Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
39 - 190
نفع آخرت
ظاہر ہے کہ اخلاق فاضلہ باعث اعمال صالحہ ہیں۔ اور اعمال صالحہ نفع آخرت اور اس خصوص میں خصوص بکثرت۔
حدیث ۸۷ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
قریش علی مقدمۃ الناس یوم القیمۃ ولو لاان تبطر قریش لاخبر تھا بما لمحسنھا من الثواب عند اﷲ۔ رواہ ابن ۳؎ عدی عن جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
قریش روز قیامت سب لوگوں سے آگے ہوں گے اور اگر قریش کے اترا جانے کا خیال نہ ہو تا تو میں انھیں بتادیتا کہ ان کے نیک کے لئے اللہ کے یہاں کیا ثواب ہے۔ اس کو روایت کیا ہے ابن عدی نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ۔
 (۳؎ الکامل لابن عدی     ترجمہ اسمعیل بن یحٰیی مدنی         دارالفکر بیروت    ۱ /۲۹۹)

(کنز العمال بحوالہ عن جابر     حدیث ۳۳۱۰         مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۲۵)
روز قیامت حضور سے قریب تر قریش ہوں گے
حدیث ۸۸ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
ان لواء الحمد یوم القیامۃ بیدی وان اقرب الخلق من لوائی یومئذ العرب۔ رواہ الامام والترمذی ۱؎ الحکیم والطبرانی فی الکبیر والبیھقی فی شعب الایمان عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بے شک روز قیامت لواء الحمد میرے ہاتھ میں ہوگا۔ اور بے شک اس دن تمام مخلوق میں عرب میرے نشان سے زیادہ قریب ہوں گے اسے روایت کیا ہے امام ترمذی حکیم نے اور طبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔
 (۱؎شعب الایمان     حدیث ۱۶۱۳         دارالکتب العلمیہ بیرت    ۲ /۲۳۲)

(کنز العمال بحوالہ الحکیم طب ھب     حدیث ۳۳۹۲۹     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۴۶)

(مجمع الزوائد      بحوالہ الطبرانی  کتاب المناقب باب ماجاء فی فضل العرب     دارالکتاب بیروت    ۱۰ /۵۲)
حدیث ۸۹ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
اول من اشفع لہ یوم القیمۃ من امتی اھل بیتی ثم الاقرب فالاقرب من قریش ثم الانصارثم من اٰمن بی واتبعنی من الیمن ثم من سائر العرب ثم الاعاجم ومن اشفع لہ اولا افضل رواہ الطبرانی ۳؎ فی الکبیر والدار قطنی فی الافراد والمخلص فی الفوائد عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
روز قیامت میں سب سے پہلے اہل بیت کی شفاعت فرماؤں گا۔ پھر درجہ بدرجہ زیادہ نزدیک ہیں قریش تک۔ پھر انصار۔ پھر وہ اہل یمن جو کہ مجھ پر ایمان لائے اور میری پیروی کی، پھر باقی عرب، پھر اہل عجم۔ اور میں جس کی شفاعت پہلے کروں وہ افضل ہے اس کو روایت کیا ہے طبرانی نے کبیر میں اور دارقطنی نے افراد میں اور مخلص نے فوائد میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے۔
 (۲؎ المعجم الکبیر         عن ابن عمر حدیث ۱۳۵۵۰         المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۲ /۴۲۱)

(کنز العمال         بحوالہ طب ک     حدیث ۳۴۱۴۵     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۹۴)
ترجیح قریش کی ہوگی
حدیث ۹۰ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
لو انی اخدت بحلقۃ باب الجنۃ مابدأت الابکم یابنی ہاشم، رواہ الخطیب ۱؎ عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
میں دروازہ بہشت کی زنجیر ہاتھ میں لوں تو اے بنی ہاشم ! پہلے میں تمھیں سے شروع کروں۔ اسے روایت کیا ہے خطیب نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔
 (۱؎ تاریخ بغداد     ترجمہ عبداللہ بن الحسن ۵۰۵۸     دارالکتب العلمیہ بیروت    ۹ /۴۳۹)
حدیث ۹۱ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
اٰترون انی اذا تعلقت بحلق ابواب الجنۃ اوثر علی بنی عبدالمطلب احدا۔ رواہ ابن النجار ۲؎ عن ابن عاس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
کیا یہ خیال کرتے ہو کہ جب میں درہائے جنت کی زنجیر ہاتھ میں لوں اس وقت اولاد عبدالمطلب پر کسی اور کو ترجیح دوں گا۔ اس کو روایت کیا ہے ابن النجار نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے۔
 (۲؎ کنز العمال بحوالہ ابن النجار عن ابن عباس   حدیث ۳۳۹۰۴     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۴۱)
حضور سے قرابت
حدیث ۹۲ تا ۹۴ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
کل سبب ونسب منقطع یوم القیمۃ الا سببی ونسبی رواہ البزار ۳؎ والطبرانی فی الکبیر والحاکم فی المستدرک وصححہ وقال الذھبی اسنادہ صالح والدارقطنی والبیھقی فی السنن والضیاء فی المختارۃ عن امیر المومنین عمروالطبرانی عن ابن عباس وعن المسور بن مخرمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم، وھو عند احمد والحاکم والبیھقی عن المسعر فی حدیث اولہ فاطمۃ بضغۃ منی ۱؎ وحدیث الفاروق مع قصۃ تزوجہ سیدتنا ام کلثوم بنت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہم رواہ سعید بن منصور فی سننہ وابن سعد فی الطبقات وابونعیم فی المعرفۃ وابن عساکر بطرق ابن راھویۃ مختصرا۔
ہر علاقہ اور رشتہ روز قیامت قطع ہوجائے گا مگر میرا علاقہ اور رشتہ، اسے روایت کیا ہے بزار اور طبرانی نے کبیر میں اور حاکم نے مستدرک میں اور اسے صحیح کہا، اور ذہبی نے کہا اس کی سند صالح ہے۔ اور دار قطنی اور بیہقی نے سنن میں اور ضیاء نے مختارہ میں امیرالمومنین عمر سے، اور طبرانی نے ابن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اور یہ حدیث احمد، حاکم اور بیہقی کے ہاں مسعر سے مروی ہے اس حدیث کے اول میں ہے فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا میرے گوشت کا قطعہ ہے۔ اور حدیث فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث مع قصہ حضرت سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالٰی عنہا کا اپنے ساتھ نکاح مروی ہے۔ سعید بن منصور سے سنن میں اور ابن سعد نے طبقات میں اور ابونعیم نے معرفۃ الصحابہ میں اور ابن عساکر نے متعدد طرق سے اور ابن راہویہ نے مختصرا روایت کیا ہے۔
 (۳؎ المعجم الکبیر     حدیث ۲۶۳۳ تا ۲۶۳۵     المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۳ /۴۵ و حدیث ۱۱۶۲۱     ۱۱ /۲۴۳)

(السنن الکبرٰی  کتاب النکاح بیروت   ۷ /۱۱۴   و المستدرک کتاب معرفۃ الصحابۃ     ۳/ ۱۴۲)

(کنز العمال حدیث ۳۱۹۱۴     مؤسسۃ الرسالہ بیروت        ۱۱ /۴۰۹)

(۱؎ السنن الکبرٰی کتاب النکاح         ۷ /۶۴     والمستدرک کتاب معرفۃ الصحابۃ     ۳ /۱۵۸)

(کنز العمال بحوالہ حم ک         حدیث ۳۴۲۲۳     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۱۰۸)
Flag Counter