Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
51 - 190
مسئلہ ۷۳: مسئولہ زین العابدین از بنگالہ ضلع پابنا قصبہ سراج گنج     ۴ رجب المرجب ۱۳۲۰ھ

چہ می فرمایند علمائے دین ومفتیان شرع متین اندریں رسوم کہ در ملک بنگال چنانست کہ مردمان برائے تولہ فرزندان خانہ دیگر از خانہ بود وباش جداگانہ بنامی کنند و زادن فرزند درخانہ بود وباش بدفالی شمارندچنیں قسم خانہ مخصوص درہر بار بنا نمودن شرعا درست است یا نہ؟ ودر زمانہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بود یانہ؟
علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس رسم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ بنگال میں یہ رواج ہے کہ نومولود کی ولادت کے لئے اس کی ولادت سے قبل الگ کمرہ تعمیر کیا جاتاہے اور پہلے سے تعمیرشدہ مکان جہاں وہ رہائش پذیرہوتے ہیں اس میں نئے بچے کی ولادت منحوس خیال کی جاتی ہے۔ کیا ان کا یہ اقدام شرعا جائز ہے یانہیں؟ اور حضرت سیدنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسے ہوتا تھا یا نہیں؟ (ت)
الجواب :  ایں رسم شنیع در آں زمان پاک اصلا نہ بود بلکہ بعد آں نیز تا قرون متطاولہ بلکہ ہنوز ہم درعامہ ولایت اسلام ازاں نشانے نیست ایں برسم مشرکین وہنود ماند بلکہ ازاں ہم بالاتر رفتہ است ہند وان نیزا یں چنیں نہ کنند ایں کار اگر بخیال ضلال بد فال نبودی اسراف بودے واﷲ تعالٰی یقول ولا تسرفوا ان اﷲ لایحب المسرفین ۱؎ اسراف نکنید کہ خدائے دوست ندارد واسراف کنندگان را بلکہ بوجوہ خلوا ز فائدہ تبذیر  بودے واﷲ تعالٰی یقولو ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین ۲؎ مال بے سود برباد دہندگان برادران شیاطین اند حالانکہ مبتنی براں وہم شیطانی ست ضلالی دگر برآں افروز سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرمود الطیرۃ من الشرک بدفال گرفتن وبراں کاربند شدن شیوہ مشرکان رواہ الا ئمۃ الاحمد ۱؂فی المسند والبخاری فی الادب المفرد وابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والحاکم فی صحاحھم کلھم عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح ومعنی الحدیث علی مافسرنا کما افصحت عنہ الاحادیث وحققہ العقول ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
یہ قبیح رسم اس پاک زمانے میں بالکل نہ تھی بلکہ اس کے بعد بھی عرصہ دراز تک بلکہ اب تک عام اسلامی ممالک میں اس کا نام ونشان تک نہیں پایا جاتا، یہ ہندوانہ اور مشرکانہ رسوم کے مشابہ بلکہ ان سے بھی بدتر ہے کیونکہ ہندو بھی ایسا نہیں کرتے اگر یہ عمل بدفالی اور گمراہی کے خیال سے نہ ہو تب بھی بوجہ اسراف معیوب ہے جبکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ لوگو! بے جا خرچ کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اللہ تعالٰی کو فضول خرچ کرنے والے لوگ پسند نہیں تم اسراف نہ کیا کرو اللہ تعالٰی اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں بناتا، یہ اقدام متعدد وجوہ کی بنا پر فائدے اور بھلائی سے خالی ہے اور تبذیر کے زمرے میں آتاہے جبکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ ''مال کو بے مقصد بربادکرنے والے شیطان کے بھائی ہیں'' اس وہم کی بنیاد شیطانی ہے مزید یہ کہ اس میں بدفالی وبد شگونی والی گمراہی بھی شامل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بری فال نکالنا اور اس پر کار بندہونا مشرکین کا طریقہ اور دستور ہے، چنانچہ ائمہ کرام مثلا امام احمد نے مسند میں امام بخاری نے الادب المفرد میں ابوداؤد ، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے اپنی صحاح میں بحوالہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سند صحیح کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے حدیث کے وہی معنی ہیں جو ہم نے بیان کردئیے ہیں جیسا کہ احادیث سے واضح اور عیاں ہے۔ اور ''عقول'' نے اس کی تحقیق کی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم       ۷/ ۳۱)(۲؎القرآن الکریم       ۱۷/ ۲۷)

(۱؎ مسند احمد بن حنبل     عن عبداللہ بن مسعود     المکتب الاسلامی بیروت    ۱/ ۴۳۸)

(جامع الترمذی     ابواب السیر         امین کمپنی دہلی        ۱/ ۱۹۴)

(کنز العمال         بحوالہ ط، حم، و ھ ، ک حدیث ۲۸۵۶۸، ۲۸۵۶۹، موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۰/ ۱۱۳)
مسئلہ ۷۴: از اتروالی ضلع اعظم گڑھ محلہ مغلاں مرسلہ اکرام عظیم صاحب ۱۸ جمادی الاولٰی ۱۳۲۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائےدین وملت محمدیہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو مسلمان جوابات شرعیہ کو نہ مانے اور اپنے رواجہائے قدیمہ پر اڑا رہے وہ گنہ گار ہے یاکیا ہے؟
الجواب : جو احکام شرع کے مقابل اپنے رواج پر اڑے وہ سخت گنہ گار ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۷۵ ، ۷۶: مرسلہ ولی محمد ابونوی والہ از مقام دھوراجی متصل اسکول ملک کاٹھیا واڑ سہ شنبہ ۲۲ شعبان ۱۳۳۳ھ

(۱) حضرت مولانا مقتدانا جناب مولانا مفتی احمد رضاخاں صاحب شمس العلماء دام افضالہ  بعد ادائے آداب دست بستہ ملتمس می دارم کہ یہاں عام طور سے تمام شہر متفق ہے کہ درخت پپیتہ جس کوارنڈ خرپزہ کہتے ہیں مکان مسکونہ میں لگانا منحوس ہے اور منع ہے چونکہ یہاں یہ بکثرت اور نہایت لذیذ ہیں لہذا التماس ہے کہ اس بارے میں احکام شرعی سے مع حوالہ کتب بالتشریح خبردار کیجئے؟

(۲) دیگر اگر خواب میں کوئی ریل میں سفر کرتاہوا خود کو دیکھے اس کی کیا تعبیر ہے؟
الجواب

(۱) شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، شرع نے نہ اسے منحوس ٹھہرایا نہ مبارک، ہاں جسے عام لوگ نحس سمجھ رہے ہیں اس سے بچنا مناسب ہے کہ اگر حسب تقدیر اسے کوئی آفت پہنچے ان کا باطل عقیدہ اور مستحکم ہوگا کہ دیکھو یہ کام کیا تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا اور ممکن کہ شیطان اس کے دل میں بھی وسوسہ ڈالے،

 ردالمحتارمیں ہے:
اماالدبسی والصلصل والعقعق واللقلق واللحام فلا یستحب اکلھا وان کانت فی الاصل حلالالتعارف الناس باصابۃ آفۃ لاکلھا فینبغی ان یتحرز عنہ ۱؎ الخ نقلہ عن غرر الافکار۔
الدبسی (کبوتر کی مانند ایک چھوٹا سا پرندہ ہے در حقیقت یہ جنگلی کبوتر کی ایک قسم ہے) الصلصل (امام جوہری نے کہا کہ یہ فاختہ ہے) العقق (کوے کی شکل پر کبوتر کے برابر ایک پرندہ ہے لیکن اس کی دم کبوتر کی دم سے دراز ہوتی ہے اور پر بھی اس سے بڑے ہوتے ہیں۔ اس کا رنگ سیاہ اور سفید ہوتا ہے) اللقلق (عجمی نام والا پرندہ ہے جو سانپ کھاتاہے اس کی حلت اور حرمت میں اختلاف ہے چنانچہ بعض کے نزدیک حلال ہے اور بعض کے نزدیک حرام) اللحم (ایک قسم کی بڑی مچھلی ہے جو سونڈ سے تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہے) ماخوذ از حیات الحیوان اول ودوم)
، ____________________ (۱؎ ردالمحتار     کتاب الذبائح تحت قول الماتن قیل الخفاش     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۱۹۴)
ان سب کا کھانا بہتر نہیں اگر چہ درحقیقت یہ حلال ہیں اس لئے کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ ان کے کھانے سے مصیبت آتی ہے لہذا ان کے کھانے سے پرہیز کیا جائے (اگر کھالیا اور تقدیر سے مصیبت آگئی تو عام لوگوں کا عقیدہ خراب ہوجائے گا) علامہ شامی نے غررا لافکارسے اسے نقل فرمایا(ت)

(۲) خواب میں سفر اگر مذموم بات کے لئے نہ ہو تو دلیل ظفر اور مرض سے صحت ہے لحدیث سافروا تصحوا ۲؎ (سفر کرو تاکہ تندرست رہو۔ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ مسند امام احمد بن حنبل     عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت        ۲/ ۳۸۰)
Flag Counter