فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۶۱: از کچھا علاقہ خام ضلع نینی تال مسئولہ محمد الیاس صاحب ۲۷ جمادی الآخرہ ۱۳۳۸ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بکر نے اپنی عورت منکوحہ کو طلاق دے دی اور ایام عدت بھی گزر گئے اب بکر کا باپ سوتیلا اس عورت سے نکاح کرنا چاہتاہے اور وہ عورت بھی اپنے خسرو سوتیلے سے رضامند ہے۔ موافق شریعت کے ان کا نکاح درست ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : ہاں درست ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۶۲: ا ز ناتھ دوارہ ریاست اودے پور ملک میواڑ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ایک شخص علم وفقہ وحدیث کے جاننے والے اور وعظ وپند کرنیوالے انھوں نے بسبب ناراضگی کے اپنی زوجہ کو ایک جلسہ میں تین طلاق معہ گواہان کے روبرو اس کو گھر سے علیحدہ علیحدہ کردینا عورت مذکورہ دیگر جگہ سکونت اختیار کرکے ایک سال کامل مدت گزارنا بعد ایک سال کے پھر اسی عورت کو انھیں عالم بالامذکور نے رضیت حاصل کرکے پھر اپنے مکان میں لے آنا اورپھر اسے اولاد ہونا یہ امرشرع شریف میں جائز ہے یانہیں۔ اگر جائز ہے تو جو اولاد کہ پیدا ہوئی وہ ولد الزنا ہے یا حلال ہے؟ اگر ولد الزناہے تو ایسا شخص ایسے امر کرنے سے مرتکب گناہ کا ہوتاہے یانہیں؟ اورشرع شریف میں ایسے شخص کو کیا کہنا لازم اور کونسی سزا کا سزاوار ہے۔ مسلمان کو ایسے شخص کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرنا چاہئے۔ یا لازم آتا ہے؟ اس کا جواب باصواب مع حدیث وفقہ آیت کلام اللہ سے تحریر فرمادیں۔ اللہ تعالٰی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
الجواب : تین طلاق کے بعد بے حلالہ اسے پھر رکھنا حرام ہے اور اس سے وطی زنا او ر اولاد ولدالزنا، اور وہ مرد عورت دونوں فاسق ۔ اور ان کی سزا بہت سخت ہے جو یہاں بیان نہیں ہوسکتی اور اللہ عزوجل کا عذاب شدید ہے، ان مرد عورت پر فرض ہے کہ فورا جدا ہوجائیں ورنہ مسلمان ان سے میل جول چھوڑ دیں ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
نسب
مسئلہ ۶۳: مرسلہ عبدالعزیز تاجر چرم مقام قصبہ ٹنکاری محلہ شاہ گنج ضلع گیا بروز دو شنبہ ۱۶ ذوالقعدہ ۱۳۳۳ھ ایک شخص مجہول النسب کہ جس کے حسب ونسب سے وہاں کے باشندے پوری آگاہی رکھتے ہیں اور وہ شخص مولوی ہو اور غیر جگہ اپنے کو سید کہتاہو اورا پنے مکان پر خط اپنے قلم سے سید کرکے اپنا نام لکھتا ہو اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب : سائل نے اول تو مجہول النسب کہا۔ پھر یہ کہ اس کے نسب سے وہاں کے باشندے پوری آگاہی رکھتے ہیں یہ دونوں باتیں متناقض ہیں شاید یہ مطلب ہو کہ وہاں کے سب باشندوں پر اس کا نسب مخفی ہے لہذا سب اسے مجہول النسب سمجھتے ہیں اس تقدیر پر اس کا اپنے آپ کو سیدبنانا کہنا، لکھنا ہمارے علم میں جرم کی حد پر نہیں بلکہ وہ کہتا ہے اور ہمیں اس کا خلاف معلوم وثابت ومتحقق نہیں توہم اسے سچاہی خیال کریں گے کہ الناس علی انسابھم ( لوگ اپنے نسبوں پر قائم ہیں۔ ت) اور ارشاد ہوتاہے :
لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون و المؤمنٰت بانفسھم خیرا ۱؎۔
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے وہ افواہ سنی تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے بارے میں اچھا گمان کیا ہوتا۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۱۲)
ہاں جو واقع میں سید نہ ہو اور دیدہ ودانستہ بنتا ہو وہ ملعون ہے نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من ادعٰی الی غیر ابیہ او انتمی الی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اﷲ و الملئکۃ والناس اجمعین لایقبل اﷲ منہ صرفا ولاعدلا ۔ ۲؎
جو کوئی اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کا دعوٰی کرے یا کسی غیر والی کی طرف اپنے آپ کو پہنچائے تو اس پر اللہ تعالٰی ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اور اللہ تعالٰی اس کے فرائض اور نوافل قبول نہ فرمائے گا۔ (ت)
(۲صحیح مسلم کتاب الحج باب فضائل المدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۴۲) (المعجم الکبیر حدیث ۶۴ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷/ ۳۴)
مگر یہ اس کا معاملہ اللہ عزوجل کے یہاں ہے ہم بلادلیل تکذیب نہیں کرسکتے، البتہ ہمارے علم تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سید نہ تھا اور اب سید بن بیٹھا تو اسے ہم بھی فاسق ومرتکب کبیرہ و مستحق لعنت جانیں گے۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے اور اس کا علم کہ جس کی شان بڑی ہے زیادہ کامل اور بڑا پختہ ہے۔ ت)
مسئلہ ۶۴: بروزشنبہ تاریخ ۵ ذوالقعدہ ۱۳۲۳ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مولوی عنایت احمد صاحب نے اپنی کتاب جنان الفردوس کے چودہ صفحہ میں تحریر کیا ہے۔ بیان جھوٹی نسب کا ، ف: جھوٹ ظاہر کرنا نسب کا بھی بڑا گناہ ہے۔ مثلا شیخ سے سید بن جانا، صحیحین میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا دوسرے کو باپ کرے اس پر جنت حرام ہے ۳؎۔ اور چودہ صفحہ کے حاشیہ پر یہ تحریر ہے بیان جھوٹی نسب کا ۳۱ ح مشارق ۳۲ ح اعتصام ف۱ سوال۔ جولاہے کو شیخ نہ کہے تو جولا ہا کہنا چاہئے۔ اگر جولاہا نہ کہے تو کیا کہنا چاہئے؟ فقط۔
(۳؎ صحیح البخاری کتاب الفرائض باب من ادعی الی غیر ابیہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۰۰۱) (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۷)
الجواب : یہ حدیث بیشک صحیح ہے اور دوسری حدیث اس سے سخت ترہے کہ ''جو اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنا نسب منسوب کرے اس پر اللہ تعالٰی اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی لعنت ہے اللہ تعالی نہ اس کا فرض قبول کرے نہ نفل ۱؎'' یہ حکم شامل ہے ہر اس شخص کو کہ سید نہیں اور سید بن بیٹھے۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الحج باب فضائل مدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۴۲) (المعجم الکبیر حدیث ۶۴ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۱۷/ ۳۴)
شیخ قرشی یا انصاری نہیں اوراپنے آپ کو ایسا شیخ کہے مگر لفظ شیخ کا استعمال متعدد معنی پر ہے۔ پیراور بزرگ اور استاد اور چار شریف اقوام مشہورہ ہند سے ایک قوم اور سید مغل پٹھان کے سوا ہر مسلمان، اس پانچویں معنی پر جولاہے۔ دُھنیے ہر قوم کے مسلمان شیخ کہلاتے ہیں اس معنی پر وہ اپنے آپ کو شیخ کہے تو اس حکم کے نیچے داخل نہیں، ہاں اگر جولاہا اور اپنے آپ کو چوتھے معنی پر شیخ کہے کہ ان چار شریف قوموں میں سے میری قوم ہے تو وہ ضرور اس حدیث کے بیچ میں داخل ہوگا اگر واقع میں وہ ایسا نہیں اور اگر واقع میں وہ انھیں شریف اقوام میں سے ہے مثلا شیخ ، انصاری یا علوی یا عباسی یا عثمانی یا فاروقی یا صدیقی ہے اور کپڑا بننے کا پیشہ کرتا ہے تو وہ ضرور سچا ہے اور اس پر کچھ الزام نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔