رسالہ
رادالقحط والوباء بدعوۃ الجیران ومواساۃ الفقراء (۱۳۱۲ھ)
(پڑسیوں کی دعوت اور فقیروں کی غمخواری کے ذریعے قحط اور وباء کو لوٹادینے والا)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مسئلہ ۴۱ : از کانپور مدرسہ فیض عام مرسلہ مولوی احمد اﷲ تلمیذ مولوی احمد حسن صاحب ۱۷ ربیع الآخر شریف ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے دیار (عہ) میں اس طرح کا رواج ہے کہ کوئی بلاد میں ہیضہ، چیچک، وقحط سالی وغیرہ آجائے تو دفع بلا کے واسطے جمیع محلہ والے مل کر فی سبیل اللہ اپنی اپنی حسب استطاعت چاول، گیہوں وپیسہ وغیرہ اٹھا کر کھانا پکاتے ہیں اور مولویوں اور ملاؤں کو بھی دعوت کرکے ان لوگوں کو بھی کھلاتے ہیں اور جمیع محلہ دار بھی کھاتے ہیں، آیا اس صورت میں محلہ دار کو طعام مطبوخہ کا کھانا جائز ہوگا یا نہ؟ طعام مطبوخہ کھانے کے لئے مانع وغیر مانع پر کیا حکم دیا جاتاہے؟ بینوا توجروا (بیان کرو تاکہ اجر پاؤ۔ ) عہ: یعنی بنگالہ میں کہ یہ سوال کانپورمیں وہیں سے آیا تھا کانپور سے بغرض تحریر جواب بھیجا گیا ۱۲
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ الذی وضع البرکۃ فی جماعۃ الاخوان وقطع الھلکۃ بتواصل الاحباء والجیران و الصلٰوۃ والسلام علی صاحب الشفاعۃ مجیب الدعوۃ ومحب الجماعۃ دافع البلاد والوباء والقحط و المجاعۃ وعلی الہ وصحبہ و جماعۃ المسلمین وعلینا فیھم یاارحم الراحمین اٰمین اٰمین اٰمین یاربنا اٰمین۔
تما م تعریفیں اس ذات کے لئے جس نے بھائیوں کے اجتماع میں برکت فرمائی اور اہل محبت اور پڑوسیوں کی ملاقات وصلہ میں مصیبت کو قطع فرمایا اور صلٰوۃ وسلام مالک شفاعت، دعوت قبول، جماعت سے محبت، مصیبت و وبلاء اور بھوک اور قحط کو دفع کرنے والی ذات پر اور ان کی آل واصحاب اور مسلمانوں کی جماعت اور ان کے ساتھ ہم پر یا ارحم الراحمین، آمین آمین اے ہمارے رب آمین!
فعل مذکور بقصہ مسطور اور اہل دعوت کو وہ کھانا کھانا شرعا جائز و روا جس کی ممانعت شرع مطہر میں اصلا نہیں۔ قال اللہ تعالٰی :
فعل مذکور بقصہ مسطور اور اہل دعوت کو وہ کھانا کھانا شرعا جائز و روا جس کی ممانعت شرع مطہر میں اصلا نہیں۔ قال اللہ تعالٰی :
لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا ۱؎۔
تم پر کچھ گناہ نہیں کہ کھاؤ مل کر یا الگ الگ۔
(۱؎القرآن الکریم ۲۴/ ۶۱)
تو بے منع شرع ارتکاب ممانعت جہالت وجرأت۔
وانا اقول: وباﷲ التوفیق (اور میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ سے ہے۔ ت) نظر کیجئے تو یہ عمل چند دواؤں کا نسخہ جامعہ ہے کہ اس سے مساکین وفقراء بھی کھائیں گے، علماء وصلحاء بھی عزیز ورشتہ دار بھی قریب واہل جوار بھی تو اس میں بعد وابواب جنت اٹھ خوبیاں ہیں:
(۱) فضیلت صدقہ (۲) خدمت صلحاء (۳) صلہ رحم (۴) مواساۃ جار
(۵) سلوک نیک سے مسلمانوں خصوصا غرباء کا دل خوش کرنا (۶) ان کی مرغوب چیزیں ان کے لئے مہیا کرنا۔
(۷) مسلمان بھائیوں کو کھانا دینا (۸) مسلمانوں کا کھانے پر مجتمع ہونا۔
اور ان سب امور کو جب بہ نیت صالحہ ہوں باذن اللہ تعالٰی رضائےھ خدا عفوو خطاء ودفع بلا میں دخل تام ہے ظاہر ہے کہ قحط، وباء، ہر مصیبت وبلا گناہ کے سبب آتی ہے۔
قال اﷲ تعالٰی ومااصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیرا ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور تمھیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتاہے۔ (ت) تواسباب مغفرت ورضاورحمت بلا شبہ اس کے عمدہ علاج ہیں۔
(۱؎القرآن الکریم ۴۲/ ۳۰)
اب بتوفیق اللہ تعالٰی احادیث سنئے :
حدیث ۱: حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ان الصدقہ لتطفئ غضب الرب و تدفع میتۃ السوء، رواہ الترمذی ۲؎ و حسنۃ وابن حبان فی صحیحہ عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بیشک صدقہ رب عزوجل کے غضب کو بجھاتا اور بری موت کو دفع کرتاہے (اسے ترمذی، اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ، ترمذی نے اس کی تحسین کی۔ ت)
(۲؎ جامع الترمذی ابواب الزکوٰۃ باب ماجاء فی فضل الصدقہ امین کمپنی دہلی ۱/ ۸۴)
(کنز العمال بحوالہ ت حب عن انس حدیث ۱۵۹۹۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶/ ۳۴۸ و ۳۷۱)
دوزخ سے بچو اگر چہ آدھا چھوہارا دے کر کہ وہ کجی کو سیدھا اور بری موت کو دور کرتاہے الحدیث (ابویعلٰی اور بزار نے اسے صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
(۳؎ مسند ابی یعلی عن ابی بکر حدیث ۸۰ مؤسسۃ علوم القرآن بیروت ۱/ ۷۵)
(کشف الاستار عن زوائد البزار حدیث ۹۳۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱/ ۴۴۲)
حدیث ۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
ان صدقۃ المسلم تزید فی العمر وتمنع میتۃ السوء، رواہ الطبرانی ۱؎ وابوبکر بن مقیم فی جزئہ عن عمرو بن عوف رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بے شک مسلمان کا صدقہ عمر کو بڑھاتا ہے اور برُی موت کو روکتاہے۔ (اسے طبرانی اورابوبکر بن مقیم نے اپنی جزء میں عمرو بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)