فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۶۵: از جھونا مارکیٹ کرانچی بندر مرسلہ حضرت پیر سید ابراہیم صاحب گیلانی قادری بغدادی مدظلہ الاقدس ۱۵ رجب المرجب ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص ذات کا فقیر ہے اور کسی خانقاہ میں مجاور ہے بغداد شریف میں جاکر ایک پیر صاحب جو کہ عرصہ دراز سے مفقود الخبر معلوم کرنا اور ہندوستان میں آکر اپنے اصلی باپ کا نام بدل کر اس پیر مرحوم کا فرزند بننانیز سیادت وطریقت کے دم مارتا تاکہ اس دھوکے وفریب سے اپنا مرید بنائے اور زر وعزت دنیاوی حاصل کرنا ایسے شخص سے جوکہ بلا شبہہ اپنے آپ کو سید کہتا ہو اور اپنی نسب کو چھوڑ کر غوث الاعظم کے نسب میں داخل ہو ازروئے شریعت اسلامیہ مرید بنانا اور نماز پڑھانا جائز ہے یاہوسکتاہے یانہیں؟
الجواب : اپنے باپ کے سوا دوسرے کو اپنا باپ بتانے کے لئے حدیث صحیح میں فرمایا ہے کہ اس پر اللہ اور فرشتوں اورآدمیوں کی لعنت ہے اللہ نہ اس کا فرض قبول کرے نہ نفل۔ من انتمی الی غیر ابیہ فعلیہ لعنۃ اﷲ والملئکۃ والناس اجمعین لایقبل اﷲ منہ صرفا ولا عدلا ۱؎ اور جو مسلمانوں کو دھوکا دے اسے فرمایا ہمارے گروہ سے نہیں من غشنا فلیس منا ۲؎ ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت ناجائز اور اس کی امامت مکروہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الحج باب فضائل مدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۲) (۲؎صحیح مسلم کتاب الایمان باب من غشنا فلیس منا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷۰)
رسالہ اراءۃ الادب لفاضل النسب (۱۳۲۹ھ) (نسبی فضیلت والے کو ادب کی راہ دکھانا)
بسم اللہ الرحمن الرحیم مسئلہ ۶۶: افضل الفضلاء اکمل اکملا مولانا مفتی صاحب ! تسلیم۔ ایں کہ استفتائے ترسیل خدمت عالی مے شود از دستخط ومہر خویش واز دیگر علماء مزین نمودہ برمنت نہ نہند، چونکہ مسلمان ایں زمان سبب جہالت ازاکثر حرفہ وپیشہ انحراف مے دارند، وصاحب پیشہ راحقیر می شمارند و روز برروز بدائرہ ادبار پامی کشند بربنا، علیہ برائے اصلاح قوم مصلحۃ ایں استفتاء نوشتہ شد زیادہ والسلام
یہ استفتاء جو کہ خدمت عالی میں بھیجا جارہا ہے اپنے اوردوسرے علماء کے دستخط ومہر سے مزین کرکے مجھ پر احسان کریں،چونکہ اس زمانہ کے مسلمان جہالت کے سبب سے اکثر ہنر وپیشہ سے گریز کرتے ہیں، اور صاحب پیشہ کو حقیر جانتے ہیں اور روزانہ دائرہ پستی میں پاؤں رکھتے ہی، اسی بناء پر اصلاح قوم کےلئے مصلحتا یہ استفتا لکھا گیا۔ والسلام (محمد لطف الرحمن البردوانی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر جد اعلی کسی کا کاشت کاریا نورباف یا ماہی فروش ہو بعدہ اس کی نسل میں یہ پیشہ معمول رہا ہو یا متروک ہوگیا ہو تو اس صورت میں ان کی اولاد کو ماشا یا جولا ہا یا شکاری یا اطراف کہہ کر پکارنا جس سے ان کی دل شکنی ہوتی ہے درست ہے یانہیں؟ اور علاوہ صحابی النسل کے دوسری قوم کو شیخ کہنا رواہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان کرو تاکہ اجرپاؤ۔ ت)
الجواب : بداں کہ قولہ تعالٰی جعلنکم شعو باوقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم ۱؎ (۱) وقول النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من ابطأبہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ ۲؎
اللہ تعالٰی فرماتاہے: تمھیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گارہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کافرمان ہے جس نے شریعت کے مطابق عمل کرنا چھوڑ دیا اس کا نسب کام نہ دے گا،
(۱؎ القرآن الکریم ۴۹/ ۱۳) (۲؎سنن ابی داؤد کتاب العلم باب فی فضل العلم آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۱۵۷) (موارد الظمان کتاب العلم حدیث ۷۸ المطبعۃ السلفیہ ص۴۸)
وقول دیگر اعملی یافاطمۃ ولا تقولی انی بنت الرسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۳؎ باعلی صوت ندا کند کہ شرافت نسب کہ اکثر جہال بہ سبب جہالت وحماقت واز عدم واقفیت حالات بزرگان دین وسلف صالحین وصحابہ کاملین وانبیاء مرسلین، بداں مباہات میکند نزد حق سبحانہ وتعالٰی بہ چیزے نمی ارزد و بہ منزلہ ھباء منثورا باشد کما قال اﷲ تعالٰی والذین اوتواالعلم درجات ۴؎ وانما یخشی اﷲ من عبادہ العلماء ۱؎ (۲) وقال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انما العلماء ورثۃ الانبیاء ۲؎ وان فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ۳؎ (۳) بلکہ شرافت علم فوق شرافت نسب مے باشد کما فی الدرالمختار لان شرفۃ العلم فوق شرف النسب والمال، کما جزم بہ البزازی و ارتضاہ الکمال ۴؎ وغیرہ اگر کسے عالم صالح ماہر رابالفاظ مذکورۃ الصدر طعنا وتحقیرا مخاطب سازدبدائر کفر پانہادہ باشد
دوسرا قول ہے کہ شرعیت پر عمل کرواے فاطمہ! اور یہ نہ کہو کہ رسول اللہ کی بیٹی ہوں، بلند آواز سے اعلان کررہا ہے کہ شرافت نسب کہ اکثر جاہل لوگ جہالت وحماقت اور حالات بزرگان دین اور سلف صالحین اور صحابہ کاملین اور انبیاء مرسلین کے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے اس پر فخر کرتے ہیں اللہ تعالٰی کے نزدیک بے وقعت ہے مثل ہبا منثوراہے۔ البتہ مرد کی شرافت علم سے ہوتی ہے اور جنھیں علم دیا گیا وہ درجوں میں ہیں اللہ تعالٰی سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اورعالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمھارے ادنی پر۔ بلکہ علم کی شرافت نسب کی شرافت پر فوقیت رکھتی ہے جیسا کہ درمختارمیں ہے: اس لئے کہ علم کی شرافت نسب ومال کی شرافت سے اولٰی ہے۔ جیسا کہ اس پر بزازی نے جزم فرمایا ہے اگر کوئی شخص عالم صالح ماہر کو الفاظ مندرجہ بالا سے طعن وتحقیر کے طورپر مخاطب کرے تو دائرہ کفر میں پاؤں رکھے گا۔
حررہ العاجز الفاقر الجانی محمد لطف الرحمن البردوانی المخاطب شمس العلماء مدرس مدرسہ عالیہ کلکتہ (بنگال)
(۳؎ اتحاف السادۃ المتقین دارالفکر بیروت ۷/ ۷۷ و ۲۸۱) (صحیح مسلم کتاب الایمان ۱/ ۱۱۴ وکنز العمال حدیث ۴۳۷۵۳ ۱۶/ ۱۹) (۴؎ القرآن الکریم ۵۸/ ۱۱) (۱؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۲۷) (۲؎ سنن ابن ماجہ باب فضل العلماء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰) (۳؎ جامع الترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۳) (۴؎ الدرالمختار کتاب النکاح باب الکفائۃ مطبع مجتائی دہلی ۱/ ۱۹۵)