Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
10 - 190
مسئلہ ۳۴ تا ۳۶: ۲۱ ربیع الاول ۱۳۲۳ھ

(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بروز پنچشنبہ فاتحہ اور کھانے کا ثواب میت کی روح کو بخش کو جو کچھ ممکن ہو سکے مساکینوں کوبھی دے دیا جائے اس کی نسبت کیا حکم ہے؟

(۲) میت کے سیم میں چنوں پر کلمہ شریف پڑھنا اور پھر ان کو اور بتاشوں کو تقسیم کرنا چاہئے یانہیں؟

(۳) میت کے سیم کے چنے وبتاشے سوائے مساکین کے دوسرے کو لینا اور کھانا چاہئے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب

(۱) جائز اورمستحسن ہے اور باعث اجروثواب ہے اس کے لئے بھی اور اس میت مسلمان کے لئے بھی، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ ۱؎۔
جوکوئی تم میں سے اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے تو اسے نفع پہنچائے (ت)
 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل         حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ     دارالفکر بیروت    ۳/ ۳۱۵)

(صحیح مسلم         کتاب السلام باب استحباب الرقیہ من العین الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۲۳)
 (۲و ۳) جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ صرف مساکین کو دئے جائیں اغنیاء کا نہ لینا بہتر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۷ :  از سرونج مسئولہ جناب محمد عبدالرشید خان صاحب ۱۹ محرم الحرام ۱۳۲۱ھ

زید کے پاس روپیہ کچھ روپیہ تو جو حلال کا ہے اور کچھ ناجائز کا روپیہ اکٹھا جمع ہے زید یہ بات بھول گیا ہے کہ اس روپے میں جائز طور کا کتنا ہے اور ناجائز طور کا کتنا روپیہ ہے۔ اب اگر زید اس روپے سے خیرات کرنا چاہئے تو کس طور سےکرے؟
الجواب :  تحری کرے زیادہ سے زیادہ تک ناجائز روپیہ اسے حاصل مالکوں یا وارثوں کو واپس دے اگر ان کا پتا نہ ہو تو اس قدر کل تصدق کردے باقی جتنا روپیہ اس کا رہ گیا ہے اس کا یہ مختار ہے تصدق وغیرہ جس صرف میں چاہے اٹھائے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۸ :

کراچی میں مسلمانوں کا یک یتیم خانہ کھلنے والا ہے جس میں وہابی، نیچری، رافضی ، لامذہب سب جمع ہیں، سنی مسلمانوں کو اس یتیم خانہ میں شامل ہونا چاہئے یانہیں؟ اوراگر فی سبیل اللہ زکوٰۃ خیرات کی مد سے اس یتیم خانے مین چندہ دیا تو زکوٰۃ ادا ہوئی یا نہیں؟ اور وہ چندہ باعث ثواب ہوا یاموجب عذاب؟ بینوا توجروا
الجواب: اس میں احتمالا دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ یتیموں وتربیت کا تمام اتنظام صرف اہلسنت کے ہاتھوں میں رہے کسی بدمذہب کا اس میں دخل نہ ہو،  نہ ان کی صحبت بچوں کو رہے کہ وہ انھیں اغوا کرسکیں صرف بالائی باتوں میں ان کی شرکت ہو، دوسرے یہ کہ ان امور میں بھی انھیں مداخلت دی جائے یا کم از کم ان کی صحبت بد رہے جس سے بچوں کی گمراہی مظنہ ہو، صورت ثانیہ تو مطلقا قطعی حرام وبدخواہی اسلام ہے اور اس میں چندہ دینا موجب عذاب وآثار، اور صورت اولٰی شاید محض ایک خیالی ہو  واقع کبھی نہ ہو کہ جب وہ برابر کے شریک ہیں ہر کام میں برابر کی شرکت چاہیں گے کیا وجہ ہے کہ وہ نرے غلام بن کررہنے پر راضی ہوں اور بغرض باطل اگر ایسا ہو بھی تو ان کی صحبت بد سے کیونکر مفر اور علماء تصریح فرماتے ہیں :
ان الاحکام تبنی علی الغالب ولایعتبر النادر فضلا عن الموھوم کما فی فتح القدیر ۱؎ وغیرہ۔
احکام، غالب حالات پر مبنی ہواکرتے ہیں لہذا کسی نادر صورت کا اعتبار نہیں کیا جاتا چہ جائیکہ کسی رسمی اور فرضی صورت کا اعتبار ہو جیسا کہ فتح القدیر وغیرہ میں مذکور ہے۔ (ت)
 (۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح     باب مایفسد الصوم     نورمحمد کارخانہ تجارت کراچی    ص۳۷۰)
لہذا حکم وہی ہے کہ ایسی کھچڑی مطلقا حرام ہے اور اس کی اعانت ہر طرح ناجائز، معہذا اگر فرض کرلیں کہ صورت اولٰی واقع ہو تو اس میں اہلسنت کو ان بے دینوں کی مجالست مصاحبت توقیر سے چارہ نہ ہوگا اوریہ خود حرام ہے۔
قال اﷲ تعالٰی : واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظلمین ۲؎۔
اگر تمھیں شیطان بھلادے تو پھر یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم     ۶/ ۶۸)
اور حدیث میں ہے:
من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ۳؎۔
جس نے کسی بدعتی آدمی کی تعظیم کی اس نے بلا شبہہ اسلام کے گرانے (مٹانے) پر امداد کی۔ (ت)
 (۳؎ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ     مجتبائی دہلی    ص۳۱)

(شعب الایمان      حدیث ۹۴۶۴     دارالکتب العلمیہ بیروت    ۷/ ۶۱)
رہی زکوٰۃ اگر بطور چندہ دی گئی اور چندہ میں خلط کرلی گئی اور عام مصارف میں بلالحاظ تملیک فقیر اٹھتی رہی جب تو ہر گز ادا نہ ہوگی اگر چہ یتیم خانہ خاص اہلسنت کا ہو۔
لماصرحوا بہ ان رکنھا التملیک فلا تجوز فی بناء مسجد اوتکفین میت وغیر ذٰلک وصرحوا ان الخلط استھلک فلا تتادی بہ کما فی الفتاوٰی العالمگیریۃ وغیرھا۔
اس لئے کہ ائمہ فقہ نے اس مسئلہ کی تصریح فرمائی کہ زکوٰۃ کارکن تملیک ہے (یعنی زکوٰۃ لینے والے کو مال زکوٰۃ کا مالک بنادینا) لہذا تعمیر مسجد اور تکفین میت اور اس نوع کی دوسری صورتوں میں زکوٰۃ جائز نہ ہوگی (اس لئے کہ ان میں تملیک نہیں پائی جاتی) اور یہ بھی انھوں نے تصریح فرمائی کہ ایک مال کو دوسرے مال میں خلط کرنا یعنی ملانا اسے نیست ونابود کردینا ہے لہذاس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیر میں مزکور ہے۔ (ت)

اور اگر بطور زکوٰۃ دی جائے اور جدا رکھی جائے اور یتیموں فقیروں کے قبضہ میں دے کہ تملیک کردی جائے پھر ان کے مصارف میں اٹھائی جائے تو ادا ہوجائے گی وان کان بعض المنتظمین من غیر اھل الدین (اگر چہ بعض انتظام کرنے والے دیندار نہ ہوں۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۹: از مقام کیلا کھیڑا تحصیل باندپور ضلع نینی تال مسئولہ عبدالمجید خاں مدرسہ زنانہ بروز شنبہ بتاریخ ۱۱ صفر المظفر ۱۳۳۴ھ

جمعرات کی فاتحہ یا بزرگوں کے عرس وغیرہ کا صحیح طور سے تحریر فرمائیں۔ زیادہ حد ادب۔
الجواب

جمعرات کی فاتحہ جائز ہے۔ یوہیں عرس اگر منکرات شرعیہ مثل مزامیر وغیرہا سے خالی ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۰: مسئولہ ماجد حسین ناظم انجمن تہذیب الاسلام بہرائچ پنجشنبہ ۲ شعبان ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے کرام ومفتیان اعلام اس مسئلہ میں کہ ماہ شعبان کی چودھویں تاریخ کو عوام اہلسنت میں مدت مدید سے دستور چلاآرہا ہے کہ حلوا پکا کر اس پرحضرت اویس قرنی وحضرت حمزہ سید الشہداء رضی اللہ تعالٰی عنہما اور اپنے دوسرے خاندانی لوگوں کا فاتحہ کرتے ہیں اور کچھ حصہ محتاجوں کو اور باقی اعزاواقارب میں تقسیم کیا کرتے ہیں اور اس رسم کو لوگ بطور اتباع سلف کرتے ہیں، بعض علماء نے اس رسم کو بے اصل اور ہنود کی رسوم کے مشابہ فرماکر روکتے ہیں اور بعض اس رواج کو بے ضرر جان کر منع نہیں فرماتے اور بعض کو اصرار ہے کہ یہ رواج قدیم بے سبب نہیں ہے لہذا تارک کو خاطی کہتے ہیں جواب دندان شکن مفصل مدلل ارشاد فرمایا جائے۔ یہ رواج مسلمانوں میں کس زمانہ سے شروع ہوا ہے اور اس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصلیت ہے یا نہیں فقط
الجواب

شریعت اسلامیہ میں ایصال ثواب کی اصل ہے اور صدقات مالیہ کا ثواب باجماع ائمہ اہلسنت پہنچتاہے اور تخصیصات عرفیہ کوحدیث نے جائز فرمایا کہ :
صوم یوم السبت لالک ولا علیک ۱؎۔
سنیچر کا روزہ نہ تجھے مفید ہے اور نہ تیرے لئے نقصان دہ ہے۔ (ت)
 (۱؎ مسند احمد بن حنبل     عن الصماء بنت یسر رضی اﷲ تعالٰی عنہا     المکتب الاسلامی بیروت    ۶/ ۳۶۸)
مانعین کی یہ جہالت ہے کہ جواز خصوصی کے لئے دلیل خصوصی مانگتے ہیں اور منع خصوص کے لئےدلیل خصوصی نہیں دیتے ان سے پوچھئے تم جو منع کرتے ہوآیا اللہ ورسول نے منع کیا ہے یا اپنی طرف سے کہتے ہیں اگر اللہ تعالٰی ورسول نے منع فرمایا ہے تو دکھاؤں کہ کون سی آیت وحدیث میں ہے کہ حلوا ممنوع ہے یا حضرت سید الشہداء حمزہ یا حضرت خیر التابعین اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اس کا ثواب پہنچانا ممنوع ہے یا اعزہ واحبا میں اس کا تقسیم کرنا ممنوع ہے اور جب نہیں دکھاسکتے تو جو بات اللہ ورسول نے منع نہیں فرمائی تم اس کے منع کرنے والے کون،
اللہ اذن لکم ام علی اﷲ تفترون ۱؎
(کیا اللہ تعالٰی نے تمھیں (اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ تعالٰی کے ذمہ جھوٹ لگاتے ہو۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ القرآن الکریم   ۱۰/ ۵۹)
Flag Counter