مسئلہ ۴۷: مسئولہ محمد رئیس الدین صاحب از رہتک ۲۲ صفر ۱۳۳۲ھ
ضلع رہتک کے ایک گاؤں میں جس کانام پونہی ہے ایک مسجد میں سب لوگ بعد نماز کلمہ شریف بآواز بلند چار پانچ مرتبہ پڑھتے ہیں یہ درست ہے یاکیا اس کا حکم ہے اور جو شخص یا امام منع کرے اس کا کیاحکم ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : ذکر الٰہی افضل الاعمال بلکہ اصل جملہ اعمال حسنہ صالحہ ہے یہاں تک کہ بعد ایمان اعظم ارکان اسلام نماز سے بھی وہی مقصود ہے،
قال اﷲ تعالٰی اقم الصلوٰۃ لذکری ۱؎۔
میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۱۴)
اور کلمہ طیبہ کہ اصل الاصول اور افضل الاذکار ہے۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم افضل الذکر لا الہ الا اﷲ ۲؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا سب سے اچھا ذکر لا لہ الا اﷲ ہے۔ (ت)
(۲؎ سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب الحامدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۷۸)
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ذکر کا مطلق حکم فرمایا اور تعمیم احوال فرمائی:
یذکرون اﷲ قیام وقعودا وعلی جنوبھم ۳؎۔
(اللہ تعالٰی کے مقبول بندے ) وہ ہیں جو اللہ تعالٰی کو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے ہیں یعنی ہر حال میں خدا کاذکر کرتے ہیں۔ (ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۳/ ۱۹۱)
بلکہ اس کی تکثیر کاحکم فرمایا:
قال اﷲ تعالٰی واذکرواﷲ کثیرا لعلکم تفلحون ۱؎۔
(اللہ تعالٰی نے فرمایا) اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶۲/ ۱۰)
وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اکثرواذکر اﷲ حتی یقولوا انہ مجنون ۲؎۔
(رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا) اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ کہنے لگیں یہ تو دیوانہ ہے۔
(۲؎ المستدرک للحاکم کتاب الدعاء باب اکثر واذکر اللہ الخ دارالفکر بیروت ۱/ ۴۹۹)
جس چیز کی تکثیر شارع کو مطلوب ہو اس کی تقلیل نہ چاہے گا مگر وہ جسے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ضد ہے۔ رہا خوف ریا وہ متعلق بہ قلب ہے ریا سے اگر نماز ہو تو وہ بھی ناجائز ہے۔ مگر عقل ودین والا ریا سے منع کرے گا نماز سے نہ روکے گا، حضرت سیدی شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہروردی قدس اللہ سرہ کے حضور کسی طالب خدا نے عرضی لکھی کہ:
یاسیدی ان عملت داخلنی الریا وان ترکت اخلات الٰی ارض البطالۃ۔
اے میرے سردار! میں عمل کرتاہوں جب تو ریا آجاتاہے اور چھوڑ دیتاہوں تو بیکاری کی زمین پر گرا پڑتا ہوں۔
جواب ارشادفرمایا:
اعمل وتب الی اﷲ ۳؎۔
کام کئے جاؤ اور ریا سے اللہ کی طرف تو بہ کرو۔
(۳؎)
ہاں دوسرے مسلمانوں کی ایذا نہ ہونے کا لحاظ لازم ہے سو توں کی نیند میں خلل نہ ہو، نمازیوں کی نماز میں تشویش نہ ہو، کما نص علیہ فی البحرالرائق وردالمحتار وغیرھا (جیسا کہ بحرالرائق اور ردالمحتار میں اس پر نص ہے۔ ت) جب وقت لوگوں کی نیند کاہو یا کچھ نماز پڑھ رہے ہوں تو ذکر کرو جس طرح مگر نہ اتنی آواز سے کہ ان کو ایذا ہو اور جب اس سے خالی ہو تو مختار مطلق ہو کرو اور اتنی کثرت سے کرو کہ منافق مجنون کہیں اوروہابی بدعت، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۸: مسئولہ عبدالحمید ساکن لوشدی تدی پاڑہ ضلع پترہ ڈاکخانہ سیف اللہ کندی بروز دو شنبہ تاریخ ۱۹ رجب ۱۳۳۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی سوالات مرقومہ ذیل اول جہر مفرط کے ساتھ ذکر کرنا شرعا جائز ہے یانہیں؟ اور جہر مفرط کا حد کیا ہے؟ اور اگر چند لوگ جمع ہو کر ایسے زور سے ذکر کریں کہ نماز وتلاوت ونیند وغیرہ میں خلل واقع ہو جائے تو اس طرح کاذکر کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟ اور اس دیار میں بعض لوگ اس طرح ذکر کیا کرتے ہیں کہ ان کے ذکرمیں اکثر لا الہ الا اُل ھملق کا تلفظ سنا جاتاہے یہ بحسب شرع روا ہے یانہیں اور اجتماع ہو کر ذکر کرنا کیساہے؟
الجواب : اجتماع ہوکر ذکر حسن ہے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ رب عزوجل فرماتاہے:
وان ذکرنی فی ملا ذکرتہ فی ملأ خیر منہ ۱؎۔
اگر کسی شخص نے مجھے کسی مجلس میں یاد کیا (یعنی میرا ذکر کیا) تو میں اس سے بہتر اور اعلٰی مجلس میں اس کا ذکر کرتاہوں (ت)
(۱؎صحیح البخاری کتاب الردعلی الجہمیۃ باب قول اللہ تعالٰی ویحذرکم اﷲ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۰۱)
(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب الحث علی ذکر اللہ تعالٰی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۴۱)
ذکر بجہر صحیح یہ ہے کہ جائز ہے۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(لوگو!) جب تم جنت کے باغیچوں سے گزرنے لگو تو اچھی طرح کھاپی لیا کرو۔ لوگوں نے عرض کی (اے اللہ تعالٰی کے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام!) جنت کے باغیچے کیا ہیں؟ ارشادفرمایا: ذکر کے حلقے۔ (ت)
(۲؎ جامع الترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح الخ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۸۹)
مگر ایسا ہو جس سے کسی کی نماز یا تلاوت یا نیند میں خلل آئے یا مریض کو ایذا پہنچے ناجائز ہے اور یہ بھی ممنوع ہے کہ طاقت سے زیادہ جہر کرے جس سے اپنے دل ودماغ کو صدمہ پہنچے اسی کا نام جہر مفرط ہے اور وہ الفاظ بے معنی کہ سائل نے لکھے اگر وہ کہتے ہی یہ ہیں تو جہل ہے اوراگر کہتے صحیح الفاظ ہیں اور جہر کے غل سے سننے میں ایسا آتا ہے تو الزام نہیں۔ فقط۔
مسئلہ ۴۹: از شہر محلہ گندہ نالہ مکان مرزاغلام حیدر بیگ صاحب مرحوم مرسلہ احمد بخش ۲۱ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ
نعت شریف اور حمد جس کی بابت حدیث شریف میں صاف پاک مکان اور جس کے یہاں کلام پاک پڑھا جائے عقیدت درست ہوناشرط ہے اب بجائے اس کے عام راستوں پر جہاں پاکی اور ناپاکی تصدیق نہیں ایسی صورت میں نعت وحمد پڑھنا جائز ہے یانہیں؟
جب جمعہ کی نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت ذکر الٰہی کرو کہ تم فلاح پاؤ۔
(۱؎ القرآن الکریم ۶۲/ ۱۰)
جمعہ کے نمازیوں کو حکم ہے کہ جمعہ پڑھ کر باہر نکلو تو زمین میں اپنے اپنے کاموں کو پھیل جاؤ اور ذکر الٰہی بکثرت کرو، راستوں میں بھی ذکر الٰہی کا یہاں سے صریح حکم نکلا اور جس جگہ کی پاکی ناپاکی تحقیق نہیں وہ پاک ہی ہے یہاں تک کہ اس پر نماز جائزہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جعلت لی الارض مسجداوطھورا فایما رجل من امتی ادرکتہ الصلوٰۃ فلیصل ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
میرے لئے زمین مسجد اور پاک کرنیوالی بنائی گئی تو میرے امتی کو جہاں کہیں نماز کا وقت آئے نماز پڑھے۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب التیمم قول اﷲ عزوجل فلم تجدوا ماء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۸)