فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۲۳: مولوی حکیم عبدالرحیم صاحب مدرس اول مدرسہ قادریہ احمد آباد گجرات دکن محلہ جمال پور ۲۸ صفر ۱۳۳۹ھ مولانا موصوف نے ایک رجسٹری بھیجی جس میں بحرالرائق تصحیح المسائل مولانا فضل رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے عورتوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت پر زوردیا تھا ان کو یہ جواب بھیجا گیا۔
الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ مولٰینا المکرم مولوی حکیم عبدالرحیم صاحب زید کرمہم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ کی دو رجسٹریاں آئیں، تین مہینے سے زائد ہوئے کہ میری آنکھ اچھی نہیں میری رائے اس میں خلاف پر ہے مدت ہوئی، اس بارے میں میرا فتوٰی تحفہ حنفیہ میں چھپ چکا، میں اس رخصت کو جو بحرالرائق میں لکھی مان کر نظر بحالات نساء سوائے حاضری روضہ انور کے کہ واجب یا قریب بواجب ہے۔ مزارات اولیاء یا دیگرقبور کی زیارت کہ عورتوں کا جانا باتباع غنیہ علامہ محقق ابراہیم ہر گز پسند نہیں کرتا خصوصا اس طوفان بے تمیزی رقص ومزامیر وسرود میں جو آج کل جہال نے اعراس طیبہ میں برپا کررکھا ہے اس کی شرکت تومیں عوام رجال کو بھی پسند نہیں رکھتا کہ وہ جن کو انجشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدی خوانی بالحان خوشی پر عورتوں کے سامنے ممانعت فرماکر تھیں نازک شیشیاں فرمایا گیا۔ والسلام
مسئلہ ۲۴ تا ۲۶: از امرتسر کٹرہ مہان سنگھ ہنسلی گلی کوچہ کمی مسئولہ حاجی غلام محمد صاحب ۶ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ (۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص خاندانی سارق اور بڑا مشہور ومعروف و بدمعاش ہو بلکہ گورنمنٹی دفاتر میں نمبر ۱۰ کے بدمعاشوں میں نامزد ہو اور تمام عمر اس کا ذریعہ معاش چوری اور جوا رہا ہو اور صوم وصلٰوۃ کا بھی تارک ہو غرض کہ اس نے اپنی تمام عمر چوری اور جوا اور دیگر افعال قبیحہ میں بسر کی ہو اور آخر کار بلاتوبہ فوت ہوگیا ہو تو ایسے شخص کے جنازہ پڑھنے یاپڑھانے کے متعلق بروئے فقہ واحادیث نبویہ شرعا کیا حکم ہے؟ (۲) متوفی مذکور کی جائداد منقولہ وغیرہ منقولہ جو اس نے ذرائع حرام سے جیسے چوری اور جوئے سے پیدا کی ہو اس کا بصورت ختم جمعہ وچہلم وغیرہ خورد ونوش کرنے کے کون لوگ مستحق ہیں اور ان کے لئے کیاحکم ہے؟ (۳) اگر کوئی شخص بحیثیت امام مسجد ہونے کے اس کا جنازہ پڑھے یا پڑھائے اور متوفی مذکور کی جائداد اور مندرجہ ضمن نمبر ۲ جان بوجھ کر بطریق ختم اور چہلم وغیرہا خورد نوش کرے تو ا س کے لئے شرع کیا حکم ہے اور وہ قابل امامت رہ سکتا ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب (۱) شخص مذکور اگر چہ کیسا ہی فاسق فاجر تھا اگر چہ بے توبہ مراجبکہ مسلمان تھا اس کے جنازہ کی نماز لازم تھی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
الصلٰوۃ واجبۃ علی کل مسلم براکان او فاجرا و ان ھو عمل الکبائر ۱؎۔
ہر مسلمان خواہ نیک ہو یا بد، اس کی نماز جنازہ پڑھنی واجب ہے اگر چہ وہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو (ت)
(۱؎ سنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الصلٰوۃ خلف من لایحمدہ دارالفکر بیروت ۳/ ۱۲۱)
درمختار میں ہے :
وھی فرض علی کل مسلم مات خلااربعۃ ۲؎ الخ ولیس ھذا منھم واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب کوئی مسلمان مر جائے تو اس پر نماز پڑھنی فرض (کفایہ) ہے سوائے چار آدمیوں کے کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور یہ ان میں سے نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الجنائز مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۲۲)
(۲) جو مال اس نے بعینہٖ چوری یاجوئے سے حاصل کیا اس پر ختم وفاتحہ پڑھنا حرام ہے اور اس کا کھانا حرام ہے مگر اسے جس سے وہ مال لیا گیا یا وہ معلوم نہ ہو تو فقیر کو بحیثیت مال لاوارثی نہ بحیثیت ایصال ثواب سمجھ کر کھایا وہ قابل امامت نہیں جب تک تائب نہ ہو بلکہ اسے جدید اسلام کا حکم ہے۔ عالمگیریہ میں ہے :
لوتصدق علی فقیر بشیئ من مال الحرام یرجوا الثواب یکفر ولو علم الفقیر بذٰلک فد عالہ وامن المعطی فقد کفر کذا فی المحیط ۳؎۔
اگر کسی محتاج پر حرام مال میں سے کچھ خیرات کرے اور ثواب کی امید رکھے تو کافر ہوجائے گا، اگر محتاج کو اس مال کے حرام ہونے کا علم ہو پھر اسے مال دینے کے لئے کوئی بلائے اور وہ اس کے لئے دعا کرے اور دینے والا آمین کہے تو دونوں کافر ہوئے محیط میں یہی مذکور ہے۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ الباب التاسع نورانی کتب کانہ پشاور ۲/ ۲۷۲)
اور اگر اس کے پاس مال حلال بھی تھا اور اس کا خاص حرام سے ہونا معلوم نہیں یا زر حرام سے خریدی ہوئی کوئی چیزہے جس کی خریداری میں زرحرام پر عقد ونقد جمع نہ ہوئے یعنی یہ نہ ہوا کہ حرام روپیہ دکھا کر کہا ہو کہ اس کے عوض دے دے پھر وہی روپیہ اس کے ضمن میں دیا ہو تو اس پر فاتحہ پڑھنے اور کھانے میں حرج نہیں اگر چہ صورت مذکورہ میں خلاف احتیاط ضرور ہے۔ عالمگیریہ میں ذخیرہ سے ہے امام محمد فرماتے ہیں :
بہ ناخذ مالم نعرف شیأا حرام بیعنہ ۱؎۔
ہم اس کو اختیار کرتے ہیں جب تک کسی معین شے کے حرام ہونے کو نہ پہچانیں (ت) اگر یہ صورت تھی تو امام پر الزام نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب لکراھیۃ الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۴۲)