومبین الحل من الحرمۃ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واعلان النکاح بالدف والغناء المباح فرقا بینہ وبین مایستتر بہ من السفاح ۱؎ اھ
امام بدرالدین محمود عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کی پہلی حدیث کے ذیل میں فرمایا حدیث میں بہت سے فوائد ہیں (وہ سب شمار کرتے ہوئے) یہاں تک فرمایا ان میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ شارع ملت کی موجودگی میں دف بجائی گئی اور حلت وحرمت ظاہر کرنے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسا کیا گیا ، اور دف بجاکر اور مباح گانا گا کر نکاح کا اعلان کرو تاکہ نکاح اورخفیہ بدکاری (حلال وحرام) کا فرق واضح ہوجائے،
 (۱؎ عمدۃ االقاری  شرح صحیح البخاری کتاب النکاح باب ضرب الدف فی النکاح     ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت    ۲۰/ ۱۳۶)
وفی المرقاۃ قیل تلک البنات لم یکن بالغات حد الشھوۃ وکان دفھن غیر مصحوب بالجلاجل قال اکمل الدین الدف بضم الدال اشھر وافصح ویروٰی بالفتح ایضا وفیہ دلیل علی جواز ضرب الدف عند النکاح والزفاف للاعلان، والحق بعضھم الختان و العیدین والقدوم من السفر ومجتمع الاحباب المسرور، وقال المراد بہ الدف الذی کان فی زمن المتقدمین واما ماعلیہ الجلاجل فینبغی ان تکون مکروہا بالاتفاق ۲؎ اھ
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہا گیا کہ وہ بچیاں نابالغہ تھیں حد بلوغت کو پہنچی ہوئی نہ تھیں اور ان کی دفیں بھی جہار والی نہ تھیں، امام اکمل الدین نے فرمایا الدف حرکت پیش کے ساتھ زیادہ مشہور ہے اور دال پر زبر کی حرکت کی روایت بھی ہے اور یہ دلیل ہے کہ نکاح کرنے اور دلہن کو رخصت کرنے کے وقت اعلان کے لئے دف بجانا جائز ہے اور بعض نے تقریب ختنہ، عیدین، سفر سے واپسی اور دوستوں کے اجتماع کو بھی تقریب شادی سے ملحق کیا ہے یعنی ان تمام مواقع پر بھی دف بجانے کی اصل اجازت ہے اور فرمایا کہ اس سے وہ دف مراد ہے جو گزشتہ زمانے میں مروج تھی، اور جہار والی دف بجانا  بالاتفاق مکروہ ہے۔
 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح     کتاب النکاح باب اعلان النکاح الفصل الاول         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ        ۶/ ۳۰۱)
وفی العینی تحت الحدیث الثانی فی التوضیح اتفق العلماء علی جواز اللھو فی ولیمۃالنکاح کضرب الدف وشبھہٖ ۱؎ الخ
علامہ عینی دوسری حدیث کی وضاحت فرماتے ہیں ولیمہ و نکاح کے موقع پر کھیل کود کو اہل علم بالاتفاق مباح اور جائز قرار دیتے ہیں جیسے دف بجانا یا اس کے مشابہ کسی آلہ لہو کو استعمال کرنا الخ،
 (۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب النکاح باب النسوۃ اللاتی یہدین الخ     ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت    ۳۰/ ۱۴۹)
وفی المرقاۃ تحت الحدیث الثانی ماکان معکم لھو'' ای الم یکن معکم ضرب دف وقراء ۃ شعر لیس فیہ اثم وھذا رخصۃ عند العرس کذا قیل والاظھر ماقال الطیبی فیہ معنی التحضیض کما فی حدیث عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا الا ارسلتم معھم من یقول اتیناکم الحدیث ۲؎ اھ ملخصا۔
Flag Counter