Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
37 - 190
علم اگر اثر یا پر (کہ آٹھویں آسمان کے ستاروں سے ہے) آویزاں ہوتا تو ایک مرد فارسی وہاں سے لے آتا۔ اصل حدیث بخاری ومسلم میں ابوہریرہ سے ہے اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں اگر دین ثریا پر ہوتا تب بھی فارس کاایک شخص اس کو حاصل کرلیتا۔ یا فرمایا: فارس کی اولاد میں سے اس کو حاصل کرلیتا۔ وہ شخص امام الائمہ، مالک الازمہ، کاشف الغمہ، سراج الامۃ سیدنا امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور ا س کو طبرانی نے کبیر میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔
 (۲؎ صحیح مسلم     کتاب الفضائل باب فضل فارس     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۱۲)

(۳؎ المعجم الکبیر     عبداللہ ابن عباس     حدیث ۱۰۴۷۰     المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۰ /۲۵۱)
سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فارسی ہونا کیا مضر، خصوصا اولاد کسرٰی کہ فارس کی اعلٰی نسل شمار ہوتی ہے جو ہزار ہا سال صاحب تاج وتخت رہی اور ان کی مجوسیت شریف قوم گنے جانے کے منافی نہیں، جیسے قریش کہ زمانہ جاہلیت میں بت پرست تھے اور بلا شبہ وہ تمام جہان کی اقوام سے افضل قوم ہے۔ انھیں فارسیوں میں امام بخاری بھی ہیں (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) یونہی خراسانی کہ وہ بھی فارسی ہیں۔ بلکہ تیسیر میں زیر حدیث:
لوکان الایمان عند الثریا لتنا ولہ رجال من فارس۔
اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہو تا تو اس کے علاقے(یعنی فارس) کے لوگ اس کو حاصل کرلیتے۔
قیل ارادبفارس ھنا اھل خراسان ۱؎
 (کہا جاتاہے فارس سے مراد یہاں اہل خراسان ہیں۔ ت) اور نسب بلاد مثل خراساں وبلخ ومرو دتتر کا ذکر خارج ازبحث ہے۔
(۱؎التیسیر شرح الجامع الصغیر         تحت حدیث لوکان الایمان عند الثریا مکتبہ الامام الشافعی ریاض    ۲ /۳۰۹)
شرافت ودناء ت کسی شہر کے سکونت پر نہیں، نہ بعض اکابر کا کوئی پیشہ کرنا اس کے جواز سے زائد دلیل نادر پر حکم۔ فرق ہے اس میں کہ فلاں امام نے نساجی کی اور فلاں نساج کہ قوم نساجین سے تھا امام ہوگیا۔ تمام انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام نے بکریاں چرائیں، اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں گڈریا نبی ہوگیا۔ اور سو بات کی ایک بات وہ ہے جس کی طرف ہم نے صدر کلام میں اشارہ کیا کہ مواز نہ بحیثیت مجموعی  ہے نہ کہ فردا فردا۔ اور حکم کے لئے غالب بلکہ اغلب کافی۔ اور شک نہیں کہ یوں اخلاق فاضلہ میں شریف قوموں کا حصہ غالب ہے۔ اور احادیث کثیرہ اس پر ناطق متعدد احادیث سے گزرا کہ : ایک قریش کی قوت دو مردوں کے برابر ہوتی ہے۔ اور ایک قریش کی امانت دو آدمیوں کے مثل۔
حدیث ۶۹: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
اذا اختلف الناس فالعدل فی مضر۔ رواہ الطبرانی ۱؎ فی الکبیر عن ابن عباس۔
جب لوگ مختلف ہوں تو عدل قوم مضر میں ہے۔ (جس میں سے قریش ہیں)۔ اس کو روایت کیا ہے طبرانی نے کبیرمیں ابن عباس سے۔
 (۲؎ المعجم الکبیر         حدیث ۱۱۴۱۸     المکتبہ الفیصلیۃ بیروت        ۱۱/ ۱۷۸)
حدیث ۷۰: کہ فرماتے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
قسم الحیاء عشرۃ اجزاء فتسعۃ فی العرب وجزء فی سائر الناس، رواہ الخطیب فی البخلاء عن محمد بن مسلم۔
حیاء کے دس حصے کئے گئے ان میں سے نو حصے عرب میں ہیں اور ایک باقی تمام لوگوں میں، اس کوروایت کیا ہے خطیب نے بخلاء میں محمد بن مسلم سے۔
 (۳؎ کنز العمال بحوالہ الخطیب فے کتاب البخلاء     حدیث ۳۴۱۱۷         مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۸۸)
حدیث۷۱ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
ان فلانا اھدی الی ناقۃ فعوضتہ منھا ست بکرات فظل ساخطالقد ھممت ان لا اقبل ھدیۃ الا من قریشی او انصاری اوثقفی اودوسی، الحدیث۔ رواہ احمد ۱؎ والترمذی والنسائی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔ 

قال المناوی فی التیسیر لانھم لمکارم اخلاقہم وشرف نفوسھم وطیب عنصر ھم لا تطمح نفوسھم الی ماینتظر الیہ السفلۃ والرعاع من استکثار العوض علی الھدیۃ ۲؎۔
بے شک فلاں شخص نے ایک ناقہ نذر دیا تھا میں نے اس کے بدلے چھ جوان ناقے عطا فرمائے اور وہ ناراض ہی رہا، بے شک میرا ارادہ ہوا کہ ہدیہ قبول نہ کروں مگر قریشی یا انصاری یا ثقفی یا دوسی کا، الحدیث ۔ اس کو روایت کیا ہے احمد اور ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صحیح سند کے ساتھ، مناوی نے تیسیر میں کہا کہ وہ اپنے کرم اخلاق اور شرافت کے باعث کمینوں کی طرح ہدیہ پر زیادہ معاوضے کی نگران نہیں رہتے۔
 (۱؎ جامع الترمذی      ابواب المناقب باب فی ثقیف وبنی حنفیہ         امین کمپنی دہلی        ۲ /۲۳۳)

(مسند احمد بن حنبل     عن ابی ہریرہ                 المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۲۹۲)

(۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر         تحت حدیث ان فلانا اھدی لی ناقۃ الخ     مکتبہ الامام الشافعی ریاض    ۱ /۳۲۴)
امانت دار
حدیث ۷۲ :حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
لایملی مصاحفنا الاغلمان قریش وغلمان ثقیف۔ رواہ ابونعیم ۳؎ عن جابر بن سمرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ہمارے مصحف نہ لکھیں مگر قریش وثقیف کے لڑکے (یہ باب امانت سے ہوا) اسے ابونعیم نے جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
 (۳؎ کنز العمال بحوالہ ابی نعیم عن جابر     حدیث ۳۷۹۸۳     مؤسسۃ الرسالہ بیروت  ۱۴ /۷۷)
حدیث ۷۳ و ۷۴ :کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
ان قریشا اھل صدق وامانۃ فمن بغی لھم العواثرکبہ اﷲ علی وجہہ رواہ الامام الشافعی وابوبکر ابن ابی شیبۃ والامام احمد ۱؎ والبخاری فی الادب المفرد وابن جریر والشاشی و الطبرانی والضیاء عن رفاعۃ بن رافع الزرنی وابن النجار عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بیشک قریش راستی وامانت والے ہیں تو جو ان کی لغزشیں چاہے اللہ اسے منہ کے بل اوندھا کردے۔ اسے روایت کیا ہے امام شافعی اور ابوبکر بن ابی شیبہ اور امام احمد اور بخاری نے ادب المفرد میں اور ابن جریر اور شاشی اور طبرانی اور ضیاء نے رفاعہ بن رافع الزرنی سے اور ابن النجار نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔
 (۱؎ مسند احمد بن حنبل     حدیث رفاعہ بن رافع     المکتب الاسلامی بیروت    ۴ /۳۴۰)

(المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الفضائل     حدیث ۱۲۴۳۳     ادارۃ القرآن کراچی    ۱۲ /۱۶۸)

(المعجم الکبیر حدیث ۴۵۴۴ و ۴۵۴۵     المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۵ /۴۵ و ۴۶)
Flag Counter