Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
54 - 190
آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بیشک حرام اور پوراجرم ہے کہ اس میں تضییع مال ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا۔
قال اﷲ تعالٰی لا تبذر تبذیرا o ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین o وکان الشیطان لربہ کفورا o۴؎
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: کسی طرح بے جا نہ خرچ کیا کرو کیونکہ بے جا خرچ کرنیوالے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت بڑا ناشکر گزار ہے۔ (ت) 

رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
 ان اﷲ تعالٰی کرہ لکم ثلثا قیل وقال واضاعۃ المال وکثرۃ السوال، رواہ البخاری ۵؎ عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بے شک اللہ تعالٰی نے تمھارے لئے تین کاموں کو ناپسند فرمایا: (۱) فضول باتیں کرنا (۲) مال کو ضائع کرنا (۳) بہت زیادہ سوال کرنا اور مانگنا، امام بخاری نے اس کو حضرت مغیرہ بن بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے (ت)
 (۴؎ القرآن الکریم                        ۱۷/ ۲۶ و ۲۷)

 (۵؎ صحیح البخاری     کتاب الزکوٰۃ با ب قول اللہ تعالٰی لا یسئلون الناس الحافا      قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۰۰ و ۲/ ۸۸۴)

(صحیح مسلم     کتاب الاقضیۃ باب النہی عن کثرۃ المسائل   قدیمی کتب خانہ کراچی      ۲/ ۷۵ و ۷۶)
شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدث دہلوی ماثبت بالسنۃ میں فرماتے ہیں: من البدع الشنیعۃ ماتعارف الناس فی اکثر بلاد الہند من اجتماعھم للھو واللعب بالنار، واحراق الکبریت ۱؎ اھ مختصرا۔

بری بدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں جیسے آگ کے ساتھ کھیلنا اور تماشہ کرنے کے لئے جمع ہونا گندھک جلانا وغیرہ اھ مختصرا (ت)
(۱؎ ماثبت بالسنۃ ذکر شہر شعبان     المقالۃ الثالثۃ ادارہ نعیمیہ رضویہ موچی گیٹ لاہور    ص۲۸۲)
اسی طرح یہ گانے بجانے کہ ان بلاد میں معمول ورائج ہیں بلا شبہہ ممنوع وناجائز ہیں خصوصا وہ ناپاک وملعون رسم کہ بہت خران بے تمیز احمق جاہلوں نے شیاطین ہنود ملاعین بے بہبود سے سیکھی یعنی فحش گالیوں کے گیت گوانا اور مجلس کے حاضرین وحاضرات کو لچھے دار سنانا سمدھیانہ کی عفیف و پاکدامن عورتوں کو الفاظ زنا سے تعبیر کرنا کرانا خصوصا اس ملعون بے حیا رسم کا مجمع زنان میں ہونا ان کا اس ناپاک فاحشہ حرکت پر ہنسنا، قہقہے اڑانا، اپنی کنواری لڑکیوں کو یہ سب کچھ سناکر بدلحاظیاں سکھانا، بے حیا، بے غیرت، خبیث ، بے حمیت مردوں کا اس شہدہ پن کو جائز رکھنا، کبھی برائے نام لوگوں کو دکھاوے کہ جھوٹ سچ ایک آدھ بار جھڑک دینا، مگر بندوبست قطعی نہ کرنا، یہ وہ شنیع ، گندی اور مردود رسم ہے جس پر صدہا لعنتیں اللہ عزوجل کی اترتی ہیں اس کے کرنے والے اس پر راضی ہونے والے۔ اپنے یہاں اس کا کافی انسداد نہ کرنے والے سب فاسق فاجر، مرتکب کبائر مستحق غضب جبار و عذاب نار ہیں والعیاذ باللہ تبارک وتعالٰی، اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ہدایت بخشے آمین، جس شادی میں یہ حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہر گز شریک نہ ہوں اور اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو تو سب مسلمان مردوں عورتوں پر لازم ہے کہ فورا اسی وقت اٹھ جائیں اور اپنی جورو بیٹی ، ماں، بہن کو گالیاں نہ دلوائیں، فحش نہ سنوائیں، ورنہ یہ بھی ان ناپاکیوں میں شریک ہوں گے اور غضب الٰہی سے حصہ لیں گے والعیاذ باللہ رب العالمین ۔ زنہار زنہار اس معاملہ میں حقیقی بہن بھائی بلکہ ماں باپ کی بھی رعایت ومروت روانہ رکھیں کہ : لاطاعۃ لاحد فی معصیۃ اﷲ تعالٰی۱؂۔ اللہ تعالٰی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ (ت)
 (۱؎ مسند احمد بن حنبل     بقیہ حدیث حکم بن عمرو الغفاری     المکتب الاسلامی بیروت    ۵/ ۶۶،۶۷)

(المعجم الکبیر         حدیث ۳۱۵۰         المکتبۃ الفیصلیۃبیروت    ۳/ ۲۰۸)

(المستدرک للحاکم    کتاب معرفۃ الصحابۃ         دارالفکر بیروت    ۳/ ۱۲۳)
ہاں شرع مطہر نے شادی میں بغرض اعلان نکاح صرف دف کی اجازت دی ہے جبکہ مقصود شرع سے تجاوز کرکے لہو مکروہ وتحصیل لذت شیطانی کی حد تک نہ پہنچے، ولہذا علماء شرط لگاتے ہیں کہ قواعد موسیقی پر نہ بجایا جائے، تال سم کی رعایت نہ ہو نہ اس میں جھانج ہوں کہ وہ خوا ہی نخواہی مطرب وناجائز ہیں۔ پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے۔ نہ شرف والی بیبیوں کے مناسب بلکہ نابالغہ چھوٹی چھوٹی بچیاں یا لونڈیاں باندیاں بجائیں، اور اگر اس کے ساتھ کچھ سیدھے سادے اشعار یا سہرے سہاگ ہوں جن میں اصلا نہ فحش ہو نہ کسی بے حیائی کا ذکر، نہ فسق وفجور کی باتیں، نہ مجمع زنان یافاسقان میں عشقیات کے چرچے نہ نامحرم مردوں کو نغمہ عورات کی آواز پہنچے، غرض ہر طرح منکرات شرعیہ ومظان فتنہ سے پاک ہوں، تو اس میں مضائقہ نہیں۔ جیسے انصار کرام کی شادیوں میں سمدھیانے جاکر یہ شعر پڑھاجاتاتھا ؎
اتینا کم اتیناکم     فحیانا وحیاکم ۲؎
یعنی ہم تمھارے پاس آئے ہم تمھارے پاس آئے، اللہ ہمیں زندہ رکھے تمھیں بھی جلائے یعنی زندہ رکھے۔
 (۲؎ سنن ابن ماجہ     ابواب النکاح با ب فی الغناء والدف     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۳۸)
پس اس قسم کے پاک وصاف مضمون ہوں، اصل حکم میں تو اسی قدر کی رخصت ہے مگر حال زمانہ کے مناسب یہ ہے کہ مطلق بندش کی جائے کہ جہال حال خصوصا زنان زمان سے کسی طرح امید نہیں کہ انھیں جو حد باندھ کر اجازت دی جائے اس کی پابند رہیں اور حد مکروہ وممنوع تک تجاوز نہ کریں۔ لہذا سرے سے فتنہ کا دروازہ ہی بند کیا جائے نہ انگلی ٹیکنے کی جگہ پائیں گی نہ آگے پاؤں پھیلائیں گی، خصوصا بازاری فاجرہ فاحشہ عورتوں ، رنڈیوں، ڈومنیوں کو تو ہر گز ہر گز قدم نہ رکھنے دیں کہ ان سے حد شرع کی پابندی محال عادی ہے۔ وہ بے حیائیوں فحش سرائیوں کی خوگرہوتی ہیں منع کرتے کرتے اپنا کام کر گزریں گی بلکہ شریف زادیوں کا ان آوارہ بدوضعوں کے سامنے آنا ہی سخت بیہودہ وبیجا ہے۔ صحبت بد زہر قاتل ہے اور عورتیں نازک شیشیاں ہیں جن کے ٹوٹ جانے کے لئے ایک ادنی سی ٹھیس بھی بہت ہوتی ہے اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یا انجشۃ رَوَیْدا بالقواریر ۱؎ (اے انجشہ! ٹھہر جاؤ کہیں کانچ کی شیشیاں ٹوٹ نہ جائیں۔ ت) فرمایا۔
 (۱؎ صحیح بخاری         کتا ب الادب     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۱۰۔۹۰۸)

(صحیح مسلم         کتاب الفضائل باب رحمتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم النساء  قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۵۵)

(مسنداحمد بن حنبل     عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۳/ ۲۵۴)
ھذا کلہ ظاہر بین عند من نور اﷲ تعالٰی بصیرتہ وجمیع مانھینا عنہ فان علیہ دلائل ساطعۃ من القراٰن العظیم والحدیث الکریم والفقۃ القویم بیدان وضوح الحکم اغنانا عن سردھا فلنذکر بعض دلائل علی ماذکرنا اباحتہ فانا نرٰی ناسا یشد دون الامر یطلقون القول بالتحریم و منھم من یبیح ضرب الدف بشرط ان لایکون معہ شیئ من الشعر وانما یکون محض دف مع ان الاحادیث ترد ذٰلک کما ستعلم مماھنالک اخرج الامام البخاری فی صحیحہ من الربیع بنت معوذ بن عفرا قالت جاء النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ والہ وسلم فدخل حسین بن علی فجلس علی فراشی کمجلسک منی فجعلت جویریات لنا یضربن بالدف ویندبن من قتل من اٰبائی یوم بدر ۱؎ الحدیث۔
یہ سب کچھ اچھی طرح واضح ہے ہر اس بندے پر جس کو اللہ تعالٰی نے دل کی روشنی بخشی ہے اور تمام وہ باتیں جن سے ہم نے منع کیا ہے کیونکہ اس پر قرآن عظیم ، حدیث مبارک اور فقہ قویم کے روشن دلائل موجود ہیں لہذا واضع حکم نے ہمیں اس کی تفصیل سے بے نیاز کردیا ہے پھر ہم بعض دلائل بیان کرتے ہیں اس مسئلہ پر جس کی اباحت ہم نے پہلے ذکرکر دی کیونکہ کچھ لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاملہ میں سختی کرتے ہیں اور مطلق تحریم کا قول ذکر کرتے ہیں (قول بالتحریم مطلق بیان کرتے ہیں) اور کچھ وہ لوگ ہیں جو دف بجانا مباح کہتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ اشعار نہ پڑھے جائیں بلکہ صرف دف بجائی جائے حالانکہ حدیث میں اس کی تردید آئی ہے اور جو کچھ یہاں مذکور ہوگا عنقریب تم جان لوگے امام بخاری نے اپنی صحیح میں ربیع بنت معوذ بن عفراء کے حوالہ سے تخریج فرمائی کہ اس بی بی نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے تو حضرت حسین بن علی حاضر خدمت ہوئے اور میرے بچھونے پر اس طرح تشریف فرماہوئے جیسے تمھارا میرے پاس بیٹھنا ہے اور ہماری کچھ بچیاں دف بجا بجا کر ہمارے اکابر شہداء بدرکے مرثیے پڑھتی رہیں ۔الحدیث ۔
 (۱؎ صحیح البخاری         کتاب النکاح باب ضرب الدف بالنکاح         قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۷۷۳)
واخرج ایضا عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا انھا زفت امرأۃ الی رجل من الانصار فقال نبی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ماکان معکم لھو فان الانصار یعجبھم اللھو ۲؎،
اور یہ بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی سند سے تخریج فرمائی کہ ایک دلہن اپنے انصاری شوہر کے گھر رخصت کی گئی تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمھارے پاس کوئی کھیل(گانے بجانے) کا سامان نہ تھا کیونکہ انصار اس سے جوش میں آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں،
(۲؎صحیح البخاری     با ب النسوۃ اللاتی یہدین المرأۃ الخ       قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۷۷۵)
واخرج القاضی المحاملی عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنھما فی ھذاالحدیث انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ادرکیھا یا زینب امرأۃ کانت تغنی بالمدینۃ ۳؎۔
قاضی محاملی نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے اس حدیث کی تخریج فرمائی کہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے زینب! کسی ایسی عورت سے رسائی حاصل کرو جو مدینہ منورہ میں گانے والی ہو،
 (۳؎ فتح الباری بحوالہ المحاملی کتاب النکاح  با ب النسوۃ اللاتی یہدین المرأۃ الخ     مصطفی البابی مصر    ۱۱/ ۱۳)

(عمدۃ القاری        کتاب النکاح   با ب النسوۃ اللاتی یہدین المرأۃ الخ    ادارۃ الطباعۃ المنیریۃبیروت    ۲۰/ ۱۴۹)
واخرج ابن ماجۃ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما قال انکحت عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا ذات قرابۃ لھا من الانصار فجاء رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال اھدیتم الفتاۃ قالوا نعم قال الا ارسلتم معھا من تغنی قالت لا فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان الانصار قوم فیھم غزل فلو بعثتم معھا من یقول اتینکم اتینکم فحیا نا وحیاکم ۱؎
محدث ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس کے حوالے سے تخریج فرمائی (اللہ تعالٰی دونوں سے راضی ہو) انھوں نے فرمایا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے قبیلہ انصار میں اپنی ایک قربتدار کا نکاح کیا تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کیا تم نے اس نوجوان لڑکی کو کوئی ہدیہ (تحفہ) دیا ہے؟ گھروالوں نے عرض کی: جی ہاں، پھر فرمایا: کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی گانے والی بھیجی ہے؟ سیدہ نے عرض کی: جی نہیں۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انصار کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جن میں غزلیات پڑھنے کا رواج ہے لہذا اگر تم لوگ اس دلہن کے ساتھ کوئی ایسا شخص بھیجتے جو کہتا اتیناکم اتیناکم الخ یعنی ہم تمھارے پاس آگئے اللہ تعالٰی ہمیں بھی زندہ رکھے اور تمھیں بھی زندہ رکھے،
 (۱؎ سنن ابن ماجہ     ابواب النکاح باب الغناء والدف     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۳۸)
Flag Counter