فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۸۶ تا ۸۸: از شہر کوٹہ راجپوتانہ محلہ لاڈپورہ معرفت گانس بہرو کے مسئولہ الٰہی بخش لوہار ۲۸ جمادی الاولٰی کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ: (۱) شادی میں ہندؤوں کی رسم کے موافق گانے اور باجے کے ساتھ کمھار کے گھر سے برتن لانے کے واسطے کیا حکم ہے؟ (۲) شادی میں کپڑا پہناتے وقت ہندوؤں کی طرح پیشانی میں ہلدی کا ٹیکا لگانا کیسا ہے؟ (۳) لڑکے کی سالگرہ کے روزلچھے میں عمر کی گرہ لگانا کیسا ہے؟
الجواب (۱) ناجائز ہے وگناہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (۲) ناجائز وگناہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (۳) ناجائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۹: از دیوگڑھ میواڑ راجپوتانہ مرسلہ عبدالعزیز صاحب ۸ شوال ۱۳۳۸ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہاں دونوں عیدوں پر مسلمان بڑے تزک واحتشام سے اسلام کی شان وشوکت ظاہر کرتے ہیں یعنی نماز کے لئے جاتے وقت توپوں کے فَیر ہوتے ہیں اور نشان و گھوڑا وتاشے بجتے ہوئے عیدگاہ کو جاتے ہیں اور قاضی صاحب شاہی جامہ پہنتے ہیں بعد فراغت نماز دوسرے دروازہ سے شہر میں داخل ہوتے ہیں یہ محض اسلامی شان وشوکت بمقابلہ کفا ر کی جاتی ہے اور تمام لوازمہ منجانب رئیس ریاست یہاں کے آتاہے۔ اگر تاشے وغیرہ موقوف کئے جائیں تو فتنہ وفساد برپاہونے کی صورت میں اس میں کوئی خرابی تو لازم نہیں آتی ہے؟
الجواب : عید کے لئے نشان لے جانا اور عمدہ لباس پہننا تو سنت ہے اور گھوڑے کی سواری بھی فی نفسہٖ مسنون ہے اگر چہ عید گاہ جانے کے لئے وارد نہیں اور مصلحت کے لئے وہاں ہاتھی کی سواری یا کوتل ہاتھی گھوڑے اور توپوں کے فَیر میں بھی حرج نہیں ایسے شہر میں ایسی رسم کو بند کرنا سراسر خلاف مصلحت ہے اس میں صرف غازیوں کا ساطبل ہو جسے دہل کہتے ہیں تاشے نہ ہوں۔
وانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوٰی ۱؎۔
کاموں کا مدار ارادوں پر ہے اور ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہے جس کا اس نے ارادہ کیا ۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲)
اظہار شوکت کی اصل حج میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا رمل واضطباع اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس کا حکم فرمانا اور شک نہیں کہ وہاں اس طریقہ کے بند کرنے میں مشرکین کی فرحت شادی اور ان کی نگاہوں میں معاذاللہ اسلام کی سبکی کا باعث ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
رسالہ ھادی الناسِ فی رُسُوم الاعراس (شادیوں کی رسومات کے بارے میں لوگوں کے لئے راہنما) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مسئلہ ۹۰: از کانپور مدرسہ فیض عام مرسلہ مولوی احمد حسن صاحب ۲۱ جمادی الاولٰی ۱۳۱۲ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کہ ہمارے دیار میں اس طرح کا رواج ہے کہ شادی کے دن طرح بطرح کا تماشا کرتے ہیں یعنی آتشبازی وبندوق اور گانا بجانا، اور لکڑی کھیلنا وغیرہ ان سب سامان کے ساتھ نوشاہ کو پالکی پر سوار کرکے تماشا کرتے ہوئے دلہن کے مکان میں جاتے ہیں ۔ آیا یہ سب امور مذکورہ بحسب شرع شریف جائز ہیں یا نہیں؟ فقط۔ الجواب : نوشہ کو پالکی میں سوار کرنا مباح وجائز ہے لان من الرسوم العامۃ التی لا مضر فیھا من الشرع اس لئے کہ یہ ان عادی رسموں میں سے ہے شریعت میں جن پر کوئی طعن نہیں۔ ت) اور لکڑی پھینکنا بندوقیں چھوڑنا اور اس قسم کے سب کھیل جائز ہیں جبکہ اپنے اور دوسرے کی مضرت کا اندیشہ نہ ہو ، اور ان سے مقصود ان کوئی غرض محمود جیسے فن سپہگری کی مہارت ہو، نہ مجرد لہو ولعب لانہما من جنس المنضال المستثنٰی فی الحدیث (کیونکہ یہ وہ کھیل ہیں جن کو حدیث میں مستثنٰی قراردیا گیا ہے۔ ت) اور اگر صرف کھیل کود مقصود ہو تو مکروہ۔
فی الدرالمختار کرہ کل لھو لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثہ ملا عبتہ باھلہ وتادیبہ لفرسہ و مناضلتہ بقوسہ ۱؎ اھ، وفی ردالمحتار فی الجواھر قد جاء الا ثر فی رخصتہ المصارعۃ لتحصیل القدرۃ علی المقاتلۃ دون التلھّی فانہ مکروہ اھ والظاھر انہ یقال مثل ذٰلک فی تادیب الفرس والمناضلۃ بالقوس ۲؎ اھ وفیہ عن القھستانی عن الملتقط من لعب بالصولجان برید الفروسیۃ یجوز ۳؎ اھ وفی الدرالمصارعۃ لیست ببدعۃ الا للتلھی فتکرہ برجندی ۴؎ وفیہ وکذا یحل کل لعب خطر لحاذق تغلب سلامتہ کرمی الرام وصید لحیۃ ویحل التفرج علیھم حینئذ ۱؎ اھ وفیہ عند المباحات والسباحۃ والصولجان والبندق ورمی الحجر واشالتہ بالید والشباک والوقوف علی رجل ۲؎ الخ فی الشامیۃ البندق المتخذ من الطین ط و مثلہ المتخذ من الرصاص ۳؎۔
درمختار میں ہے ہر کھیل مکروہ ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ مسلمان کے لئے ہرکھیل حرام ہے سوائے تین کے (یعنی مسلمان کے لئے سوائے تین کے باقی ہر کھیل حرام اور ممنوع ہے اور جو تین کھیل مباح ہیں وہ یہ ہیں) (۱) خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا (دل لگی کرنا) (۲) اپنے گھوڑے سے کھیلنا (اس کی تربیت اور سکھلائی کرنا) اور (۳) اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اھ ، فتاوٰی شامی میں الجواہر کے حوالہ سے ہے کہ حدیث میں باہم کشتی کرنے کی اجازت موجود ہے یعنی جنگ وجہاد کے لئے قوت حاصل کرنے کے لیے نہ کہ کھیل کود کے لیے کیونکہ محض کھیل کود تو مکروہ ہے اھ اور ظاہر یہ ہے کہ اس طرح کا اطلاق گھوڑے کو سکھانے اور کمان سے تیر اندازی کرنے پر کیا جاتاہے اھ، اسی میں قہستانی سے بحوالہ الملتقط مرقوم ہے جس کسی نے صولجان یعنی گھڑ دوڑ کا کھیل کیا تو یہ جائز ہے اھ۔ درمختار میں ہے کہ باہم کشتی کرنا بدعت نہیں مگر یہ کہ محض کھیل کود کے لئے نہ ہو برجندی اھ اور اسی میں ہے کہ ہرایسا کھیل جو کسی ماہر کو کھٹکے میں ڈال دے مگراس میں سلامتی غالب ہو وہ جائز ہے جیسے کسی تیر انداز کے لئے تیر اندازی کرنا اور کسی قبیلہ کے لئے شکار کرنا ، پھر ان پر اس وقت خوشی کرنا جائز ہے اھ انہی مباح کاموں کو شمارکرنے کے سلسلہ میں ہے تیرنا، گھڑ دوڑ کرنا، ڈھیلے پھینکنا ، تیرمارنا، (الشباک) آپس میں ایک دوسرے کی بند مٹھیاں کھولنا اور ایک پاؤں پر کھڑا ہونا وغیرہ الخ (یہ سب کھیل جائز اور مباح ہیں) فتاوٰی شامی میں ہے ''البندق'' جو گارے سے تیار کیاجائے اور اسی کی مانند وہ ہے جو سیسہ سے بنایا جائے۔ (ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۸) (۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۳ و ۲۵۸) (۳؎ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۸) (۴؎ الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۹) (۱؎، ۲ الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۹) (۳؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۵۹)