Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
26 - 190
مسئلہ ۵۶: ایک شخص نے اپنی لڑکی اپنے بھانجے کو دی تھی محض منگنی ہوئی تھی۔ جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ اس کا بھانجا ایک غیرمقلدپیر کا راسخ الاعتقاد مرید ہے  اور خود بھی غیر مقلد ہے اب اس نے اپنی لڑکی دینے سے انکار کردیا اور کہتاہے کہ شرعا نکاح نہ ہوگا اس پر جماعت نے اسے اپنی جماعت سے خارج کردیا ہے کہ یا تو لڑکی اسے ہی دے یا تو جماعت سے خارج ہو، اس صورت میں جماعت کا کیاحکم ہے۔ اور نکاح شرعا جائز ہوگا یانہیں؟ بینوا تو جروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : غیر مقلد سے نکاح محض ناجائز ہے کما حققناہ فی ازالۃ العار (جیسا کہ ہم نے ازالۃ العار میں اس کی تحقیق کردی ہے۔ ت) اس صورت میں جماعت سخت ظالم اور زنا کی ساعی، اور خود دنیا میں جماعت سے خارج اور آخر ت میں نار میں داخل کرنے کی مستحق ہے۔ والعیا ذبا للہ تعالٰی واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۷: از یرتا پور ضلع بریلی مرسلہ مولوی امیر عالم حسن عرف نوشتہ میاں

زید نے نکاح اپنا کسی عورت سے کرلیا، بعد چند مدت کے پھر اس کی بہن حقیقی سے کرلیا، دونوں بہنیں اس کے نکاح میں حیات ہیں۔ اب نہیں معلوم کہ نکاح دونوں کا درست ہے یاحرام ؟ قاضی نے تطمع ولالچ نکاح پڑھا دیا۔ اور وہی نماز بھی پڑھاتاہے اور کہتاہے میں نے عالموں سے دریافت کرکے نکاح پڑھایا ہے ایسانکاح درست ہے۔ اب اس کا پورا ثبوت خادماں کو کیوں نہ دیا جائے کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا یا نکاح پڑھوانا درست ہے یانہیں؟ اورحاضران مجلس جو اس میں شریک تھے مع وکیل وشاہد وغیرہ ان کے ذمہ کیا الزام آسکتاہے؟
الجواب : یہ نکاح بنص صریح قرآن مجید حرام قطعی  حرام قطعی حرام قطعی ہے،
قال اﷲ تعالٰی ان تجمعوا بین الاختین ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: دو بہنوں کو (نکاح میں ) جمع نہ کرو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم                    ۴/ ۲۳)
اس نکاح کو درست کہنا صریح کلمہ کفر ہے۔ اس قاضی پر لازم ہے کہ نئے سرے سے کلمہ اسلام پڑھے اور اپنے اس قول نجس سے توبہ کرے اگر عورت رکھتا ہے تو بعد تجدید اسلام اس سے از سرنو نکاح کرے۔ اس لفظ کے بعد جتنی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی ہیں سب باطل ہوئیں جس جس نے جو جو نماز پڑھی اس کا پھیرنا اس پر لازم ہے۔ اور اب جب تک تجدید اسلام نہ کرے اس کے پیچھے نماز باطل محض ہے کہ پڑھنا حرام اور پڑھ لی ہو تو پھیرنا فرض، اور اس سے نکاح ہر گز نہ پڑھوایا جائے، 

تبیین امام زیلعی میں ہے:
لان فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا ۲؎۔
اس لئے کہ فاسق کو (نماز کے لئے ) آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ شرعا لوگوں پر اس کی توہین واجب ہے۔ (ت)
 (۲؎ تبیین الحقائق     باب الامامہ والحدث فی الصلوٰۃ     المطبعۃ الکبرٰی بولاق مصر    ۱/ ۱۳۴)
وکیل وشاہد حاضرین سے جسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کی بہن اس کے نکاح میں ہے اس پر الزام نہیں، اور جسے معلوم تھا حرام جان کر شریک ہو اوہ سخت گناہ کامرتکب اور شدید عذاب کا مستوجب ہوا اور جس نے اسے حلال ٹھہرایا اس کا حکم اس قاضی کے مثل ہے اس پر بھی تجدید اسلام لازم اور اس کے بعد خود اپنے نکاح کی تجدید کرے اس مرد پر فرض ہے کہ فورا اس دوسری بہن کو جدا کردے اوراگر اس سے قربت کرچکا تو اب وہ پہلی بھی اس پر حرام ہوگئی جب تک اس دوسری کو چھوڑ کر اس کی عدت نہ گزرجائے پہلی کو بھی ہاتھ لگانا حرام ہے جب اس کی عدت گزر جائے گی اس وقت وہ پہلی اس کے لئے حلال ہوگی۔
بحرالرائق۔ وحلبی علی الدرالمختار میں ہے: الثانی باطل ولہ وطی الاولٰی الا ان یطأ  الثانیۃ فتحرم الاولی الی انقضاء عدۃ الثانیۃ ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (الگ الگ عقد نکاح سے دوبہنوں کو جمع کرنا) اگر پہلی سے نکاح کرنا یاد ہو تو دوسری سے نکاح باطل ہے۔ لہذا پہلی سے مرد  ہمبستری کرسکتا ہے لیکن اگر مرد نے دوسری سے ہمبستری کرلی تو پھر دوسری کی عدت گزرنے تک اس پر پہلی حرام ہوجائے گی۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب النکاح فصل فی المحرمات     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۲۸۶)
مسئلہ ۵۸: از قصبہ بالکہ ضلع بلند شہر مرسلہ صالح محمد خاں صاحب مورخہ ۲۸ ذی القعدہ ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر قاضی شہر کے علاوہ دوسراکوئی شخص مطابق شرع شریف نکاح پڑھادے لیکن اندراج اس کا رجسٹر قاضی شہر مذکور میں نہ ہو تو وہ نکاح جائز وصحیح ہے یانہیں؟ جواب مرحمت ہو۔ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : قاضی کا رجسٹر شرعا کوئی شرط نکاح نہیں رجسٹر آج سے نکلے ہیں۔ پہلے نکاح کیونکر ہوتے تھے۔ ہاں یادداشت کے لئے درج ہونابہتر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۹: مولوی نذیر احمد صاحب ساکن سموہان پرگنہ نواب گنج بریلی مورخہ ۲۷ محرم الحرام ۱۳۳۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ماہ محرم اورخصوصا ۹ تاریخ ماہ مذکورہ کی شب میں نکاح کرنا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب :جائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۶۰: مولوی نذیر احمد ساکن سموہان پرگنہ نواب گنج ضلع بریلی ۲۷ محرم الحرام ۱۳۳۶ھ

کیا فرماتے علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں کہ عورتوں کے محارم کون کون ہیں اور رضاعی محارم کون کون اور محارم صہری کون کون ہیں؟ اور ہنسی اور مذاق بھی عورتوں کو کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کس کس سے؟ بینوا توجروا
الجواب : فروع یعنی اپنی اولاد واولاد اولاد اور اصول جس کی اولاد میں خود ہے اگر چہ وہ کتنے ہی دور ہوں اور اپنے ماں باپ کی اولاد کتنے ہی دور فاصلہ پر ہوں اور اپنے داد ، نانا، پرنانا، دادی، پر دادی، نانی ، پرنانی، کی خاص صلبی یا بطنی اولاد یہ سب محارم ہیں اوریہی رشتے دودھ سے بھی مرضعہ ماں ہے اور اس کا شوہر جس کے نطفہ سے دودھ تھا باپ ہے اور جسے دودھ پلا یا وہ اولاد ہے تو اپنی یہ اولاد اور اس کی نسبی ورضاعی کتنی ہی دور اور اپنے ان ماں باپ کے اصول نسبی اورضاعی کی بلا واسطہ اولاد نسبی ، ورضاعی یہ سب رضاعی محرم ہیں۔ اور صہری محرم شوہر کے اصول وفروع نسبی اوررضاعی اور اپنے اصول مثلا ماں ، دادی، نانی، پر دادی، پر نانی کے شوہر اور اپنی فروع مثلا بیٹی، پوتی، نواسی، پرپوتی، پر نواسی کے شوہر، جائز ہنسی مذاق جس میں نہ فحش ہو، نہ ایذا ئے مسلم ، نہ بڑوں کی بے ادبی، نہ چھوٹوں سے بدلحاظی، نہ وقت ومحل کے نظر سے بے موقع نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جائز ہے اور شوہر کے ساتھ موجوب اجر اور یہاں کثرت میں بھی حرج نہیں اگر اس کے خلاف مرضی نہ ہو، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter