Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
41 - 190
حدیث ۱۰۷: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
الشھید یغفرلہ اول دفقۃ من دمہ ویزوج حوراوین ویشفع فی سبعین من اھل بیتہ رواہ الطبرانی ۳؎ فی الاوسط بسند حسن عن ابی ھریرۃ رضی تعالٰی عنہ۔
شہید کے بدن سے پہلی بارجو خون نکلتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کی مغفرت فرمادی جاتی ہے۔ اور دم نکلتے ہی دو حوریں اس کی خدمت کو آجاتی ہیں اور اپنے گھروالوں سے ستر اشخاص کی شفاعت کا اسے اختیار دیا جاتاہے اسے

طبرانی نے اوسط میں بسند حسن ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
 (۳؎ المعجم الاوسط     حدیث ۳۳۲۳     مکتبہ المعارف ریاض        ۴ /۱۸۱)
حدیث ۱۰۸ و ۱۰۹ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
للشھید عنداﷲ سبع خصال (الی ان قال ) ویشفع فی سبعین انسانا من اقاربہ۔ رواہ احمد ۱؎ بسند حسن والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت والترمذی وصححہ وابن ماجۃ عن المقدام بن معدیکرب رضی اﷲ عنھما۔
شہید کے لئے اللہ تعالٰی کے یہاں سات کرامتیں ہیں۔ ہفتم یہ کہ اس کے اقربا سے ستر شخصوں کے حق میں اسے شفیع بنایا گیا۔ اس کو احمد نے بسند حسن اور طبرانی نے کبیر میں عبادہ بن صامت سے اور ترمذی نے اور اسے صحیح کہا اور ابن ماجہ نے مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔
 (۱؎ الترغیب والترھیب     بحوالہ احمد والطبرانی     کتاب الجہاد حدیث ۲۷     مصطفی البابی مصر    ۲ /۳۲۰)

(جامع الترمذی     ابواب فضائل الجہاد     امین کمپنی دہلی                ۱ /۱۹۹ و ۲۰۰)

(سنن ابن ماجہ         ابواب الجہاد باب فضل الشہادت فی سبیل اللہ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۰۶)
حدیث ۱۱۰ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
یصف الناس یوم القیمۃ صفوفا فیمر الرجل من اھل النار علی الرجل فیقول یافلان اماتذکر یوم استسقیت فسقیتک شربۃ فیشفع لہ ویمر الرجل علی الرجل فیقول اماتذکر یوم ناولتک طھورا فیشفع لہ ویقول یافلان اماتذکر یوم بعثتنی فی حاجۃ کذا فذھبت لک فیشفع لہ رواہ ابن ۲؎ ماجۃ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
لوگ روز قیامت پرے باندھے ہوں گے ایک دوزخی ایک جنتی پر گزرے گا۔ اس سے کہے گا کیا آپ کو یاد نہیں آپ نے ایک دن مجھ سے پانی پینے کو مانگا میں نے پلایا تھا۔ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس دوزخی کی شفاعت کرے گا۔ ایک دوسرے پر گزرے گا کہے گا آپ کو یا دنہیں کہ ایک دن میں نے آپ کو وضو کو پانی دیا تھا اتنے ہی پروہ اس کا شفیع ہوجائے گا ایک کہے گا آپ کو یاد نہیں کہ فلاں دن آپ نے مجھے فلاں کام کو بھیجا میں چلا گیا تھا اسی قدر پریہ اس کی شفاعت کریگا۔ اس کو ابن ماجہ نے حضرت انس سے روایت کیا۔
(۲؎سنن ابن ماجہ    کتاب الادب باب فضل صدقہ الماء      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۲۷۰)
ایک روایت میں ہے کہ ''جنتی جھانک کر دوزخی کو دیکھے گا ایک دوزخی اس سے کہے گا'' آپ مجھے نہیں جانتے'' وہ کہے گا ''واللہ! میں تو تجھے نہیں پہچانتا، افسوس تجھ پر تو کون ہے'' وہ کہے گا میں وہ ہوں کہ آپ ایک دن میری طرف سے ہو کر گزرے اور مجھ سے پانی مانگا اور میں نے پلا دیا تھا اس کے صلہ میں اپنے رب کے حضور میری شفاعت کیجئے'' وہ جنتی اللہ عزوجل کے زائروں میں اس کے حضور حاضر ہو کر یہ حال عرض کریگا۔ یا رب شفعنی اے میرے رب ! تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما'' فیشفعہ اﷲ مولٰی عزوجل اس کے حق میں اس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ رواہ ابویعلٰی ۱؎ عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ''
 (۱؎ مسند ابویعلٰی  حدیث ۳۹۹۳     مؤسسۃ علوم القرآن بیروت    ۴ /۱۱۶)
دویتیموں کی دیوار اور اصلاح اعمال
جب مقبولان خدا سے اتنا ساعلاقہ کہ کبھی ان کو پانی پلادیا یا وضو کو پانی دے دیا۔ عمر میں اس کا کوئی کام کردیا۔ آخر میں ایسا نفع دے گا تو خود ان کا جزہونا کس درجہ نافع ہونا چاہئے بلکہ دنیا و آخرت میں صالحین سے علاقہ نسب کا ہونا قرآن عظیم سے ثابت ہے:
واما الجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ وکان تحتہ کنز لھما وکان ابوھما صالحا فاراد ربک ان یبلغا اشدھما و یستخرج کنزہما رحمۃ من ربک ۲؎۔
وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو میرے رب نے اپنی رحمت سے چاہا کہ یہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں۔
(۲؎ القرآن الکریم         ۱۸ /۸۲)
خضر علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو ایک دیوار گرتے دیکھی اور ہاتھ لگا کر اسے قائم کردیا اور وہاں والوں نے ان کو اور موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مہمانی دینے سے انکار کردیا تھا اور ان کو کھانے کی حاجت تھی اس پر موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کہا کہ ''آپ چاہتے تو اس پر اجرت لیتے'' خضر علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کا یہ جواب دیا کہ:

'' یہ دیوار دو یتیموں کی ہے جو ایک مرد صالح کی اولاد میں ہیں اور اس میں نیچے ان کا خزانہ ہے دیوارگرجاتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا لوگ لے جاتے۔ لہذا آپ کے رب عزوجل نے اپنی رحمت سے چاہا کہ دیوار قائم اور خزانہ محفوظ رہے کہ وہ جو ان ہو کر نکالیں، ان کے صالح باپ کے صدقہ میں ان پر رحمت ہوئی''

علماء فرماتے ہیں وہ ان بچوں کاآٹھواں یا دسواں باپ تھا۔
حدیث ۱۱۱ :عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں:
حفظ الصلاح لابیھما وماذکر عنھما صلاحا۔
ان کے باپ کی صلاح کا لحاظ فرمایا گیا۔ ان کی اپنی صلاح کا کوئی ذکر نہ فرمایا۔

یعنی وہ اگرچہ خود بھی صالح ہوں اور کیوں نہ ہوں گے کہ ان کے لئے خزانہ لازوال محفوظ رکھا تھا سونے کی تختی پر لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ لکھا۔ اور کچھ نصائح و مواعظ ۔
کما رواہ ابنا ابی حاتم ۱؎ ومردویۃ فی تفاسیرھما عن ابی ذر وھذا عن علی رضی اﷲ تعالٰی عنہما کلاھما عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم والشیرازی فی الالقاب والخرائطی فی قمع الحرص وابن عساکر فی التاریخ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما من قولہ۔
جیساکہ اسے روایت کیا ہے ابن حاتم ومردویۃ نے اپنی تفاسیر میں ابی ذر سے اور یہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے۔ دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے۔ اورشیرازی نے القاب میں اور خرائطی نے قمع الحرص میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما کے قول سے۔
 (۱؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر)     تحت آیۃ وکان ابوہما صالحا     المطبعۃ المیمنۃ مصر    ۱۶/۶)

(الدرالمنثور بحوالہ ابن مبارک وسعید بن منصور واحمد فی الزہد وابن المنذر وابن ابی حاتم الخ    ۴ /۲۳۵)

(الدرالمنثور   بحوالہ حاتم وابن مردویہ والبزار عن ابی ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ مکتبہ آیۃ اللہ قم ایران    ۴ /۲۳۴)

(الدرالمنثور  بحوالہ الخرائطی فی قمع الحرص وابن عساکر فی التاریخ عن ابن عباس        ۴ /۲۳۵)

(تفسیر ابن ابی حاتم     تحت آیۃ وکان ابوہما صالحا         مکتبہ نزار مصطفی الباز مکۃ المکرمۃ    ۷ /۲۳۷۵)
مگر یہ صلاح کا سبب تھا نہ کہ نتیجہ۔ نتیجہ ان کے باپ کی صلاح کا تھا۔
Flag Counter