Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
40 - 190
حدیث ۹۵ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
کل نسب وصھر ینقطع یوم القیمۃ الا نسبی وصھری ۔ رواہ ابن ۲؎ عساکر عن عبداﷲ بن امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
ٹوپی اور پائچے کے سب رشتے قیامت میں منقطع ہوجائیں گے مگرمیرے رشتے۔ اس کو روایت کیا ابن عساکر نے عبداﷲ بن امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے
(۲؎کنز العمال بحوالہ ابن عساکر حدیث   ۳۹۱۵     مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۱۱ /۴۰۹)
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:
مابال اقوام یزعمون ان قرابتی لاتنفع کل سبب ونسب منقطع یوم القیمۃ الا نسبی وسببی فانھا موصولۃ فی الدنیا والاخرۃ۔ رواہ البزار ۱؎۔
کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ زعم کرتے ہیں کہ میری قرا بت نفع نہ دے گی۔ ہر علاقہ ورشتہ قیامت میں منقطع ہوجائے گا مگرمیرا رشتہ اور علاقہ کہ دنیا وآخرت میں جڑا ہواہے۔ اس کو بزار نے روایت کیا ہے۔
 (۱؎ مجمع الزوائد         بحوالہ البزار کتاب علامات النبوۃ باب فی کرامتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم   دارالکتاب بیروت    ۸ /۲۱۶)
دوسری حدیث صحیح میں یوں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے برسر منبر فرمایا: ؂
مابال رجال یقولون ان رحم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لا تنفع قومہ یوم القیمۃ بلٰی واﷲ ان رحمی موصولۃ فی الدنیا والاخرۃ۔ رواہ الحاکم۲؎ عن ابی سعید الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ وصححہ ابن حجر فی غیر مامقام۔
کیا خیال ہے ان شخصوں کا کہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قرابت روز قیامت ان کی قوم کو نفع نہ دے گی خدا کی قسم میری قرابت دنیا وآخرت میں پیوستہ ہے۔ اسے روایت کیا ہے حاکم نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو ابن حجر نے کئی مقام پر صحیح قرار دیا ہے۔
 (۲؎المستدرک للحاکم     کتاب معرفۃ الصحابۃ     من اھان قریشیا اھانہ اﷲ     دارالفکر بیروت     ۴ /۷۴)

(مجمع الزوائد     باب ماجاء فی حوض النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم         دارالکتاب بیروت    ۱۰ /۳۶۴)
حدیث ۹۷ تا ۱۰۱ :کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا:
مابال اقوام یزعمون ان رحمی لا تنفع بل حتی حاء وحکم۔ رواہ الحاکم و ابن عساکر عن ابی بردۃ ومعناہ عند الطبرانی وابن مندۃ والدیلمی عن ابی ھریرۃ وابن عمر وعمار معا رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین وبوجہ اخر عند الطبرانی فی الکبیر ۳؎ عن ام ھانی رضی اﷲ تعالٰی عنہا وسیاتی۔
کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ گمان کرتے ہیں کہ میری قرابت نفع نہ دے گی ہاں نفع دے گی یہاں تک کہ قبائل حاء وحکم دو قبیلہ یمن کو، اسے روایت کیاہے ابن عساکر نے ابی بردہ سے۔ اسی معنی کو طبرانی ، ابن مندہ اور دیلمی نے حضرت ابوہریرہ ابن عمر اور عمار سے اجتماعی طو ر پر روایت کیا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اور ایک اور طریق سے طبرانی نے کبیرمیں ام ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اور ابھی یہ روایت آئے گی
 (۳؎مجمع الزوائد     کتاب المناقب باب مناقب ام ہانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ         دارالکتاب بیروت    ۹ /۲۵۷)
جنت میں بلند درجے والا کون!
حدیث ۱۰۲ و ۱۰۳ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
رأیت کانی دخلت الجنۃ فرأیت الجعفر درجۃ فوق درجۃ زید فقلت ماکنت اظن ان زیدا دون جعفر فقال جبریل ان زیدا لیس بدون جعفر ولکنا فضلنا جعفرا لقرابتہ منک۔ رواہ الحاکم ۱؎ عن ابن عباس وابن سعد فی الطبقات عن محمد بن عمر بن علی المرتضی رضی اﷲ تعالٰی عنہم مرسلا۔ وھذا لفظ ملفق بینھما۔
میں جنت میں گیا تو ملاحطہ فرمایا کہ جعفر بن ابی طالب کا درجہ زید بن ثابت کے درجے سے اوپر ہے۔ میں نے کہا مجھے گمان نہ تھا کہ زید جعفر سے کم ہے۔ جبریل نے عرض کی زید جعفر سے کم تو نہیں مگر ہم نے جعفر کا درجہ اس لئے زیادہ کیا ہے کہ انھیں حضور سے قرابت ہے۔ اس کو روایت کیا ہے حاکم نے ابن عباس سے اور ابن سعد نے طبقات میں محمد بن عمر بن علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مرسلا اور یہ لفظ دو نوں میں مختلف ہیں ۔
 (۱؎ الطبقات الکبرٰی لابن سعد         ترجمہ جعفر بن ابی طالب         دارصادر بیروت     ۴ /۳۸)

(المستدرک للحاکم         کتاب معرفۃ الصحابۃ         دارالفکر بیروت    ۳ /۲۱۰)
حدیث ۱۰۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
من قرأالقراٰن فاستظھرہ فاحل حلالہ وحرم حرامہ ادخلہ اﷲ بہ الجنۃ وشفعہ فی عشرۃ من اھلہ بیتہ کلھم قدوجبت لہ النار۔ رواہ ابن ۲؎ ماجۃ والترمذی عن امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ۔
جس نے قرآن حفظ کیا اور اس کے حلال کوحلال اور حرام کو حرام ٹھہرایا اللہ تعالٰی اس کی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے اہل خانہ کے دس افراد کے متعلق اس کی سفارش قبول ہوگی جن پر جہنم واجب ہوچکی تھی۔ اس کو روایت کیا ہے ابن ماجہ اور ترمذی نے امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے۔
 (۲؎ جامع الترمذی         ابواب فضائل القرآن باب ماجاء فی فضل قاری القرآن         امین کمپنی دہلی        ۲ /۱۱۴)

(سنن ابن ماجہ         باب فضل من تعلم القرآن وعلمہ الخ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۹)
شفاعت اور مغفرت
حدیث ۱۰۵ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
الحاج یشفع فی اربع مائۃ من اھل بیت اوقال من اھلہ بیتہ ویخرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ۔ رواہ البزار ۱؎ عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
چارسو عزیزوں قریبوں کے حق میں حاجی کی شفاعت قبول ہوگی۔ حاجی گناہ سے ایسے نکل جاتاہے جیسا جس دن ماں کی پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ اس کو روایت کیا ہے بزار نے ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔
 (۱؎ کنز العمال بحوالہ البزار عن ابی موسٰی     حدیث ۱۱۸۴۱     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۵ /۱۴)

(الترغیب والترھیب بحوالہ البزار کتاب الحج     حدیث ۱۵         مصطفی البابی مصر    ۲ /۱۶۶)

(مجمع الزوائد   بحوالہ البزار  باب دعاء الحجاج والعمار     دارالکتاب بیروت    ۳ /۲۱۱)
حدیث ۱۰۶ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
الشھید یشفع فی سبعین من اھل بیتہ رواہ ابوداؤد ۲؎ وابن حبان فی صحیحہ عن ابی الدرداء رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
شہید کی شفاعت اس کے ستر اقارب کے بارے میں مقبول ہوگی۔ اس کو ابوداؤد اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
 (۲؎ سنن ابی داؤد     کتاب الجہاد باب فی الشہید یشفع     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۳۴۱)

(موارد الظمان         حدیث ۱۶۱۲         المطبعۃ السلفیہ        ص۳۸۸)
Flag Counter