قال الفقیہ ابوجعفر سمعت شیخی ابابکر یقول سئل ابراھیم عن تکبیر ایام التشریق علی الاسواق والجھربھا قال ذٰلک تکبیر الحوکۃ وقال ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی انہ یجوز قال الفقیہ وانا لا امنعھم عن ذٰلک ۱؎ کذا فی المحیط۔
فقیہ ابوجعفر نے فرمایا اپنے شیخ ابوبکر سے سنا کہ وہ فرماتے تھے امام ابراہیم سے بازاروں میں بلند آواز سے تکبیرات ایام تشریق کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ جولاہوں کی تکبیر ہے____قاضی ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ یہ جائز ہے۔ اورفقیہ نے کہا کہ میں لوگوں کو اس سے منع نہیں کرتا محیط میں یوں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۱۹)
بحر ودرمیں ہے:
ھذا کلہ انماھو بحسب حال الانسان واما العوام فلا یمنعون من تکبیروکذا التنفل قبلھا ۲؎ مختصرا۔
یہ تمام طریقے انسان کے حال پر مبنی ہیں رہے عوام تو وہ تکبیر کہنے سے نہ روکے جائیں اسی طرح نماز عید سے قبل نفل پڑھنے سے بھی نہ روکے جائیں مختصرا (ت)
(۲؎ بحرالرائق کتاب الصلٰوۃ باب العیدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۱۶۰)
طحطاوی وشامی میں زیر قول در
ہذا للخواص لکھا: الظاھر ان المراد الذین لایؤثر عندھم الزجر غلا ولا کسلا حتی یفضی بھم الی الترک اصلا ۳؎۔
ظاہر یہ ہے کہ خواص سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جن کے نزدیک ممانعت ، کھوٹ اور سستی کو نہیں لاتی یہاں تک کہ وہ ان کو بالکل چھوڑنے کی طرف لے جائے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ باب العیدین داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۵۵۸)
(الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الصلٰوۃ باب العیدین دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۳۵۳)
غنیہ میں ہے:
قال الفقیہ ابو جعفر الذی عندنا انہ لاینبغی ان یمنع العامۃ من ذٰلک لقلۃ رغبتھم الی الخیرات وبہ ناخذ یعنی انھم اذا منعوا عن الجھربہ لایفعلونہ سرافینقطعون عن الخیر بخلاف العالم الذی یعلم ان الاسرار ھو الافضل ۱؎۔
فقیہ ابوجعفر نے فرمایا ہمارے نزدیک مناسب نہیں کہ عوام کو تکبیر سے روک دیا جائے اس لئے کہ بھلائی کے کاموں میں وہ کم رغبت رکھتے ہیں لہذا ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں یعنی مراد یہ ہے کہ جب وہ ذکر بالجہر سے روک دئے گئے تو وہ آہستہ ذکر بھی نہ کریں گے بخلاف اس عالم کے جو یہ جانتا ہے کہ آہستہ ذکر کرنا افضل ہے۔ (ت)
(۱؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی باب العیدین سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۶۷)
رحمانیہ میں ذخیرہ سے ہے:
بہ اخذ الفقیہ ابواللیث ۲؎۔
فقیہ ابواللیث نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (ت)
(۲؎ رحمانیہ)
ان عبارات علماء سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جہر میں کراہت بھی ہے تو نہ اس قدر کہ خوبی ذکر کی مقاومت کرسکے ولہذا جب منع جہر میں ترک ذکر کا مظنہ ہو خوبی ذکر کو ترجیح دیں گے اور کراہت جہر کا لحاظ نہ کریں گے۔ انصافا یہ شان صرف کراہت تنزیہہ میں ہوسکتی ہے جس کا حاصل خلاف اولٰی ہے نہ کہ ممنوع وناجائز۔
کیف وقد علم ونصوا علیہ ان ترک ذرۃ مما نہی اﷲ تعالٰی عنہ افضل من عبادۃ الثقلین ۳؎۔
حالانکہ یہ معلوم ہوگیا ہے اور اہل علم نے اس کی تصریح فرمادی ہے کہ کسی معمولی سی چیز کو چھوڑدینا کہ جس سے اللہ تعالٰی نے منع فرمایا۔ جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔ (ت)
(۳؎ الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدہ الخامس ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۱۲۵)
بالجملہ اس سے منع کرنا ہی خلاف مصالح شرعیہ ہے فان افسادہ اکثر من اصلاحہ (اس لئے کہ اس کا بگاڑ اس کی اصلاح سے زیادہ ہے۔ ت) نہ کہ معاذاللہ وہ جبروتی احکام کفر وشرک و ضلال وحرام کہ نجدیت وجہالت فاضحہ ہیں حکم بحرمت قطعیہ کا بھی محل نہیں چہ جائے ضلالت و کفر، والعیاذ باللہ تعالٰی، بفرض باطل اگر ذکر مذکور بالا تفاق مکروہ ہی ہو، تا ہم ایسے احکام باطلہ کی شناعت اس سے ہزا ردرجہ سخت وبدتر تھی یہ دقائق تدلیس وتلبیس ابلیس لعین سے ہے۔
آد می کو نیکی کے پردے میں منکر اشد و انکر کا مرتکب کردیتا ہے، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم (گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت کسی میں نہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالٰی عظیم وبرتر کی توفیق میسر ہو۔ ت)
تحفۃ اثنا عشریہ میں ہے:
ہر کہ باجود ایں ہمہ قول جازم نماید بے باک و بے احتیاط ست وہمیں ست شان محتاطین از علمائے راسخین کہ دراجتہاد یات مختلف فیہا جزم باحدالطرفین نمی کنند ۱؎۔
جو کوئی ان تمام باتوں کے باوجود کسی ایک طرف پختہ یقین دکھائے تو وہ بیباک نڈر اور بے احتیاط ہے۔ پس راسخ علماء او ر محتاط حضرات کی یہی پہچان ہے کہ وہ مختلف اجتہادی مسائل میں کسی ایک طرف یقین نہیں رکھتے۔ (ت)
(۱؎ تحفہ اثنا عشریہ)
علامہ عبدالغنی نابلسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں:
المسئلۃ متی امکن تخریجھا علی قول من الاقوال فلیست بمنکر یجب انکارہ والنھی عنہ وانما المنکر ما وقع الاجماع علی حرمتہ والنھی عنہ ۴؎ اھ ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب کسی مسئلہ کو چنداقوال میں سے کسی ایک قول پر حمل کیا جاسکے تو وہ ایسا جرم اور گناہ نہیں کہ جس سے روکنا اور جس کا انکار کرنا ضروری ہو لیکن منکر یعنی گناہ وہ ہے جس کی حرمت پر اجماع اور نہی واقع ہو، اھ ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۲؎ الحدیقہ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ القسم النوع الثالث والثلاثون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/ ۳۰۹)
مسئلہ ۴۳: ۱۳ محرم الحرام ۱۳۱۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ مں کہ لوگ وقت پھیلنے وباء وبلیات وآندھی و طوفان شدید وغیرہ کے اذان کہتے ہیں، یہ امر شرعا جائز ہے یانہیں؟ بادلہ شافیہ مع حوالہ کتب معتبرہ کے بیان فرمائے۔ بینوا توجروا ( بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب
جائز ہے اور جواز کے لئے حدیث صحیح:
مامن شیئ انجی من عذاب اﷲ من ذکر اﷲ فاذا رأیتم ذٰلک فافزعوا الی ذکر اﷲ ۱؎۔
ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی شے اللہ تعالٰی کے عذاب سے چھڑانے والی نہیں۔ پھر جب تم عذاب دیکھو تو اس (گھبراہٹ کی ) حالت میں اللہ تعالٰی کے ذکر کے ذریعے پناہ حاصل کرو۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل الذکر امین کمنپی دہلی ۲/ ۱۷۳)