فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
حضور سے رشتہ وعلاقہ مضبوط تر ہے ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو جمع فرماکر بر سر منبر ان کا وہ رد جلیل ارشاد فرمایا کہ: ''کیا ہوا انھیں جو میری قرابت نافع نہیں بتاتے۔ ہر رشتہ وعلاقہ قیامت سے قطع ہوجائے گا مگر میرا رشتہ وعلاقہ کہ دنیا وآخر ت میں پیوستہ ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم'' رواہ کما تقدم البزار ۲؎۔
(۲؎ مجمع الزوائد بحوالہ البزار کتاب علامات النبوۃ باب فی کرامۃ اصلہ دارالکتاب بیروت ۸/ ۲۱۶)
امام ابن حجر مکی صواعق میں فرماتے ہیں:
قال المحب الطبری وغیرہ من العلماء انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ لایملک لاحد شیئا لا نفعا ولا ضررالکن عزوجل یملک نفع اقاربہ بل وجمیع امتہ بالشفاعۃ العامۃ والخاصۃ فھو لایملک الا مایملکہ لہ مولاہ کما اشارالیہ بقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم غیر ان لکم رحما سابلھا ببلالھا وکذا معنی قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لااعنی عنکم من اﷲ شیئا ای بمجرد نفسی من غیر ما یکر منی بہ اﷲ تعالٰی من نحو شفاعۃ اومغفرۃ وخاطبھم بذٰلک رعایۃ لمقام التخویف والحث علی العمل والحرص علی ان یکونوا اولی الناس حظا فی تقوٰی اﷲ تعالٰی وخشیتہ ثم اوما الی حق رحمہ اشارۃ الی ادخال نوع طمانیۃ علیھم وقیل ھذا قبل علمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بان الانتساب الیہ ینفع وبانہ یشفع فی ادخال قوم الجنۃ بغیر حساب ورفع درجات اٰخرین واخراج قوم من النار ۱؎۔
محب طبری وغیرہ علماء نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (بنفسہٖ) کسی چیز کے مالک نہیں۔ نہ نفع کے نہ نقصان کے ہاں اللہ عزوجل نے ان کو مالک بنایا ہے اپنے اقارب بلکہ اپنی تمام امت کے نفع کا شفاعت عامہ وخاصہ کے ذریعہ، تو وہ بذات خود مالک نہیں ہیں۔ ہاں انکے مولٰی نے ان کو مالک بنایا ہے جیسا کہ اس طرف اشارہ فرمایا اپنے اس ارشاد گرامی میں (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) مگر یہ کہ تمھارے لئے ایک تعلق ہے _________ اور یہی معنی ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس قول کے کہ میں اللہ کے نزدیک تمھیں کسی کام نہ آؤں گا یعنی بطور خودماسوائے اس کے جس کی اللہ تعالٰی مجھے کرامت بخشے گا جیسے شفاعت یا مغفرت، اور ان سے خطاب فرمایا اس کے ساتھ (تمھیں نفع نہ دوں گا) مقام تخویف کی رعایت کرتے ہوئے اور عمل پر ابھارنے اور اس بات پر حرص دلانے کے لئے کہ وہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے اور اس کی خشیت میں لوگوں میں بہتر نصیبے والے ہوں، پھر اشارہ فرمایا اپنے حق تعلق کی جانب، اشارہ فرمایا اس قول تک کہ فرمایا انھیں اطمینان دلادیا اور کہا گیا کہ یہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس بات کے جاننے سے پہلے کی بات ہے کہ آپ کی طرف انتساب نفع دیتاہے اور اس بات کے جاننے سے پہلے کہ وہ امت کو جنت میں بغیر حساب داخل کرے گا۔ اوردرجوں پر درجہ بلند کرنے اور امت کو دوزخ سے نکالنے میں شفیع ہوں گے۔ (ت)
(۱؎ الصواعق المحرقہ الباب الحادی عشر الفصل الاول مکتبہ مجیدیہ ملتان ص۱۵۸)
اسی میں بعض احادیث نفع نسب کریم ذکرکرکے فرماتے ہیں:
ولا ینافی ھذہ الاحادیث ما فی الصحیحین وغیرھما انہ لما انزل قولہ تعالٰی وانذر عشیرتک الاقربین فجمع قومہ ثم عم وخص بقولہ لااغنی عنکم من اﷲ شیئا حتی قال یافاطمۃ بنت محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیھا وسلم الخ اما لان ھذہ الروایۃ محمولۃ علی من مات کافرا اوانھا اخرجت مخرج التغلیظ والتنفیر اوانھا قبل علمہ بانہ یشفع عموما وخصوصا ۱؎۔
اور یہ احادیث منافی نہیں ہے ان احادیث کے جو صحیحین وغیرہ میں ہیں کہ جب اللہ تعالٰی کافرمان وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوا تو آپ نے اپنی قوم کو جمع فرمایا پھر اپنے قول لااغنی عنکم من اللہ شیئا کو عام وخاص دونوں طریقے سے بیان فرمایا کہ اے فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ تعالی علیہ وعلیھا وسلم) یا تو اس لئے کہ یہ روایت محمول ہے اس شخص پر جو کافر مرا یا یہ کہ روایت تغلیظ وتنفیر کے طور پر بیان ہوئی یا یہ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس بات کے علم سے پہلے کی بات ہے کہ وہ شفاعت عامہ وخاصہ فرمائیں گے (م)
(۱؎ الصواعق المحرقۃ باب الحث علی جسم والقیام لواجب حقہم مکتبہ مجیدیہ ملتان ص۲۳۰)
علامہ مناوی تیسیر میں زیر حدیث ''کل سبب ونسب'' فرماتے ہیں:
لایعارضہ قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاھل بیتہ لا اغنی عنکم من اﷲ شیئا لان معناہ انہ لایملک لھم نفعالکن اﷲ یملکہ نفعھم بالشفاعۃ فھو لایملکہ الا ماملکہ ربہ ۲؎۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اپنے اہلبیت سے لااغنی عنکم فرمانا اس حدیث کے معارض نہیں اس لئے کہ معنی یہ ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے نفع کے مالک نہیں لیکن اللہ تعالٰی شفاعت کے ذریعہ ان کے نفع کامالک بنائیگا پس وہ نہیں ہیں مالک مگر اس کے جس کا ان کو ان کے رب نے مالک بنایا۔
(۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث کل سبب ونسب الخ مکتبہ الامام الشافعی ریاض ۲/ ۳۱۳)
حضرت شیخ محقق قدس سرہ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:
غایت وانذارومبالغہ درآنست ولافضل بعضے ازیں مذکورین ودرآمد ایشاں بہشت را شفاعت آں سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرعصاۃ امت را چہ جائے اقربائے خویشاں وے باحادیث صحیحہ ثابت شدہ است وباوجود آں خوف لاابالی باقیست وایں مقام تقاضائے ایں حال گردو تواند کہ احادیث فضل وشفاعت بعد ازاں ودرودیافتہ باشند وبالجملہ مامور شداز جانب پروردگار تعالٰی بانذار پس امتثال کرد ایں امرار ۱؎۔
اس میں غایت اور انذار اور مبالغہ ہے اور ان مذکور حضرات کی دیگر بعض سے فضلیت نہیں اور آنا ان کا بہشت میں اور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ہم گنہ گار امت کی شفاعت کرنا چہ جائے کہ اپنے اقرباء کی احادیث صحیحہ سے ثابت ہوئی ہے اور باوجود خوف لاابالی باقی ہے اوریہ مقام اس حال کا متقاضی ہے اور معلوم ہوناچاہئے کہ فضیلت وشفاعت والی احادیث اس کے بعد وارد ہوئی ہیں، خلاصہ یہ کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ اس انداز کو بیان کرنے پر مامور تھے۔ پس آپ نے اس امر کو واضح طور پر پورا کیا۔
(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ کتا ب الرقاق باب در لواحق ومتممات الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/ ۲۷۲)
تفاضل انساب
بالجملہ تفاضل انساب بھی یقینا ثابت، اور شرعا اس کا اعتبار بھی ثابت، اور انساب کریمہ کا آخرت میں نفع دینا بھی جزما ثابت،ا ور نسب کو مطلقا محض بے قدر وضائع وبرباد جاننا سخت مردود وباطل۔ خصوصا اس نظر سے کہ اس کا عموم عرب بلکہ قریش بلکہ بنی ہاشم، بلکہ سادات کرام کو بھی شامل ، اب یہ قول اشد غضب وہلاک دیوار سے ہائل اور اسی پر نظر فقیر غفرلہ القدیر کو اس قدر تطویل پر حامل کہ نسب عرب نہ کہ قریش نہ کہ ہاشم، نہ کہ سادات کرام کی حمایت ہر مسلمان پر فرض کامل۔