Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
22 - 190
اور آیہ کریمہ:
الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب ۲؎۔
سن لو! اللہ تعالٰی کے ذکر ہی سے دلوں کو چین واطمینان نصیب ہوتاہے۔ (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم    ۱۳/ ۲۸)
مسئلہ ۴۴: ۲۹ جمادی الآخرہ ۱۳۲۰ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چند اشخاص نے مل کر پانچ شخصوں کو مجلس میلاد شریف سے روکا یعنی نہ آنے دیا۔ ذکر الٰہی سننے  سے روکنے ولا کون ہے اور ذکر الٰہی خاص ہے یا عام لوگوں کے واسطے ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب

ذکرالٰہی سب مسلمانوں کے لئے ہے اور مجلس میلاد مبارک جو مطابق رواج حرمین شریفین معتبر روایتوں سے پڑھی جائے اور منکرات شرعیہ سے خالی ہو اس سے روکنا ذکر خدا سے روکنا ہے ایسا شخص اگر بے عذر صحیح مقبول وقابل قبول روکے تو وہ مناع للخیر معتداثیم ۳؎ہے یعنی خیر سے روکنے ولا خدا کی باندھی ہوئی حدوں سے بڑھنے والا گناہ میں بالقصد پڑھنے والا ۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔
(۳؎القرآن الکریم       ۶۸/ ۱۲)
ہاں بضرورت شرعیہ مستحب سے کسی اور امر اہم کے لئے روکے تو الزام نہیں مثل باپ یا ماں علیل ہے بیٹے کے ذمے تیمار داری ہے وہ مجلس شریف سننے جائے تو یہ تکلیف میں رہیں یا اسی قسم کی اور صورتیں تو یہاں روکنے کااختیار ہے۔ یوہیں مولٰی اپنے خاوند اور آقا اپنے ملازم کو کام کی غرض سے روک سکتاہے
فقد نصوا فی اجیر الواحد علی ماھو اکبر من ھذا وھی الصلٰوۃ النافلۃ فما ظن بالعبد۔ واﷲ تعالٰی سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
فقہائے کرام نے تصریح فرمائی کہ اجرت پر کام کرنے والا آدمی یعنی مزدور اوقات مزدوری میں نفلی نماز نہ ادا کرے جب مزدور کے بارے میں یہ حکم ہے جبکہ وہ زر خریدا  اور مملوک بھی نہیں تو زر خرید غلام اور مملوک آدمی کے بارے میں آپ کیا خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ اور اللہ پاک و برتر اور سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)
مسئلہ ۴۵:  از صاحب گنج گیا مسئولہ چراغ علی صاحب     ۲۵ ربیع الاول شریف ۱۳۳۱ھ

مولانا صاحب دام مجدہ     السلام علیکم!

مسلمان شخص جب دشمن کسی مسلمان کا ہو تو اس کے کہنے پر بغیر تعیین وتشخص کے خواہ مسلمان کا ہو یا کافرکا اس کے لئے اللھم خیرلنا وشر لاعدائنا (اے اللہ! یہ ہمارے لئے بھلائی کا ذریعہ ہو اور ہمارے دشمنوں کے لئے موجب شر ہو۔ ت) پڑھنا چاہئےیا  نہیں؟ ونیز واطمس علی وجوہ اعدائنا (اے اللہ ہمارے دشمنوں کے چہروں کو مٹادے۔ ت) ونیز اللھم نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرورھم (اے اللہ! ہم تیرا وار ان کے سینوں میں پیوست کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری  پناہ چاہتے ہیں۔ ت) وغیرہ وغیرہ۔
الجواب: اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم ۱؎۔
اے اللہ! ہم تیرا وار ان کے سینوں میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ (ت)
 (۱؎ الاذکار المنتخبۃ من کلام سید الابرار     باب مایقول اذخاف قوما     دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۱۱۴)

(الاذکار المنتخبۃ من کلام سید الابرار    باب مایدعوبہ اذاخاف ناسا وغیرھم     دارالکتب العلمیہ بیروت  ص۲۰۲)
اپنے تحفظ کی دعا ہے، یہ ہر مخالف کے مقابل روا ہے۔ باقی دعائے شر کافروبدمذہب پر کی جائے۔ 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من احب ﷲ وابغض ﷲ واعطی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الایمان۲؎۔
جس نے اللہ تعالٰی کے لئے (کسی سے) محبت کی اور اللہ تعالٰی کے لئے کسی سے بغض رکھا اور اللہ ہی کے لئے کچھ دیا اور اللہ ہی کے لئے کچھ روکا تو یقینا اس نے ایمان مکمل کرلیا۔ (ت)
 (۲؎ سنن ابی داؤد     کتاب السنۃ باب فی ردالارجاء     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/ ۲۸۷)

(المعجم الکبیر     حدیث ۷۶۱۴ و ۷۷۳۷     المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۸/ ۱۵۹ و ۲۰۸)
سنی صحیح العقیدہ پرنہ کی جائے اگر چہ اپنا کتنا ہی مخالف ہو۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لاتباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا کونوا عباداﷲ اخوانا ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (لوگو!) ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو اورنہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، واللہ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الادب با ب ماینہی عن التحاسد الخ ص ۸۹۶ و باب الہجرۃ ص ۸۹۷     قدیمی کتب خانہ کراچی)

(صحیح مسلم     کتاب البروالصلۃ     باب تحریم التحاسد الخ     وباب تحریم الظن الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۱۶۔ ۳۱۵)
مسئہ ۴۶: از قصبہ بشارت گنج ضلع بریلی متصل بڑی مسجد مرسلہ نجوخان فوجدار یعنی باقی والا ۲۵ محرم الحرام ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک رکعت نماز قاضی الحاجات کے جواہر خمسہ میں مرقوم ہے طریقہ پڑھنے کا یہ ہے کہ اول ایک رکعت کے نیت کرکے اول اس رکعت میں بیس بار الحمد شریف پڑھے ایک بار قل ھواﷲ شریف پڑھے، بعد سلام کے بیالیس بار یہ پڑھے الٰہی بحرمت وہ وقت کہ تو تھا دوسرا کوئی نہ تھا۔ اور سرکے ٹوپی دہنی طرف رکھ دے اور بیالس باریہ اسم اعظم پڑھے گا آگے بائیں طرف ٹوپی سر کے رکھ دے پھر یہ پڑھے الٰہی بحرمت وہ وقت کہ تو ہوئے دوسرا کوئی نہ ہوئے۔ پھردعا اور مناجات کرے۔ اگر حدیث شریف سے ثبوت نہ ہواور  کوئی طریق سے یہ نماز جائز ہے یانہیں؟ اگر جائز نہ ہو تا جواہر خمسہ میں کیوں لکھتا۔ جواہر خمسہ قابل دید کتاب نہیں ہے؟
الجواب:  ایک رکعت تنہا پڑھنی ہمارے مذہب حنفی میں ممنوع ہے ۔

 حدیث میں ہے:
نھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن البتیراء ۲؎۔
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک رکعت پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (ت)
 (۲؂المقاصدۃ الحسنۃ     حدیث ۲۸۲     دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۱۴۲)
جواھر خمسہ بہت عمدہ ومستند کتاب ہے مگر اس میں جو کچھ اعمال ارشاد ہوئے ہیں عام

مسلمانوں کی منفعت کے لئے ہیں نہ کہ کسی خاص گروہ کے واسطے۔ یہ نماز اگر ہمارے یہاں ناجائز تو شافعیہ کے نزدیک ایک جائز ہے وہ اس سے فائدہ لے سکتے ہیں۔ ان کتابوں کی نظیر بلا تشبیہہ قرابا دین اطباء کی طرح ہے کہ وہ ایک مرض کے متعدد نسخے لکھتے ہیں جو نسخہ جس مریض کے مزاج و حالات کے مطابق ہو وہ اسے استعمال کرے کسی مریض کا یہ کہنا کہ اس میں فلاں جزو میرے خلاف ہے یا میرے مذہب میں روا نہیں یہ نسخہ کیوں لکھا محض بے جا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter