بالجملہ مسلمانوں کو چاہئے اس پاک مبارک عمل میں چند باتوں کا لحاظ واجب جانیں کہ ان منافع جلیلہ دنیا وآخرت سے بہرہ مند ہوں:
(۱) تصحیح نیت کہ آدمی کی جیسی نیت ہوتی ہے ویساہی پھل جاتاہے نیک کام کیا اور نیت بری تو وہ کچھ کام نہیں انما لاعمال بالنیات ۲؎ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ت) تو لازم کہ ریا یا ناموری وغیرہ اغراض فاسدہ کو اصلا دخل نہ دیں ورنہ نفع درکنار نقصان کے سزاوار ہوں گے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی
(۲) صرف اپنے سر سے بلا ٹالنے کی نیت نہ کریں کہ جس نیک کام میں چند طرح کے اچھے مقاصد ہوں اور آدمی ان میں ایک ہی کی نیت کرے تو اسی لائق ثمرہ کا مستحق ہوگا انما لکل امرئ مانوی ۳؎ (ہر شخص کو وہی حاصل ہوگا جس کی وہ نیت کرے۔ ت) جب کام کچھ بڑھتا نہیں صرف نیت کرلینے میں ایک نیک کام کے دس ہوجاتے ہیں تو ایک ہی نیت نہ کرنا کیسی حماقت اور بلاوجہ اپنا نقصان ہے۔ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ اس عمل میں کتنی نیکیوں کی نیت ہوسکتی ہے ان سب کا قصد کریں کہ سب کے منافع پائیں بلکہ حقیقتا اس عمل سے بلا ٹلنا بھی انہی نیتوں کا پھل ہے جیسا کہ ہم نے احادیث سے روشن کردیا تو بغیر ان نیتوں اعنی صدقہ فقراء وخدمت صلحا وصلہ رحم واحسان جاروغیرہ مذکورات کے بلاٹلنے کی خالی نیت پوست بے مغزہے۔
(۳) اپنے مال کی پاکی میں حد درجہ کی کوشش بجالائیں کہ اس کام میں پاک رہی مال لگایا جائے اللہ عزوجل پاک ہے پاک ہی کو قبول فرماتاہے:
الشیخان ولانسائی والترمذی وابن ماجۃ وابن خزیمۃ عن ابی ھریررۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لا یقبل اﷲ الاالطیب ۱؎ ھوقطعہ حدیث وفی الباب عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
شیخین، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن خزیمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت فرمایا: اللہ تعالٰی قبول نہیں کرتا مگر پاک کو، یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے اور اس باب میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی حدیث مروی ہے۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ ۱/ ۱۸۹ صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ ۱/ ۳۲۶)
(جامع الترمذی کتاب الزکوٰۃ ۱/ ۸۴ سنن ابن ماجہ کتاب الزکوٰۃ ص۱۳۳)
ناپاک مال والوں کو یہ رونا کیا تھوڑا ہے کہ ان کا صدقہ خیرات، فاتحہ، نیاز کچھ قبول نہیں والعیاذ باللہ تعالٰی۔
(۴) زنہار زنہار ایسانہ کر کہ کھاتے پیو کہ بلائیں محتاجون کو چھوڑیں کہ زیادہ مستحق وہی ہیں اور انھیں اس کی حاجت ہے تو ان کا چھوڑنا انھیں ایذا دینا اور دل دکھانا ہے۔ مسلمانوں کی دل شکنی معاذاللہ وہ بلا ئے عظیم ہے کہ سارے عمل کو خاک کردے گی۔ ایسے کھانے کوحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سب سے بدتر کھانا فرمایا کہ پیٹ بھرنے بلائے جائیں جنھیں پرواہ نہیں اور بھوکے چھوڑ دئے جائیں جو آنا چاہتے ہیں۔
مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صل اﷲ تعالٰی علیہ وسلم شرالطعام طعام الولیمۃ یمنعھا من یاتیھا ویدعی الیھا من یاباھا ۲؎ وللطبرانی فی الکبیر والدیلمی فی مسند الفردوس بسند حسن عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلفظ یدعی الیہ الشعبان ویحبس عنہ الجائع ۱؎ وفی الباب غیرھما۔
مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : بدترین کھانا اس دعوت ولیمہ کا کھانا ہے کہ جو اس میں آنا چاہتاہے اسے روک دیا جاتاہے اور جو نہیں آنا چاہتا اسے بلایا جاتاہے۔ طبرانی نے کبیر میں اور دیلمی نے مسند الفردوس میں سند حسن کے ساتھ ابن عبا س رضی اللہ تعالٰی عنہما کے واسطہ سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ارشاد گرامی اس لفظ سے نقل کیا کہ سیر شدہ کو دعوت دی جائے اور بھوکے کو روکاجائے اس باب میں دوسروں نے بھی احادیث روایت کی ہیں۔ (ت)
(۲؎ صحیح مسلم کتاب النکاح باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۶۳)
(۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۲۷۵۴ المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۱۲/ ۱۵۹)
(الفردوس بمأثور الخطاب حدیث ۳۶۶۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۳۷۲)
(۵) فقراء کہ آئیں کہ ان کی مدارات وخاطر داری میں سعی جمیل کریں اپنا احسان ان پر نہ رکھیں بلکہ آنے میں ان کا احسان اپنے اوپر جانیں کہ وہ اپنا رزق کھاتے اور تمھارے گناہ مٹاتے ہیں اٹھانے بٹھانے بلانے کھلانے کسی بات میں برتاؤ ایسا نہ کریں جس سے ان کا دل دکھے کہ احسان رکھنے ایذا دینے سے صدقہ بالکل اکارت جاتاہے۔
قال اﷲ تعالٰی : الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اﷲ ثم لایتبعون ماانفقوا ولا اذی لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیہم ولا ھم یحزنون قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی واﷲ غنی حلیم ۵ یاتیھا الذی اٰمنوا لاتبطلوا صدقٰتکم بالمن والاٰذی کالذی ینفق مالاہ ریاء الناس ۲؎ الآیۃ۔
جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال خدا کی راہ میں پھر اپنے دئے کے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ دل دکھانا ان کے لئے ان کا ثواب ہے اپنے رب کے پاس، نہ ان پرخوف اور نہ وہ غم کھائیں، اچھی بات (کہ یہ ہاتھ نہ پہنچا تو میٹھی زبان سے سائل کو پھیردیا) اور درگزرے (کہ فقیر نے ناحق ہٹ یا کوئی بے جاحرکت کی تو اس پر خیال نہ کیا اسے دکھ نہ دیا) یہ اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل ستانا ہو اور اللہ تعالٰی بے پرواہ ہے (کہ تمھارے صدقہ وخیرات کی پرواہ نہیں رکھتا، احسان کس پر کرتے ہو) حلم والا ہے کہ تمھیں بے شمار نعمتیں دے کر تمھاری سخت نافرمانیوں سے درگزر فرماتاہے تم ایک نوالہ محتاج کو دے کر وجہ بے وجہ اسے ایذا دیتے ہو) اے ایمان والو! اپنی خیرات اکارت نہ کرو احسان رکھنے اوردل ستانے سے اس کی طرح جو مال خرچ کرتاہے لوگوں کے دکھاوے کو (کہ اس کا صدقہ سرسے اکارت ہے والعیاذ باللہ رب العالمین)
(۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۶۶۲ تا ۲۶۴)
ان سب باتوں کے لحاظ کے ساتھ اس عمل کو ایک ہی بارنہ کریں بار بار بجالائیں کہ جتنی کثرت ہوگی اتنی ہی فقراء وغربا کی مفعت ہوگی اتنی اپنے لئے ودنیاوی وجسمی وجانی رحمت وبرکت و نعمت وسعادت ہوگی خصوصا ایام قحط میں۔ تو جب تک عیاذ باللہ قحط رہے روزانہ ایسا ہی کرنا مناسب کہ اس میں نہایت سہل طور پر غرباء ومساکین کی خبر گیری ہوجائے گی اپنے کھانے میں ان کا کھانا بھی نکل جائے گا، دیتے ہوئے نفس کو معلوم بھی نہ ہوگا اور جماعت کی وجہ سے سو کا کھانا دو سو کو کفایت کرے گا۔ قحط عام الرماد میں حضرت سیدنا امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کا قصد ظاہر فرمایا۔ وباللہ التوفیق وہدایۃ الطریق۔
الحمدﷲ کہ یہ متفرد جواب نفیس ولاجواب عشرہ اوسط ماہ فاخر ربیع الآخر کے تین جلسوں میں تسویدا وتبیضا تمام اور بلحاظ تاریخ رادالقحط والوباء بدعوۃ الجیران ومواساۃ الفقراء ۱۳۱۲ھ نام ہوا۔
واٰخر دعوٰنا ان المحمد اﷲ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین
محمد والہ وصحبہ اجمعین واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
رسالہ
رادالمقحط والوباء بدعوۃ الجیران ومواء ماۃ الفقراء
ختم شد
ذکر ودعا
مسئلہ ۴۲: از بمبئی مرسلہ مولوی محمد عمر الدین صاحب مع رسالہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین کہ ہمارے اس ملک سندھ اور نیز بمبئی میں قدیم الایام سے یہ مروج ہے کہ جنازہ کے آگے کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے چند آدمی میت کو قبرستان لے جاتے ہیں اور قبرستان پہنچ کر اس میت کو بخش دیتے ہیں او جب واپس لوٹتے ہیں تو اس طرح کلمہ طیبہ پڑھتے آتے ہیں اور اس کا ثواب میت کے مکان پر پہنچ کر اس کو بخش دیتے ہیں آیا اس کلمہ کا ذکر میت کے آگے اور واپسی کے وقت جہرا پڑھنا جائز ہے یانہیں اور میت کو اس سے فائدہ ہوتاہے یا نہیں؟ اور جو شخص اسے کفر وشرک یاحرام قطعی کہے اور مسلمانوں کو اس کے باعث مستحق لعن وطعنہ جانے وہ خاطی ہے یانہیں؟ بینو ا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب
تحریر فقیر بررسالہ مذکور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم لک الحمد (اے اللہ! تیرے ہی لئے تعریف ہے۔ ت) فی الواقع لوگوں کو ذکر مذکور سے منع نہ کیا جائے ، مسئلہ جہر مختلف فیہا ہے اور اطلاقات قرآن عظیم اور شادات احادیث کثیر مثل حدیث قدسی:
وان ذکر نی فی ملأذکرتہ فی ملأ خیر منھم رواہ البخاری ۱؎ ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ واحمد عن انس بسند صحیح والطبرانی(۳) فی الکبیر والبزار فی المسند باسناد جید و البیھقی فی اشعب کلھم عن ابن عباس والطبرانی (۴)فیہ بسند حسن عن معاذ بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہم ولفظ ھذا لایذکر فی ملأ الا ذکرتہ فی الرفیق الاعلی ۲؎ وحدیث(۵) اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قالوا و ماریاض الجنۃ قال حلق الذکراخرجہ احمد ۳؎ والترمذی وحسنہ والبیھقی فی الشعب عن انس ۔
اگر اس نے مجھے کسی مجلس میں یاد کیا تو میں اس سے بہترمجلس میں یاد کروں گا، (یعنی فرشتوں کی محفل میں) بخاری مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اس کو حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا۔ امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ حضرت انس سے روایت کیا ہے امام طبرانی نے الکبیر میں بزار نے عمدہ سند سے اپنی منہ میں اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں پھر ان سب نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے اسے روایت کیا۔۔ طبرانی نے ''الکبیر'' میں سند حسن کے ساتھ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں لایذکر فی الخ وہ مجھے کسی محفل میں یاد نہیں کرے گا مگر میں رفیق اعلی میں اسے یاد کروں گا (حدیث ۵) لوگو! جب تم جنت کے باغیچوں سے گزرنے لوگو تو چر چُگ لیا کرو۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا : حضور! جنت کے باغیچے کیا ہیں؟ فرمایا : ذکر کے حلقے، امام احمد اور ترمذی نے اس کی تخریج فرمائی اور اس کے ساتھ ہی اس کی تحسین بھی فرمائی امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس کے حوالے سے اسے روایت کیا ۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الذکر باب الحث علی ذکر اللہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۴۳، ۳۴۱)
(جامع الترمذی ابواب الدعوات امن کمپنی دہلی ۲/ ۲۰۰)
(سنن ابن ماجہ ابواب الدعوات باب فضل العمل ایچ ایم سعید کمپنی ص۲۷۹)
(صحیح البخاری کتاب الرد علی الجہمیۃ باب قول ویحذر کم اﷲ نفسہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۰۱)
(۲؎ المعجم الکبیر حدیث ۳۹۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۰/ ۱۸۲)
(۳؎ مسند احمد بن حنبل عن انس بن مالک المکتب الاسلامی بیروت ۳ / ۱۵۰ )
(جامع الترمذی ابواب الدعوۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۸۹)