فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۶۷: از اوجین مکان میر خادم علی اسسٹنٹ مرسلہ محمد یعقوب علی خاں ۲۷ ربیع الاول شریف ۱۳۰۹ھ چہ می فرمایند علمائے اکمل الکاملین شریعت و مفتیان افضل الفضلاء طریقت دریں مسئلہ کہ درماہ رمضان المبارک کہ شب بست وہفتم مساجدرابقنادیل وبہ تقریب جلسہ مولد شریف مکان رامنقش وآلات بلادتصویر وفانوس وغیرہ منور سازند سوائے مال وقف وبراعراس خانقاہ بزرگان دین ومزار نبوی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بروشنی روشن نمایند درست ست یا حرام، بیان فرمایند بسند عبارت کتب رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
کیا فرماتے ہیں علماء کاملین علماء شریعت اور فاضلین مفتیان طریقت اس مسئلہ میں کہ لوگوں کا ستائیسویں شب رمضان کے موقع پر مساجد کو آراستہ کرنا روشنیوں کا خصوصی اہتمام کرنا میلاد شریف کی تقریبات کے لئے مکانات کو سجانا ، فانوس اور پھول وغیرہ لگانا، بزرگان دین کے سالانہ عرسوں میں خانقاہوں پر اور آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مزار پر انوار پر اس قسم کا بندوبست کرنا سوائے مال وقف کے درست ہے یا حرام؟ بحوالہ کتب مدلل جواب مرحمت فرمایا جائے اللہ تعالٰی سب پر رحمت فرمائے۔ (ت)
الجواب : تزئین مذکورشرعا جائز ست قال تعالٰی قل من حرم زینۃ اﷲ التی اخرج لعبادہ ۱؎ ہمچناں روشنی بقدر حاجت و مصلحت نیز وحاجت باختلاف ضیق وسعت مکان وقلت وکثرت مردمان ووحدت و تعدد منازل وغیر ذٰلک مختلف گردددر منزلے تنگ ومجمع قلیل دوسہ چراغ باہمیں یکے بسند ست ودردار وسیع ومجمع کثیر و منازل عدیدہ حاجت تابدہ وبست و بیشتر می رسد امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ بماہ رمضان شب بمسجد درآمد چراغاں دید کہ مسجد درخشاں نورافشاں شدہ است امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رابہ دعایاد کردوگفت نورت مساجدنا نور اﷲ قبرک یابن الخطاب ۲؎ ای بن خطاب مساجد مارا نور آگیں کردی خدائے گورت پر نور کند ومسئلہ شمعہ در مقابرومزارات افروختن را فقیر در رسالہ مستقلہ مسمی بہ طوالح النور فی حکم السرج علی القبور ہر چو تمامتر روشن وپرنور کردہ ام ونیز آنجاتحقیق نمودہ کہ حدیث والمتخذین علیھا السرج ۱؎ کہ مخالفان دریں باب بادچنگ زنند بقطع نظرا ز انکہ درسند اوباذام ضعیف درایۃ نیز مخالف راغیر نافع ست آرے روشنی لغووفضول راچنانکہ بعضے مراد مان شب ختم قرآن یا در بعض اعراس بزرگان کنند کہ صدہا چراغ بترتیب عجیب ووضع غریب زیر وبالا برابر نہند درکتب فقہیہ ہمچو غمزالعیون وغیرہ بنظر اسراف منع فرمودہ اند وشک نیست کہ جائیکہ اسراف صادق ست اجتناب قطعا لازم ولائق است۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مذکورہ زیب وزینت شرعا جائز ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے فرمادیجئے کہ اس زینت وزیبائش کو کس نے حرام ٹھہرادیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے ظاہر فرمائی ہے۔ اسی طرح ضرورت اور مصلحت کے مطابق روشنی کا انتظام کرنا بھی جائز ہے (مختلف حالات کے لحاظ سے ضرورت بدلتی رہتی ہے) مثلا مکان کی تنگی اور کشادگی۔ لوگوں کی قلت وکثرت ، منازل کی وحدت وتعدد وغیرہ ان صورتوں میں ضرورت اور حاجت میں تبدیل آجاتی ہے۔ تنگ منزل اور تھوڑے مجمع میں دو تین چراغ بلکہ ایک بھی کافی ہوتاہے۔ کشادہ اور بڑے گھر زیادہ لوگوں اور متعدد منزلوں کے لئے دس بیس بلکہ ان سے بھی زیادہ کی ضرورت پڑتی ہے، امیر المومنین سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ رمضان شریف میں رات کے وقت مسجد نبوی میں تشریف لائے تو مسجد کو چراغوں سے منور اور جگمگاتے ہوئے دیکھا کہ ہر سمت روشنی پھیل رہی تھی آپ نے امیر المومنین سیدناحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بذریعہ دعا یاد فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اے فرزند خطاب! تم نے ہماری مساجد کو منور وروشن کیا اللہ تعالٰی تمھاری قبر کو منور فرمائے، قبرستان اور مزارات پر شمع جلانے کے مسئلہ کو فقیر نے اپنے مالک مستقل رسالہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے رسالے کا نام ہے طوالع النور فی حکم السرج علی القبور (نور کے نورانی مطالع قبروں پر چراغاں کرنے کے حکم کے بیان میں۔ت) میں نے اس میں یہ تحقیق بھی پیش کی ہے کہ حدیث میں قبروں پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائی جانے والی روایت سے مخالفین جو استدلال اور سہارا لیتے ہیں اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس حدیث کی سند میں باذام نامی راوی ضعیف ہے۔ از روئے عقل بھی مخالفین کے لئے مفید نہیں، البتہ روشنی کا بے فائدہ اور فضول استعمال جیسا کہ بعض لوگ ختم قرآن والی رات یا بزرگوں کے عرسوں کے مواقع پر کرتے ہیں سیکڑوں چراغ عجیب وغریب وضع وترتیب کے ساتھ اوپر نیچے اور باہم برابر طریقوں سے رکھتے ہیں محل نظر ہے اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے چنانچہ فقہائے کرام نے کتب فقہ مثلا غمز العیون وغیرہ میں اسراف (فضول خرچی) کی بنا پر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں اسراف صادق آئے گا وہاں پرہیز ضروری ہے۔ اللہ تعالی پاک۔ برتر اور خوب جاننے والا ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۷/ ۳۲) (۲؎ تاریخ الخلفاء فصل فی اولیات عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مطبع مجتبائی دہلی ص۹۷) (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل عن ابن عباس دارالفکر بیروت ۱/ ۲۲۹) (جامع الترمذی باب کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجدا امین کمپنی دہلی ۱/ ۴۳)