Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
4 - 190
روزہ وزکوٰۃ وحج
مسئلہ ۱۸: مسئولہ عبدالستار بن اسمعیل از شہر گونڈل کاٹھیا وار مورخہ ۹ شعبان یکشنبہ ۱۳۳۴ھ

بعض لوگ اس ملک میں بعد نماز عصر کے اذان مغرب تک کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں، اور اس کو عصر کا روزہ کہتے ہیں اس کے فوائد بہت بیان کئے جاتے ہیں ایک فائدہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وقت سکرات جب شیطان پانی لے کر دھوکا دینے کوآئے گا اس وقت اس روزہ رکھنے والے کو وقت عصر کا معلوم ہوگا اور روزہ کاخیال رہے گا تب کہہ دے گا میں روزہ سے ہوں ہرگز  تیرا پانی نہ پیوں گا چنانچہ شیطان لاچار ہوکر چلا جائے گا اور اس روزہ کا رکھنے والا گمراہی سے بچ جائے گا، اب کیا یہ روزہ اور اس کے فوائد صحیح ہیں یانہیں؟ کسی معتبر کتاب میں اس کی کچھ اصل ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو اس پر ثواب سمجھ کر عمل کرنا کیسا ہے؟ فقط۔
الجواب: حدیث فقہ میں اس کی اصل نہیں معمولات بعض مشائخ سے ہے اور اس پرعمل میں حرج نہیں انسان جتنی دیر شہوات نفسی سے بچے بہتر ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۹: از اجمیر شریف متصل امام باڑہ مکان میرگلزار علی صاحب مرسلہ فیاض حسین صاحب ۲۹ شوال ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زکوٰۃ اور فطرہ خلافت فنڈ میں دینا نیز آمدنی ٹھیٹرجو شرعا ناجائز ہے اس میں دینا جائز ہے یانہیں؟
الجواب : زکوٰۃ مسجد میں دے تو ادا ہونہیں سکتی اسے خلافت میں کیسے دیا جاسکتاہے زکوٰۃ کارکن تملیک فقیر ہے۔ درمختار میں ہے :
لاصرف الی مسجد لعدم التملیک وھوالرکن ۱؎۔
کسی مسجد میں مال زکوٰۃ خرچ کرنا درست نہیں اس لئے کہ اس میں محتاج کو مالک بنانا نہیں پایا جاتا جبکہ تملیک فقیر زکوٰۃ من رکن ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الزکوٰۃ   باب المصرف     مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۴۱۔ ۱۴۰)
تھیٹر کا روپیہ کہ تماشہ کی اجرت میں لیا جاتاہے قطعی حرام اور اشد قسم کا حرام ہے مگر سوال بے منشاہے خلافت فنڈ اگر بالفرض ایسوں کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ کو اللہ رسول کو رسول، حلال کو حلال، حرام کو حرم جانتے ہوں تو وہ خود ہی ایسا مال نہ لیں گے، اور اگرایسوں کے ہاتھوں میں ہو جن کے نزدیک اسلام وکفر میں کوئی وجہ امتیاز نہ ہیں سب برائے نام ہیں جو اپنے اسلام سے بھی صراحۃ انکار کریں، جو کفر کا بول بالا کرنے کے لئے شعا ر اسلام کی بندش چاہیں جو مشرکوں کے مجمع میں مشرک کی جے بولیں، جو مشروکوں کے ہاتھ سے پانے ماتھے پر قشقے لگوائیں، جو اپنے آپ کو لالہ وپنڈت کہیں جو مساجد میں منبروں پر مشرکوں سے لیکچر دلوائیں جو مشرکوں کی خوشی کے لئے رام لچھمن پر پھول چڑھائیں، جو سخت اشد وہابیوں منکران رحمۃ العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی مجلس کاجسے بزعم خود دینی مجلس سمجھیں صدر بنائیں، جو ایسوں کو کہ اپنے معبود کا ظالم جاہل چور شرابی ہونا جائز رکھیں ایسے کو اللہ جانیں یہ ان کو شیخ الہند وشیخ الاسلام بتائیں جو صاف لکھ دین کہ ہم ایک ایسا مذہب بنانے کی فکر میں ہیں جو بتوں کے معبد کو مقدس بنائے گا تو سوال محض فضول ہے انھیں احتراز کی کیا وجہ اور ان پر اعتراض کا کیا موقع جنھیں کفر واسلام میں امتیاز نہیں حلال وحرام میں امتیاز کیا معنٰی، بلکہ جن کے نزدیک اسلام کفر اور کفر اسلام ہے ان کے یہاں آپ ہی حرام حلال اور حلال حرام ہے۔ ما علی مثلہ الخطاء، واﷲ تعالٰی اعلم (اس قسم کے شخص سے خطا بعید نہیں، اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ ت)
مسئلہ ۲۰: از شہر محلہ سوداگران مسئولہ احسان علی طالب علم مدرسہ منظرا لاسلام ۱۸ صفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر عورت حج کو جانا چاہتی ہےاور شوہر اس کا اس کو منع کرے کسی عذرسے، تو جاسکتی ہے بغیر اجازت شوہر کے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : اگر محرم ساتھ رہے اور حج اس پر فرض ہے تو جائے گی ورنہ نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
جنائز وزیارت قبور ومزارات اولیاء
مسئلہ ۲۱ : از درؤ تحصیل کچھا ضلع نینی تال مرسلہ عبدالعزیز خاں     ۲۲ رجب ۱۳۱۵ھ

زیارت اولیاء اللہ کے واسطے جانا کیسا ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ ، اجر پاؤ۔ ت)
الجواب  : قطعا جائز  لاطلاق قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
الافزوروھا ۱؎۔
لوگو!اب قبروں کی زیارت کیا کرو۔ ت)
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب لجنائز فصل فی الذھاب الی زیارت القبور     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۳۱۴)
وقد فصلہ الامام حجۃ الاسلام فی الاحیاء وغیرہ فی غیرہ والمسألۃ افردت بالتالیف۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی نے احیاء العلوم میں اور دیگر ائمہ نے اپنی اپنی کتب میں اس مسئلہ کو تفصیلا بیان کیا ہے اور خاص اس مسئلہ میں مستقل کتب لکھی گئی ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
مسئلہ ۲۲: از بنگالہ ضلع نواکھالی موضع بھولاکوٹ مرسلہ حیدر علی صاحب     ۱۳ شعبان ۱۳۱۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو مولود از شکم مادر مردہ شود تو کس طرح دفن کیا جائے۔ آیا کہ نال کٹواکر دفن کریں، مع الدلیل بالتفصیل۔ بینوا توجروا۔
الجواب : اس کا نال کاٹنے کی حاجت نہیں کہ ایذائے بے سبب ہے
  اخرج الامام محمد فی کتاب الاثار و ابوعبید القاسم بن سلام وابراہیم الحربی کلاھما فی غریب الحدیث عن ابراھیم النخعی  عن ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما انما سئلت عن المیت یسرح رأسہ فقالت علام تنصون میتکم ۱؎ واخرج عبدالرزاق فی مصفنہ عنھا رضی اﷲ تعالٰی عنہا رأت امرأۃ یکدون رأسھا فقالت علام تنصون میتکم ۲؎ فاذا کان ھذا فی تسریح شعرہ فما ظنک بقطع بضعۃ منہ مع غیر حاجۃ الیہ ولا نفع ۳؎ کمالاتخفی واﷲ تعالٰی اعلم۔
امام محمد نے کتاب الآثار میں ابوعبیدقاسم بن سلام اور ابراہیم حربی نے غریب الحدیث میں ابراہیم نخعی کے حوالے سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تخرج کی کہ ان سے اس عورت کی میت کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس کے سر کے بالوں میں کنگھی کی جاسکتی ہے؟ ارشاد فرمایا : کاہے کے لئے تم میت کے بالوں میں کنگھی کرتے ہو (اور اسے تکلیف پہنچاتے ہو یعنی ایسا کرنا مناسب اور ٹھیک نہیں) محدث عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں انہی سے تخریج کی ہے کہ مانی صاحب نے ایک مردہ عورت دیکھی کہ اس کے سر کے بالوں میں لوگ کنگھی کرتے تھے تو آپ نے فرمایا، کیوں اپنے مردہ کے بالوں میں کنگھی کرکے اسے تکلیف پہنچاتے ہو، جب بالوں میں کنگھی کے بارے میں یہ حکم ہے تو پھر اس کے جسم سے گوشت کا ٹکڑا کاٹنے کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے باوجود یہ کہ اس کی ضرورت بھی نہیں اور اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں، اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)
 (۱؎ کتاب الاثار     باب الجنائز     حدیث ۲۲۷         ادارۃ القرآن کراچی    ص۴۶)

(۲؎ المصنف لعبدالرزاق     حدیث ۶۲۳۲     المکتب الاسلامی بیروت    ۳/ ۲۳۷)

(۳؎ القرآن الکریم       ۱۷/ ۲۶)
Flag Counter