جانب جواز وندب ہونے کے علاوہ حق یہ ہے کہ نفس ذکر خدا ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی حد ذاتہ اصلا متعلق نہی وقبح نہیں، نہ وہ ہر گز غیر معقول کے معنی بلکہ ذکر اہم واعظم مقاصد شرع مطہر سے ہے بلکہ اپنے زعم پروہی اہم واعظم مقاصد بلکہ حقیقۃً وہی مراد و مقصود ومرجع ومآل جملہ مقاصد ہے نہی عارض بوجہ عارض راجع بعارض ہوگی۔ نہ عائد بذکر۔ جیسے محل ریاء وسمعہ میں ذکر جہر یا بقید عارض تاعروض عارض مختص بافراد مختصہ بعارض جیسے کہ کنف وغیرہا موضع نجاسات میں ذکر لسان یا ہنگام اغارت من المشرکین یاقصداخفامن المعاندین ذکر بالاعلان۔
کما بین طرفا منہ المحقق العلامۃ خیر الملۃ والدین الرملی فی الفتاوی الخیریۃ لنفع البریۃ اقول: ولا یذھبن عنک انا لانقول بالمفہوم فالتمسک بمثلہ قولہ عزوجل واذکر ربک فی نفسک ۱؎ لااراہ یتم علی اصولنا واما قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خیر الذکر الخفی ۲؎ فالخیر لاینفی الخیربل ھو ظاہر فی الجواز کما تری وقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم . . .. . . . .. . . .ازس . . . . . علی انفسکم فی . . . . . . . وقد حمل علی بعض ماذکرنا کما بینہ فی الوجیز وغیرہ وبالجملۃ فا . . . . . ذات . . . . . . . . ان یصیر سفرا مجلدا۔
جیسا کہ اس کا کچھ حصہ محقق کبیر علامہ خیر الملۃ والدین رملی نے الفتاوٰی الخیریۃ لنفع البریۃ (بھلائی پھیلانے والا فتاوٰی مخلوق کے فائدے کے لئے۔ ت) میں بیان فرمایا۔ میں کہتاہوں کہ تمھارا ذہن اس طرف نہ جائے کیونکہ ہم مفہوم مخالف کے قائل نہیں کہ اس جیسے ارشاد خداوندی سے دلیل پیش کی جائے، اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیجئے، میں یہ گمان نہیں کرتا کہ یہ ہمارے اصول و قواعد کے مطابق ہو، رہا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ بہتر ذکر آہستگی والا ہے'' میں ''خیر'' کسی کی نفی نہیں بلکہ یہ جواز میں ظاہر ہے، جیسا کہ تم دیکھتے ہو، حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ...... . . . . ازس . . . . . . . . . علی انفسکم فی . . . . . . . . بیشک وہ کسی بعض اس بات پر محمول کیا گیا جس کو ہم نے بیان کیا جیسا کہ ''الوجیز '' وغیرہ میں اس کو بیان فرمایا . . . . . . . وبالجملۃ . . .. . . فا . . . . . . . وہ ایک ضخیم اور بڑی جلد ہوجاتی۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۷/ ۲۰۵)
(۲؎ مسند احمد بن حنبل عن سعد المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۱۷۲، ۱۸۰، ۱۸۷)
پھر جہاں عوارض ظاہرہ ہوں مجرد عوارض خفیہ قلبیہ کی بناء پر مادہ خاصہ میں حکم دینا اساءت ظن بالمسلمین ہے جس کی طرف سبیل نہیں۔
قال تعالٰی: ولا تقف مالیس لک بہ علم ۱؎
اس بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تمھیں کچھ علم نہ ہو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۳۶)
وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم . . . . عن قلبہ وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایاکم والظن فان الظن اکذب ۲ الحدیث۔
اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے . . . . . . اس کے دل سے۔ اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگو! بدگمانی سے بچو، بے شک بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ الحدیث (ت)
عجب کہ کراہت مختلف فیہا پر احتساب اور حرمت مجمع علیھا کاارتکاب ان ھذا لشیئ عجاب ۳؎ (بے شک یہ تو بڑی عجب بات ہے۔ ت) مقاصد شرعیہ پر متطلع مطلع کہ جو امر فی نفسہ شرعا خیرو مندوب اور کراہت مجاورہ مختلف فیہا یا مشکوک ہو اور تجربۃً اس کا ترک منجر بہ منہیات اجماعیہ ہو تو ہر گز اس سے منع نصیحت نہیں، بلکہ مقصد شرع سے بعد بعید ہے۔
(۳؎ القرآن الکریم ۳۸/ ۵)
ولہذا علمائے کرام فرماتے ہیں عوام کو صلٰوۃ عند الطلوع سے منع نہ کریں۔
درمختارمیں ہے:
الا العوام فلا یمنعون من فعلھا لانھم یترکونھا والاداء الجائز عند البعض اولی من الترک کما فی القنیۃ وغیرہما ۴؎۔
عوام کو طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اسے بالکل چھوڑ دینگے اور جو ادا بعض اہل علم کے نزدیک جائز ہے وہ نماز چھوڑدینے سے بہتر ہے جیسا کہ قنیہ وغیرہ میں مذکور ہے۔ (ت)
(۴؎ درمختار کتاب الصلٰوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۶۱)
ردالمحتارمیں ہے:
وعزاہ صاحب المصفی الی الامام حمید الدین عن شیخہ الامام المحبوبی والی شمس الائمۃ الحلوانی فی النسفی ۱؎ الخ۔
صاحب مصفی نے اس کو امام حمید الدین انھوں نے اپنے شیخ امام محبوبی کی طرف منسوب کیا ہے نیزا نھوں نے شمس الائمہ حلوانی اور امام نسفی کی طرف نسبت کی ہے۔ الخ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۲۴۸)
اور تجارت متطاولہ شاہد کہ عوام اگر مشتغل بذکر الٰہی نہیں ہوتے مشتغل بفضول کلام ہزل و لغو ہوتے ہیں کہ اجماعا مکروہ وممنوع ، اور ذکر الٰہی سے روکنا ہر گز مصلحت شرعیہ نہیں، خصوصا یہاں تو حکمائے شریعت علمائے امت نے عدم منع کو ابتلا بمکروہ اجماع پر بھی موقوف نہ رکھا بلکہ اس میں ذکر خدا ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فی نفسہٖ خیریت خیر کی طرف عوام کی قلت رغبت پر بنائے کار رکھی اور باوصف بیان حکم مسئلہ انھیں منع نہ کرنے کی تصریح کی۔ امام شمس الائمہ کردری وجیز میں فتاوی سے نقل فرماتے ہیں:
ان الذکر بالجھر فی المسجد لایمنع احتراز عن الدخول تحت قولہ تعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیھا اسمہ ۲؎ الخ۔
مسجد میں بآواز بلند ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کے باعث کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے لوگوں کو منع کرے۔ الخ (ت)
(۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش فتاوٰی ہندیۃ کتاب الاستحسان نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۳۷۸)
قال الفقیہ ابوجعفر لاینبغی ان یمنع العامۃ عن ذٰلک لقلۃ رغبتھم فی الخیرات ۳؎۔
فقیہ ابوجعفر نے فرمایا عوام کو بلند آواز کے ساتھ ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اس لئے کہ نیک کاموں کی طرف (پہلے ہی)ان کی رغبت کم ہوتی ہے۔ (ت)
(۳؎ تبیین الحقائق باب صلٰوۃ العیدین ۱/ ۲۲۴ و الدررالحکام باب صلٰوۃ العیدین ۱/ ۱۴۲)
(وفتح القدیر باب صلٰوۃ العیدین ۲/ ۴۱ و بحرالرائق باب صلٰوۃ العیدین ۲/ ۱۶۰)
(ومجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب صلٰوۃ العیدین ۱/ ۱۷۳)