مسئلہ ۷۷: از شہر محلہ ملوکپور مسئولہ واحد یار خاں ۴ صفر المظفر ۱۳۳۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک قوم میں یہ دستور ہے کہ وقت شادی یا غمی کے دس بیس روپے اپنے پاس ہوتے ہیں تو سو پچاس روپے سودی لے کر واسطے برادری کے کھانے پینے کا سامان کرتے ہیں اور جب لڑکی اپنے شوہر کے مکان پر جاتی ہے لڑکی کا باپ اہنے ہمراہ سو دوسو آدمی لیجاتاہے وہ سب لوگ لڑکی کے شوہر کے مکان پر کھانا کھاتے ہیں بعد کھانا کھانے کے لڑکی کا باپ اپنا نیوتہ وصول کرتا ہے پس جس قدر آدمی زیادہ ہوں گے نیوتہ کا روپیہ زیادہ آئے گا اگر قرضدار ہوا یا برباد ہوا تو اس سے کچھ غرض نہیں لڑکا ،باپ یا برادر جب تک چار بار روٹی نہ کھائیں نیوتہ نہ دیں گے یعنی مندہا اور اور برات اور لودایہ وقت کھانوں کے مقرر ہیں برادری زور دے کر کھانے لیتی ہے خیر جب لڑکے کا باپ شادی سے فارغ ہو کر قرض ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوا تو یہ بات ظاہر ہے کہ گھروالوں کو غریب آدمی کے مکان پر پیٹ بھر کر روٹی اور تن بھر کپڑا جب تک قرض ادا نہ ہوجائے درمیان میں یہ فساد پیدا ہوجاتا ہے کہ لڑکی اپنے ماں باپ کے مکان پر جا بیٹھتی ہے کہ روٹی کپڑا تو ہے نہیں ایسے شوہر کے مکان پر جا کر کیا کروں اور بڑے سے بڑے فساد پیدا ہوجاتے ہیں کہ جن کو بیان نہ کرنا بہتر ہے یہ رسم شرعا یا جہالت کی۔ زید کہتا ہے سودی روپیہ جو دے اس پر خدا کی لعنت اور جو کوئی واسطے شان وشوکت کے لئے اس پر بھی خدا کی لعنت اور جو برادر کہ جانتے ہیں کہ یہ کھانا پینا سودی روپیہ لے کر ہمارے واسطے کیا گیا ہے پھر جان کر کھائیں تو ان کھانے والوں کے واسطے کیا حکم ہے؟ اور جو اس قوم کاآدمی بغیر توبہ کے مرجائے تو اس کی نماز پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ اور اگر یہ قوم توبہ نہ کرے تو داخل امت محمدی میں ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : بیشک سود کھانے والے پر حدیث میں لعنت فرمائی ہے، اور بے ضرورت ومجبوری شرعی جو سود دے سودی قرض لے اس پر بھی لعنت فرمائی اور غم میں تو برادری کا کھانا دینا گناہ ہے اور شادی میں اگر چہ جائز ہے مگر سودی قرض اس کے لئے لینا حرام ، وباعث لعنت ہے۔ اہل برادری کو معلوم ہو تو انھیں اس کھانے میں شرکت نہ چاہئے کہ انھیں کے لئے وہ اس گناہ کا مرتکب ہوا، اگر لوگ جانیں کہ سودی قرض لے کر جو کھانا کیاجائے برادری اسے نہ کھائے گی تو ہر گز ایسی حرکت نہ کریں، پھر بھی یہ باتیں معاذاللہ کفر نہیں کہ تو بہ نہ کریں تو امت میں نہ رہیں یا اس پر جنازہ کی نماز نہ ہو، یہ سب غلط خیال ہیں۔ نیوتہ وصول کرنا شرعا جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے اور سو دو سو آدمی دعوت کے لئے ہمراہ لینا بھی جائز ہے جب تک دعوت دینے والے کی مرضی سے ہو وہاں اگر اس کے خلاف مرضی ہو اور مجبوری کے لئے شرما شرمی دے تو وہ کھانا حرام ہے اور اتنے آدمی لے جانا حرام ہے جانے والے چورین کرجائیں گے، اور لٹیرے بن کر نکلیں گے یہ حدیث کا ارشاد ہے نہ کہ جب دبا کر لیں کہ اس کے صریح حرام ہونے میں کیا کلام ہے اور چار وقت کے کھانے کابوجھ بلا مرضی ڈالنا اور بغیر اس کے نیوتہ نہ دینا یہ بھی حرام ہے۔ ایسی ناپاک رسموں کا ترک فرض ہے واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ اور اس کا علم جس کی بزرگی بڑی ہے زیادہ کامل اورزیادہ پختہ ہے۔ ت)
مسئلہ ۷۸ تا ۸۰: از ضلع برسیاں ملک بنگال پوسٹ آفس سامر ہاٹھ کاؤ گوریدی مسئولہ رکن الدین احمد روز پنجشنبہ ۱۵ صفر المظفر ۱۳۲۴ھ
(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بعد ولادت مولود ناری چھید کرنا آیا دائی جو گاؤں میں مقرر ہوتی ہے یا جنائی جو ہر گھر کی عورتیں ہوتی ہیں انھوں کے ساتھ کچھ خصوصیت ہے یا جوں توں کرسکتاہے برتقدیر ثانی وثالث منکرین پر شرعا کیا حکم ہے؟
(۲) اگر اہل محلہ دائی کے ساتھ خصوصیت جان کر اس فعل قبیحہ خاص کے لئے ایمان دار بھائیوں کو اہانت اور بے عزت کریں مثلا ان لوگوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک کھانا پینا نہ کریں بلکہ کہیں کہ اگرشرع میں بھی ہے تو بھی نہ کرنا کیونکہ رواج کے خلاف ہے اور خاص کرکے اس فعل خاص پر رواج کے پابند ہونا ضرور ہے تو شرع میں ان لوگوں پرکیا حکم ہے؟
(۳) شریعت کے خلاف جو رواج ہو اپنے نام وناموس کی رعایت سے اسی رواج کی پاسداری کرنا جائز ہے یانہیں؟ برتقدیر اولٰی کیوں جائز اور اس کی کیا دلیل؟ برتقدیر ثانی مبنین رواج مذمومہ پر شرعا کیا حکم ہے؟ بینو ا حکم الکتاب توجروا یوم الحساب (کتاب کاحکم بیان کرو تاکہ روز حساب اجروثواب پاؤ۔ ت)
الجواب
(۱) بچہ کی ناری چھیدنا سنت ہے اور اس کی خصوصیت کوئی نہیں کہ یہ کام دائی جنائی کرے یا باپ بھائی کرے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دائی جنائی کے ساتھ خاص ہے اوروں کو جائز نہیں وہ دل سے مسئلہ نکالتے ہیں اور شریعت پر افتراء کے گنہگار ہوتے ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلال وھذا حرام لتفتروا علی اﷲ الکذب ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: تمھاری زبانیں جو کچھ جھوٹ بیان کرتی ہیں اس کے بارے میں یہ نہ کہا کرو کہ یہ حلال اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھو، بیشک جو لوگ اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ۔ اور اللہ تعالٰی بڑے علم والا ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۶)
(۲) یہ بلاوجہ اپنے بھائیوں سے انقطاع اور مسلمانوں کی ایذاء او رکئی وجہ سے حرام ہے۔ حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من اذی مسلما فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اﷲ ۲؎۔
جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ تعالٰی کو ایذا دی (ت)
دوسرے فریق کو بھی چاہئے جب لوگ اس قدر اس سے پریشان ہوتے اور نفرت کرتے ہیں تو کیوں ایسی بات کریں جس سے ایک مباح کے پیچھے باہم تفرقہ وفتنہ ہو ہاں ان میں جو اہل علم ومقتداو صاحب اثر ہوں وہ کریں تاکہ لوگوں کے قلب سے یہ غلط بات رفع ہوجائے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۳) یہ رواج کہ خود نہیں کرتے بجائے خود کچھ خلاف شرع نہیں کہ شریعت نے یہ کام خودکرنا واجب نہ کیا ہاں یہ سمجھنا کہ خود کرنا جائز نہیں اعتقاد باطل ہے اور اگر جائز تو جانتے ہیں مگر بلحاظ عوام بدنامی ومطعونی سے بچنے کو اس پر اصرار کرتے ہیں تو ایک وجہ رکھتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔
مسئلہ ۸۱: للہ ٹھٹیرا مرادآباد مسئولہ حافظ محمود حسن روز دوشنبہ بتاریخ ۲۶ صفر المظفر ۱۳۳۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ صفر کے اخیر چہار شنبہ کے متلعق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مرض سے صحت پائی تھی بنابر اس کے اس روز کھانا اور شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کی سیر کو جاتے ہیں علی ہذا القیاس مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں کہیں اس روز کو نحس ونامبارک جان کر گھر کے پرانے برتن گلی تڑوالیتے ہیں اور تعویذ وچھلہ وچاندی کہ اس روز کی صحت بخشی جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں مریضوں کو استعمال کراتے ہیں یہ جملہ امور بربنائے صحت یا بی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عمل میں لائے جاتے ہیں لہذا اصل اس کی شرع میں ثابت ہے کہ نہیں؟ اور فاعل عامل اس کا بربنائے ثبوت یاعدم ثبوت گرفتار معصیت ہوگا یا قابل ملامت وتادیب؟ بینوا توجروا (بیان فرمائیے اجر پائیے۔ ت)
الجواب : آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا کوئی ثبوت بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے:
آخر اربعاء فی الشھر یوم نحس مستمر ۱؎۔
ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ دائمی نحوست والا دن ہے۔ (ت)
(۱؎ کنز العمال حدیث ۲۹۳۱ موسسۃ الرسالہ بیروت ۲/۱۱)
اور مروی ہواکہ ابتدا ابتلائے سیدنا ایوب علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اسی دن تھی اور اسے نحس سمجھ کر مٹھی کے برتن توڑدینا گناہ و اضاعت مال ہے۔ بہر حال یہ سب باتیں بے اصل وبے معنی ہیں واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۲: مسئولہ طوطی ہند اسرار الحق خان وسہیل ہند غلام قطب الدین صاحب ا ز جبلپور چہار شنبہ ربیع الثانی ۱۳۳۴ھ
ماہ صفر کے اخیر چہارشنبہ کو ساتوں سلام یعنی سلام قولا من رب رحیم ۲؎ وغیرہ جلسہ میں پڑھ کر اور آم کے ساتھ پتوں پر لکھ کر ایک نئے گھڑے میں پانی منگا کر اس میں پتے دھو کر بطور تبرک سب کو پلانا جائز ہے یانہیں؟
(۲؎ القرآن الکریم ۳۶/ ۵۸)
الجواب : قرآن عظیم کی ہر آیت ہمیشہ نوروہدٰی وبرکت وشفاء ہے اور ا س چہار شنبہ کی تخصیص محض بے معنی، بہر حال نفس فعل میں حرج نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۳: از کیلا کھیڑا ڈاکخانہ باز پور ضلع نینی تال مرسلہ محمد عبدالمجید خان صاحب ۱۱ ذی ۱۳۳۵ھ
یہ جو بعض جہلا غرض ڈورے کیا کرتے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ خاتون جنت ہرکسی گھر ماہ ساون بھادوں میں جایا کرتی اور ایک ایک ڈورا ان کے کان میں باندھ کر یہ کہاکرتیں کہ پوریاں پکا کر فاتحہ دلا کر لانا اس کی کچھ سند ہے یا واہیات ہے؟
الجواب : یہ ڈوروں کی رسم محض بے اصل ومردود ہے اور حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالٰی عنہا کی طرف اس کی نسبت محض جھوٹ برا افترا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۴: از کمال پورہ علاقہ جیت پورہ بنارس مرسلہ خدا بخش زردوز مالک فلور مل اسلامیہ ۲۰ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ
اکثر لوگ ۳، ۱۳ یا ۲۳، ۸، ۱۸، ۲۸ وغیرہ تواریخ پنجشنبہ ویک شنبہ و چہارشنبہ وغیرہ ایام کو شادی وغیرہ نہیں کرتے، اعتقاد یہ ہے کہ سخت نقصان پہنچے گا، ان کا کیاحکم؟
الجواب :یہ سب باطل وبے اصل ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۵: از مقام را م باغ ڈاکخانہ خاص ضلع دیرہ دون مرسلہ حکیم محمد فضل الرحمن صاحب مورخہ ۱۶ جمادی الثانی ۱۳۳۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جیسے یہ مثال یا مثلہ اہل اسلام میں رائج عملدرآمد کے ساتھ ہے کہ بہن کے گھر بھائی کتا اور خوشدامن کے گھر داماد کتا، جہاں تک دریافت ہوا ظاہر ہوتاہے کہ یہ مثال ہنود کے یہاں قطعی طور پرا رئج ہے مگر اہل اسلام میں نہایت سرگرمی کے ساتھ شامل کرلیا ہے اور اس پر عملدرآمد کیاجاتاہے وہ لوگ جو بہن کے گھر یا خوشدامن کے گھر رہتے ہیں نہایت بری نظر او ر بے عزتی کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں آیا ازروئے شرع شریعت بہن کے گھر بھائی کا رہنا جائز ہے یا نہیں؟ اور خوشدامن کے گھر داماد کا رہنا جائز ہے یانہیں؟ کن وجوہات سے اس کا رواج اسلام میں یا اتفاق سے ہندوستان کے ہر طبقہ میں پھیلا ہوا ہے اس کی اصلیت کیا ہے ؟ امید کہ بواپسی مطلع فرمایا جائے۔ فقط
الجواب : رسم مردود ہنود یہ ہے یہ ہے کہ بہن بیٹی کے گھر کا پانی پینا برا جانتے ہیں کھانا تو بڑی چیز ہے یہ رسم ضرور ناپاک ومردود ہے۔
مولی سبحانہ وتعالٰی قرآن کریم میں فرماتاہے: لیس علی الاعمٰی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم اوبیوت اٰبائکم اوبیوت امھاتکم او بیوت اخوانکم او بیوت اخواتکم او بیوت اعمامکم اوبیوت عمتکم او بیوت اخوالکم او بیوت خالٰتکم او ماملکتم مفاتحہ اوصدیقکم ۱؎۔
نہ اندھے پر تنگی نہ لنگڑے پر نہ بیمار پر نہ آپ تم پر کہ اپنی اولاد کے گھر کھانا کھاؤ یا اپنے باپ کے گھر یا ماں کے گھر یا بھائیوں کے گھر یا بہنوں کے گھر یا چچا کے گھر یا پھوپی کے گھر یا ماموں کے گھر یا خالہ کے گھر یا جس کی کنجیاں تمھارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوست کے یہاں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۶۱)
اس اجازت میں جیسے ایک وقت کا کھانا داخل ہے یوں ہی بشرط رضا وعدم بارچند وقت کا خصوصا جبکہ بہن یا ساس یا ان لوگوں کا مکان دوسرے شہر میں ہو اور یہ بعد مدت ملنے کو جائے جب تک یہ نہ جانے کہ ان پر باروناگوار نہ ہوگا جہاں تک ایسے تعلقات میں ایسے بعد سے اتنے دنوں بعد مہمان داری معروف ہے بلا شبہہ رہ سکتاہے ہاں اتنا رہنا کہ اکتا جائے اور ناگوار ہو ناجائز اور وہ کھانا بھی ناجائز اگر چہ ماں باپ ہی کا گھر ہو، ہاں ماں باپ جبکہ محتاج ہو مالدار اولاد کے یہاں جتنے دن چاہیں رہ سکتے ہیں اگرچہ اسے ناگوار ہوکہ اس کے مال میں اتنا ان کا حق ہے اس کی بے مرضی بھی لے سکتے ہیں یہ سب عارضی طور پر رہنے میں کلام تھا اب جو لوگ معیوب جانتے ہوں ان کا زعم بالکل مردود واتباع کفار ہنود ہے۔ رہا دوسرے کے یہاں سکونت اختیار کرنا یہ سوا محتاج ماں باپ کے کسی کے گھر بے اس کی رضا کے اصلا حلال نہیں اگر چہ بھائی یا باپ کے یہاں ہو اگر چہ فقط سکونت ہو کھائے اپنا مگر وہ کسب سے عاجز و محتاج جس کا نفقہ شرع نے اس صاحب مکان پر واجب کیا یہ رہ سکے گا اور کھانا بھی اسی کے سر کھائیگا اسے گوارہ ہو خواہ ناگوار، بھائی ہو یا بہن، ساس اس میں داخل نہیں کہ اس کے ذمہ اس کا نفقہ نہیں ہوسکتا ہاں عاجز محتاج کا نفقہ جس پر شرعا لازم ہے اگر نہ وہ اس کی اولاد میں ہے نہ یہ اس کی اولاد میں تو بے اس کی رضا کے جبرا اس کا بار اس پر ڈالنا بحکم حاکم ہوگا خو د یہ اس کا اختیار نہیں رکھتا،
ردالمحتار میں ہے:
نفقۃ قرابۃ غیر الولاد وجوبھا لایثبت الا بالقضاء اوا لرضاء ۲؎۔
ایسے رشتے دار کا خرچہ جو اولاد میں شامل نہ ہو اس کے خرچے کا وجوب فیصلہ قاضی یا خرچہ دینے والے کی رضا مندی کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطلاق باب النفقۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۶۸۱)
حکم شرع یہ ہے اس کے خلاف جو کچھ ہو باطل ہے ظاہرا یہ تخصیص اس خیال سے ہو کہ بہن کا اپنا گھر اور مال غالبا نہیں ہوتا بلکہ اس کے شوہر کا اور وہ اگر ناگواری نہ ظاہر کرے تو غالبا مروت اور اپنی زوجہ کی رعایت سے اور ساس جو کچھ کرے گی اپنی بیٹی کے دباؤ سے اور یہ جائز نہیں لہذا اس سے احتراز کرنا چاہئے اگر چہ ناگواری ظاہر نہ ہو کہ ظاہر ناگواری ہے اور بہن فقط مثال ہے بیٹی بھتیجی بھانجی کا بھی یہی حال ہے جبکہ مال ومکان ان کے شوہروں کا ہو شرعا بھائی بھتیجے بھانجے کا بھی یہی حاکم ہے جبکہ مروت وخاطر مع ناگواری باطن ہو مگر یہاں مروت خود اس کی ذات کے باعث ہے اور وہاں دی ہوئی بیٹی کے ذریعہ سے لہذا اسے زیادہ معیوب سمجھا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔