فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
اذا کانت الزوجۃ مشتھاۃ فاخبرہ رجل ان اباالزوج اوابنہ قبلھا بشھوۃ ووقع فی قلبہ انہ صادق لہ ان یتزوج باختھا اواربع سواھا بخلاف مالواخبرہ بسبق الرضاع والمصاھرۃ علی النکاح لان الزوج ثمہ ینازعہ وفی العارض لاینازعہ لعدم العلم فان وقع عندہ صدقہ وجب قبولہ ھکذا فی الوجیز الکردری امرأۃ غاب زوجھا فاتاھا مسلم غیر ثقۃ بکتاب الطلاق من زوجھا ولا تدری انہ کتابہ ام لا الا ان اکبر رأیھا انہ حق فلا باس ان تعتد ثم تتزوج کذا فی محیط السرخسی اذا غاب الرجل عن امرأتہ فاتاھا مسلم عدل فاخبرھا ان زوجھا طلقھا ثلثا اومات عنھا فلھا ان تعتدو تتزوج بزوج اٰخر وان کان المخبر فاسقاتتحری ثم اذا اخبر ھا عدل مسلم انہ مات زوجھا انما تعتمد علی خبرہ اذا قال عاینتہ میتا او قال شہدت جنازتہ اما اذا قال اخبر نی مخبر لاتعتمد علی خبرہ کذا فی المحیط، واذا شھد عد لان للمرأۃ ان زوجھا طلقھا ثلثا وھو یجحد ثم غابا اوماتا قبل الشھادۃ عند القاضی لم یسع المرأۃ ان تقیم معہ وان تدعہ ان یقربھا و لایسعھا ان تتزوج کذا فی المحیط السرخسی ۔
جب زوجہ مشتہاۃ (قابل شہوت) ہو اور اس کے شوہر کو کوئی یہ اطلاع بہم پہنچائے کہ اس کے باپ یا بیٹے نے شہوت سے اس کا بوسہ لیا ہے اور شوہر کے دل میں یہ خیال پیداہو کہ خبر دینے والا سچاآدمی ہے تو اس صورت میں وہ اس عورت کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے اور وہ بیک وقت اس کے علاوہ چار عورتوں کو عقد میں رکھ سکتا ہے (کیونکہ اس کی بیوی کا عقد باقی نہیں رہا) بخلاف اس صورت کے کہ اگر کوئی اسے یہ بتائے کہ نکاح سے پہلے ہی رضاعت (شیرنوشی) یامصاہرت (حرمت دامادی) موجود تھی اس لئے کہ اس جگہ زوج ( شوہر) کو اس معاملہ مں صورت نزاع ہے اور پیدا ہونے والی صورت میں شکل نزاع نہیں پائی جاتی اس لئے کہ اس کا علم ہی نہیں پھر اگر اس کے نزدیک (اس صورت میں) وقوع صدق ہے تو اس کی بات کو قبول کرنا واجب ہے۔ امام کردری کی ''وجیز'' میں یونہی مذکور ہے۔ ایک عورت کا شوہر مفقود ہوگیا پھر ایک غیر معتبر مسلمان نے اسے شوہر کی طرف سے طلاق نامہ لاکر دیا لیکن اسے علم نہیں کہ طلاق نامہ اس کے شوہر کا اپنا تحریر کردہ ہے یا کسی اور کا مگر اس کا غالب خیال یہ ہے کہ حقیقت پر مبنی ہے اس صورت میں کوئی حرج نہیں کہ عورت عدت گزار کر نکاح ثانی کرلے، امام سرخسی کی محیط میں اسی طرح مذکور ہے جب شوہر اپنی بیوی سے غائب ہوجائے اور کوئی عادل مسلمان اس عورت کو یہ اطلاع پہنچائے کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دے ڈالی ہیں یا وہ وفات پاگیا ہے تو اس عورت کے لئے جائز ہے کہ عدت گزار کرکسی سے نکاح ثانی کرلے اور اگر خبر دینے والا فاسق اور غیر معتبرآدمی ہو تو غور و خوض کرے۔ اور انتظار کرے پھرجب اسے کسی عادل اور معتبر مسلمان کی طرف سے خاوند کے وفات پاجانے کی اطلاع میسر ہو جائے تو اس کی خبر پر اعتماد کیا جائے مگروہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ یوں اطلاع دے کہ میں نے خود اس کے شوہر کو مرا ہوا دیکھا ہے یا اس کی نماز جنازہ میں شرکت کی ہے لیکن اگر وہ اس طرح اطلاع نہیں دیتا بلکہ یوں کہتاہے کہ مجھے بتانے والے نے بتایا تو اس صورت میں اس کی خبر ناقابل اعتماد خیال کی جائے گی۔ محیط میں یوں ہی مذکور ہے۔ اور اگر دو عادل شخص عورت کے روبرو یہ گواہی دیں کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاق دے دی ہیں لیکن شوہر انکاری ہو اور قاضی کے روبرو گواہ شہادت دینے سے پہلے ہی غائب ہوجائیں یا وفات پاجائیں تو عورت کے لئے اس مرد کے ہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلے تاکہ مرد اس سے قربت نہ کرنے پائے۔ لیکن اس عورت کے لئے یہ گنجائش نہیں کہ وہ کہیں اور نکاح کرلے محیط میں امام سرخسی سے اسی طرح مذکور ہے۔
واذا شھد شاھد ان عند المرأۃ بالطلاق فان کان الزوج غائبا وسعھا ان تعتدوتتزوج بزوج اٰخر وان کان حاضرا لیس لھا ذٰلک ولکن لیس لھا ان تمکن من زوجھا کذا فی المحیط ولو ان امرأۃ قالت لرجل ان زوجی طلقنی ثلثا انقضت عدتی فان کانت عدلۃ وسعہ ان یتزوجھا وان کانت فاسقۃ تحری وعمل بما وقع تحریہ علیہ کذا فی الذخیرۃ المرأۃ الحرۃ اذا تزوجت رجلا ثم قالت لرجل ان نکاحی کان فاسدا لما ان زوجھا علی غیرالاسلام لایسع لھذا ان یقبل قولھا ولا ان یتزوجھا لانھا اخبرت بامر مستنکر وان قالت طلقنی بعد النکاح علی او ارتد عن الاسلام وسعہ ان یعتمد علی خبرھا ویتزوجھا لانھا اخبرت بخبر محتمل واذا اخبرت ببطلان النکاح الاول لایقبل قولھا وان اخبرت بالحرمۃ بامرعارض بعد النکاح من رضاع طاری او غیر ذٰلک فان کانت ثقۃ عندہ اولم تکن ثقۃ ووقع فی قلبہ انھا صادقۃ فلا باس بان یتزوجھا کذا فی فتاوٰی قاضی خان اھ مختصرا ۱؎۔
جب دو گواہ عورت کے روبرو طلاق کی گواہی دیں اگر مرد غیر حاضر ہوتو عورت کے لئے گنجائش ہے کہ عدت سے گزرے اور کسی اور مرد سے نکاح کرلے لیکن اگر شوہر موجود ہو تو پھر اسے یہ اجازت نہیں لیکن عورت کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ پانے دے۔ محیط میں یونہی مذکور ہے اگر کسی عورت نے کسی مرد سے کہا کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور میری عدت بھی گزر گئی ہے تو وہ مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے بشرطیکہ عورت عادلہ ہو ، اورا گر عورت فاسقہ ہو یا ناقابل اعتبار ہو تو شخص مذکور غور وفکر سے کام لے اور بعد از غور وفکر اس کے دل میں جو بات آئے (عقد کرلینے یانہ کرنے کی) تو اس پر عمل کرے۔ ذخیرہ میں اسی طرح مذکور ہے جب کوئی آزاد عورت کسی مرد سے شادی کرے اور پھر کسی اور آدمی سے کہے کہ میرا نکاح فاسد تھا یا یہ کہ میرا شوہر مسلمان نہیں تو اس شخص کے لئے گنجائش نہیں کہ عورت مذکور کی بات قبول کرے (مانے) اور نہ یہ گنجائش ہے کہ اس سے نکاح کرلے۔ کیونکہ اس عورت نے ایک منکر بات کی خبر دی ہے اور اگر کہے شوہر نے نکاح کرنے کے بعد طلاق دے دی تھی یا وہ دین اسلام سے پھر گیا تھا (یعنی مرتد ہوگیا ) تو اس صورت میں اس کی خبر پر اعتماد کرنے کی گنجائش ہے اوروہ اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں عورت نے ایک محتمل خبر دی (جس میں دونوں پہلوں کی گنجائش ہے) لیکن جب وہ پہلے نکاح کے بطلان کی خبر دے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا لیکن اگر نکاح ہونے کے بعد کسی عارضی حرمت (نوپیدا شدہ حرمت) کی خبر دے جیسے طاری رضاعت یااس طرح کے کسی دوسرے امر کی تو اگر اس کے خیال میں قابل اعتماد ہو یا نہ ہو مگر مر دکے دل میں یہ بات آجائے کہ وہ عورت سچی ہے تو پھر ایسی صورت میں اس سے نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں یونہی فتاوٰی قاضی خاں میں مذکور ہے۔ اھ مختصرا (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃالباب الاول الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۳۔ ۳۱۲)
تبیین الحقائق میں اکثر صورمذکورہ اور فساد طاری ومقارن کا تفرقہ مسطورہ بیان کر کے فرمایا:
وعلی ھذا الاصل یدور الفرق ۱؎۔
اور اسی اصل پر فرق گھومتا ہے (یعنی اس کا دارومدار ہے)۔ (ت)
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الکراہیۃ فصل فی البیع المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ مصر ۶/ ۲۷)
تنویر الابصار میں ہے:
المعتبر اکبر رأی المبتلی بہ ۲؎۔
جو کوئی جس حادثہ میں مبتلا ہے اس کی اپنی غالب رائے معتبر سمجھی جاتی ہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الطہارۃ باب المیاہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۶)
فتح القدیر وبحرالرائق وردالمحتارمیں ہے:
وھو لایلزم غیرہ بل یختلف باختلاف مایقع فی قلب کل ۳؎۔
اور وہ دوسرے پر لازم نہیں بلکہ ہر شخص کے دل میں جو کچھ واقع ہوتا ہے (طبیعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے اس میں اختلاف ہوا کرتاہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ باب المیاہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۲۸)
ان عبارات سے کل مقاصد واصول کہ فقیر نے ذکر کئے واضح ہوگئے، پس صورت مستفسرہ میں اگر ہندہ ان لوگوں کا بیان سچا جانتی ہے اس کا قلب ان کے صدق پر جمتا ہے تو اسے نکاح ثانی روا ہے ناکح دوم سے اگر ہندہ نے کہا کہ اس کا شوہر مرتد ہوگیا یا ان لوگوں نے بیان کیا اور ہندہ منکر نہیں اور اس کے قلب میں ہندہ یا ان مخبروں کا صدق واقع ہو تو اسے بھی ہندہ سے نکاح روا۔ اور اگر ہندہ نے کہا میں نے سنا کہ وہ مرتد ہوگیا تو صرف اس قدر پر اسے روا نہیں کہ ہندہ سے نکاح پر اقدام کرے۔ یوہیں اگر ہندہ یا ان مخبروں نے اسے ارتداد زید کی خبر دی اور اس کا دل ان کے صدق پر نہیں جمتا تو اسے ہندہ سے نکاح روا نہیں اگر چہ ہندہ کے نزدیک وہ لوگ صادق ہوں واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۵: ازموضع سرنیا مسئولہ امیر علی صاحب ۱۱ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نکاح حرام سے پیدا ہوا تھا باپ زید کا فوت ہوگیا اور والدہ زندہ موجود ہے اب اس لڑکے کی شادی ہے تو اب شادی میں اہل برادری کا شامل ہونا اور سائل کا شامل ہوناا ور بکر کا لڑکی نکاح میں دینا زید کو امامت کرنا اور پیشتر جو شخص زید کے باپ کے نکاح میں شریک ہوئے تھے ان سب کے لئے کیا حکم ہے؟
الجواب : اس کی شادی میں شامل ہونا کچھ جرم نہیں۔ باپ اگر مصلحت جانے اپنی لڑکی کا نکاح بھی اس سے کرسکتا ہے زید کی امامت بلاکراہت جائز ہے جبکہ سب موجودین جماعت میں اسی کو نماز وطہارت کے مسائل کا علم ہو ورنہ دوسرے کی امامت اولٰی ہے زید کے باپ کے اس حرام نکاح کرانے میں جو دانستہ شریک ہوئے تھے سخت گنہگارہیں ورنہ اگر اس کا فسق علانیہ تھا جب بھی اسے بچنا اولٰی تھا واللہ تعالٰی اعلم۔