Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
24 - 190
مسئلہ ۵۰: از بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسئولہ مولوی رحیم بخش صاحب بنگال ۱۶ صفر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعد نماز کے اکثر آدمی ایک جگہ بیٹھ کر ذکر جلی کرتے ہیں اور سب پر حالت وجد طاری ہوگئی اپنے جسم تک کا خیال باقی نہیں رہا۔ ایک دوسرے پر گر پڑتے ہیں کیا اس طرح کرنا شرعا جائز ہے یانہیں ؟ اگر ذکر جائز ہو تو کس طرح جائز ہو؟ بینوا توجروا (بیان کرو اور اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : اگر بناوٹ ہے حرام اور سخت حرام ہے۔ اور واقعی بے اختیار ی ہے تو مواخذہ نہیں۔ ذکر اس طرح ہو کہ نہ ریا ہو نہ کسی کو ایذا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۱: از اجمیر شریف ڈاکخانہ گریج علاقہ نمبر ۳۰ مرسلہ کمال محمد ۱۴ جمادی الآخرہ ۱۳۳۸ھ

بددعا کرنا گناہگاروں کے واسطے جائز ہے یا حرام؟
الجواب : سنی مسلمان اگر کسی پر ظالم نہیں تو اس کے لئے بددعا نہ چاہئے بلکہ دعائے ہدایت کی جائے کہ جو گناہ کرتاہے چھوڑ دے۔ اور اگر ظالم ہے اور مسلمانوں کو اس سے ایذا ہے تو اس پربد دعا میں حرج نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ذکر جلی کرنا جائز ہے یانہیں اور آواز کس قدر بلند کرسکتاہے کوئی حد معین ہے یانہیں؟ حلقہ باندھ کر ذکر کرتے وقت ذکر کرتے کرتے کھڑے ہوجانا اور سینہ پر ہاتھ مارنا ایک دوسرے پر گر پڑنا، لپٹ جانا، رونا،زاری کی دھوم مچانا کیسا ہے؟
الجواب : ذکر جلی جائز ہے۔ حدمعین یہ ہے کہ اتنی آواز نہ ہو جس سے اپنے آقا کو ایذا ہو یا کسی نمازی یا مریض یا سوتے کو تکلیف پہنچے اور ذکر کرتے کرتے کھڑے ہو جانا وغیرہا افعال مذکورہ اگر بحالت وجد صحیح ہیں تو کوئی حرج نہیں اور معاذاللہ ریا کے لئے بناوٹ ہیں تو حرام وما بینھما وسط لا یذکر للعوام (اور ان دونوں کے درمیان کچھ درمیانی درجات ہیں جو عوام کے لئے ذکر نہیں کئے جاسکتے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
نکاح وطلاق ، محرمات، مہر، عدت، کفو، ولایت
مسئلہ ۵۳: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت کا خاوند مرگیا اور اس عورت نے دوسرا خاوند کرلیا ہو تو وہ عورت جنت میں کون سے خاوند کے پاس ہوگی؟ بینوا توجروا (بیان فرمائے اجر پائے۔ ت)
الجواب : عورت اپنے آخر ازواج کے لئے ہے۔
مسئلہ ۵۴: از شاہجہانپور مرسلہ مولوی  ریاست علی خاں صاحب ۲۲ ربیع الآخر     ۱۳۲۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا شوہر زید دس بارہ سال سے برہما کو چلا گیا، زوجہ کی کچھ خبر گیری نہیں کرتا نہ نان نفقہ دیتا ہے نہ کبھی آتاہے۔ چند آدمی مسلم غیر ثقہ اس کے پاس سے ہو کر آئے تو وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ زید مرتدہوگیا یعنی دین اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کیا۔ تو اس صورت میں کیا ایک یا دو آدمی غیر ثقہ مسلم کی خبر سے عورت مذکورہ اپنا نکاح کسی دوسرے شخص سے کرسکتی ہے یانہیں اور دوسرے شخص کو بنا بر  قول ہندہ کے کہ میں نے فلاں شخص سے سنا ہے کہ میرا شوہر مرتد ہوگیا ہے یا بنا بر قول اس شخص کے جو زید کے پاس ہو کر آیا اور کہتاہے کہ زید نصرانی ہوگیا ہےنکاح ہندہ مذکورہ سے بلا ظن غالب یابہ ظن غالب کرسکتا ہے یانہیں؟ اور اگر ظن غالب کی خبر مذکور میں ضرورت ہے تو صرف ظن غالب ہندہ مذکورہ کا خبر مذکورہ میں اس شخص کے لئے جو نکاح ہندہ سے کرتا ہے کافی ہوگا یا اس شخص کو بھی غلبہ ظن کی اس خبر ارتداد میں ضرورت  پڑے گی؟ بینوا توجروا (بیان فرمائے اجر پائے۔ ت)
الجواب : اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ نکاح پر فساد طاری کی خبر جبکہ اس کا کوئی معارض ومنکر ظاہر نہ ہو تو دو شرطوں میں ایک کے ساتھ مقبول ہے یا تو مخبر ثقہ عادل ہو یا صاحب معاملہ جسے خبر دی گئی تحری کرے اور اس کے قلب میں اس کا صدق واقع ہو اوراگر نہ مخبر ثقہ نہ اس کےدل میں اس کا صدق آتاہے تو ایسی خبر پر عمل ناروا ہے۔ اور اس احدالشرطین کی ضرورت جس طرح عورت کو ہے جو اس خبر کی بنا پر اپنا نکاح ثانی کیا چاہتی ہے یوہیں دوسرے ناکح کو بھی اور اس کے سامنے بھی نفس واقع سے اخبار چاہئے خواہ وہ مخبر بیان کریں خواہ عورت تاکہ مخبر عن الواقع یا تحری قلب کو مساع ہو مجرداخبار عن الاخبار کوئی شے نہیں۔ اور تحری قلب باب احتیاط سے ہے ایک کاظن دوسرے کے حق میں کافی نہیں خود اپنے دل کی شہادت چاہئے۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
لو ان رجلا تزوج امرأۃ فلم یدخل بھا حتی غاب عنھا واخبر مخبر انھا قد ارتدت فان کان المخبر عندہ ثقۃ وھو حر اومملوک اومحدود فی قذف وسعہ ان یصدق المخبرو یتزوج اربعا سواھا وان لم یکن المخبر ثقۃ وفی اکبر رأیہ انہ صادق فکذٰلک وان کان فی اکبر رأیہ انہ کاذب لم یتزوج اکثر من ثلاث ولو ان مخبرااخبرالمرأۃ ان زوجھا قد ارتد ذکر فی الاستحسان من الاصل ان لھا ان تتزوج بزوج اٰخری وسوی بین الرجل والمرأۃ وذکر فی السیر لیس لہا ان تتزوج بزوج اخر حتی یشھد عندھا رجلان اورجل وامرأتان وذکر شمس الائمۃ السرخسی رحمہ اﷲ تعالٰی الصحیح ان لھا ان تتزوج لان المقصود من ھذا الخبر وقوع الفرقۃ بین الزوجین وفی ھذا لا فرق بین ردۃ المرأۃ والزوج وکذا لو کانت المرأۃ صغیرۃ فاخبرہ انسان انھا ارتضعت من امہ واختہ صح ھذا الخبر ولوا خبرہ انسان انہ تزوجھا وھی مرتدۃ یوم تزوجھا اوکانت اختہ من الرضاعۃ والمخبر ثقۃ لاینبغی لہ ان یتزوج اربعا سواھا مالم یشھد بذٰلک عندہ شاھدا عدل لانہ اخبر بفساد عقد کان محکوما بصحتہ ظاھرا فلا یبطل ذٰلک بخبر الواحد بخلاف الاول فان شھد عندہ شاھداعدل بذٰلک وسعہ ان یتزوج اربعا سواھا ولو اتاھا رجل فاخبر ھا ان اصل نکاحھا کان فاسدا اوان زوجھا کان اخالھا من الرضاعۃ او کان مرتدالم یسعھا ان تتزوج بقولہ وان کان ثقۃ کذا فی فتاوٰی قاضی خاں،
اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور ہمبستری کئے بغیر کہیں چلا جائے اور اسے یہ اطلاع ملے کہ اس کی بیوی مرتد ہوگئی ہے اور اطلاع دینے والا اس کےخیال میں ثقہ یعنی معتبر ہو خواہ آزاد ہو یا غلام تو وہ شخص بیک وقت چا ر عورتوں سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے کیونکہ وہ عورت بوجہ مرتدہ ہونے کے اس کی بیوی ہی متصور نہیں ہوگی ہاں اگر اطلاع ارتداد دینے والا قابل اعتماد آدمی نہ ہو لیکن اگر مخبر معتبر آدمی نہ ہومگر اس کی غالب رائے میں وہ سچا ہو تو پھر بھی وہی حکم لاگو ہوگا اوراگر وہ اس کی غالب رائے میں جھوٹا ہو تو اس صورت میں یہ شخص تین عورتوں سے زائد کے ساتھ بیک وقت نکاح نہیں کرسکتا اسی طرح اگر بتانے والے نے کسی عورت کو یہ اطلاع دی کہ اس کا شوہر مرتد ہوگیا ہے (یعنی دین اسلام سے پھر گیا ہے) تو اصل کی بحث استحسان میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے، ایسی صورت حال میں مرد اورعورت کے درمیان مساوات رکھی گئی ہے اور ''سیر'' میں مذکور ہے کہ وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کے پاس دو مرد یا ایک مرد اوردو عورتیں بطور گواہ برائے توثیق موجود نہ ہوں، شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صحیح یہ ہے کہ عورت مذکورہ اگر دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے کیونکہ اس خبر سے مقصود میاں اور بیوی دونوں میں وقوع فرقت (جدائی) ہے اوراس صورت میں مرد عورت دونوں میں سے کسی ایک کے مرتد ہونے میں کوئی فرق نہیں ۔یونہی اگر عورت چھوٹی ہو اور خاوند کو کوئی آدمی یہ بتائے کہ اس بیوی نے تیری والدہ یا بہن کا دودھ پی رکھا ہے تو اس خبر کو صحیح اوردرست تسلیم کیا جائے گا اور اگر مردکو کسی نے یہ اطلاع دی کہ جس عورت سے اس نے نکاح کیا ہے بوقت نکاح وہ عورت مرتدہ تھی یا وہ اس کی رضاعی بہن ہے اور اطلاع دینے والا قابل اعتبار آدمی ہو تو ایسی صورت میں مرد کے لئے دو عادل مرد گواہوں سے تصدیق حاصل کرنا ضروری ہے اس لئے کہ ایک آدمی نے فساد عقد کی اطلاع دی جو بظاہر محکوم بصحت ہے (یعنی صحت عقد ظاہر ہے) لہذا یہ محض ایک شخص کے کہنے سے باطل نہیں ہوگا بخلاف پہلی صورت کے لہذا اگر اس کے پاس دو عادل آدمی گواہی دیں تو پھر اس کے لئے گنجائش ہے کہ عورت مذکورہ کے علاوہ بیک وقت چار عورتیں عقد میں رکھے اگر عورت کوکوئی شخص یہ آکر بتائے کہ اس کا اصل نکاح فاسد تھا یا اس کا شوہر دراصل اس کا رضاعی بھائی ہے یا وہ مرتد ہے توعورت کو محض اس شخص کے کہنے سے دوسری شادی کرلینے کی اجازت نہیں خواہ اطلاع دینے والا ثقہ (معتبر) ہی کیوں نہ ہو فتاوٰی قاضی خاں میں اسی طرح مذکور ہے۔
Flag Counter