فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ۱: از کلی ناگر ضلع پیلی بھیت مرسلہ اکبر علی صاحب ۶ جمادی الآخرہ ۱۳۲۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو مولوی واعظ داں ہوکر گاؤں درگاؤں ہندوؤں کے یہاں کھانا کھائے اور ایک عورت کو ساتھ لئے پھرے اس کے پیچھے نماز درست ہے یانہیں؟ اور وہ امام کے قابل ہے یانہیں؟
الجواب: ہندوں کے یہاں کا گوشت حرام ہے جب تک وہ گوشت اس جانور کا نہ ہو جسے مسلمان نے ذبح کیا اور اس وقت تک مسلمان کی نظر سے غائب نہ ہوا باقی کھانے اگر ان میں وجہ حرمت نہ معلوم ہو تو حلال ہیں ایک عورت کو ساتھ لئے پھرنا نہایت گول لفظ ہے کیسی عورت کیونکر ساتھ لئے پھرنا خادمہ بناکر یا زوجہ بنا کر یا معاذاللہ فاسد طریقے پر، اور خامہ ہے تو نوجوان ہے یا حد شہوت سے گزری ہوئی بڑھیا، اور اس سے فقط پکانے وغیرہ کی معمولی خدمت لیتا ہے یا تنہائی میں یکجائی کا بھی اتفاق ہوتاہے۔ اور زوجہ ہے تو پردہ میں رکھتا ہے یا بے پردہ لئے پھرتاہے، اگر حدشہوت سے گزری ہوئی بڑھیاہے۔ یا جوان ہے اور اس سے معمولی خدمت لیتاہے اور ساتھ اور لوگ بھی ہیں کہ اتفاق خلوت میں نہیں ہوتا یا زوجہ ہے او اسے پردے میں ساتھ رکھتاہے تو حرج نہیں واللہ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲ : از برہما ملک بنگالہ مرسلہ عبدالرشید کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کسی جاہل نے کسی مسجد کے پیش امام عالم کی غیبت کی اور اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑدیا اور دوسرے مکانوں میں اس امام کو جو کھانا وغیرہ مقرر تھے اس نے ان لوگوں سے امام کی برائیاں بیان کرکے سب موقوف کرادیا جب لوگوں نے اس امام کی برائی پر گواہ طلب کیا وہ قاصر ہوگیا۔ ان سب صورتوں میں وہ مرتکب گناہ کبیرہ ہوا یا نہیں؟ برتقدیر اول حسب شرع اس پر کیا سزا لازم آتی ہے ؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : یہ سوال سب مجمل ہے او ر حال زمانہ مختل ہے۔ سب لوگ عالم کہلاتے ہیں اور وہ بوجہ وغیرہ بدمذہب ہونے کے ہزار درجہ فاسق جاہل ہے بد تر ہیں اور آج کل وہابیہ وغیرہم مبتدعین میں تقیہ بہت رائج ہےخصوصا جہاں روٹی کا معاملہ ہو، روتی کےلئے دین بیچنا ان کے نزدیک بہت آسان بات ہے۔ معاملہ غیر ملک کا ہے۔ اور غیب کا علم خدا کو ہے اگر صورت واقعہ کہیں یہی ہوں کہ عالم بننے والا پیش امام تقیہ کئے ہوئے سنیوں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہو اور کسی سنی کو اس کے حال باطن پر اطلاع ہوگئی تو اس کی تشہیر اور اس کے اخراج کی تدبیر جو کچھ اس سنی نے کی اس پر اجر عظیم کا مستحق ہے اور گواہ نہ پاسکا کہ تقیہ والوں کی حالت پر گواہوں کا ملنا بہت دشوار ہوتاہے تو اس پر کوئی الزام نہیں،
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اترعون عن ذکر الفاجر متی یعرفہ الناس اذکروا الفاجر بما فیہ یحذرہ الناس ۱؎۔
کیا تم بدکار کا تذکرہ کرنے کے سلسلے میں رعایت کرتے ہو تو پھر لوگ اسے کب پہچانیں گے لہذا بدکار جو جرم کرے اس کا ذکر کیا کرو تاکہ لوگ اس سے ہوشیار رہیں اور بچ سکیں۔ (ت)
(۱؎ تاریخ بغداد للبغدادی ترجمہ جارود بن یزیز ۷۳۴۵ و حسن بن احمد ۷۳۵۱ بیروت ۷/ ۲۶۲ و ۲۶۸) (تاریخ بغداد للبغدادی ترجمہ محمد بن احمد ۳۴۸ دارالکتب العربی بیروت ۱/ ۳۸۲)
اور اگر واقع میں وہ عالم سنی ہے، اور اس نے جس عیب کی اشاعت کی اس کے سبب سے مسلمانوں کو ضرر تھا اور اطلاع دینے میں اس کا دفع تھا اور اس نے اس کے ضرر ہی کی نیت سے محض بغرض خیر خواہی مسلمین یہ کاروائی کی جب بھی اس پر الزام نہیں نہ شرعا ایسی غیبت ممنوع ہے اوراگریہ بھی نہ تھا بلکہ صرف اس عالم کی غیبت چنی اور اسے ضرر رسانی کی غرض سے ایسی حرکت کی تو یہ شخص سخت کبیرکا مرتکب ہے اور حاکم شرع کے حضور سخت سزا کا مستحق ہے۔
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
ثلثۃ لایستخف بحقھم الامنافق ذوالعلم وذوالشیبۃ فی الاسلام وامام مقسط ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
تین شخصوں کا حق ہلکا نہ جائے گا مگر منافق ایک عالم، دوسرا وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا، تیسرا بادشاہ اسلام عادل ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۷۸۱۸ المکتبۃ الفیصلیۃبیروت ۸/ ۲۱۳۸)
مسئلہ ۳: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ذیل میں کہ زید امامت کا بہت شائق ہے جس وقت مقررہ (امام) مسجد نہیں ہوتے ہیں وہ تو وہ باوصف اس کے کہ اس سے (افضل) جماعت میں ہوتے ہیں خود جرأت کرکے مصلی امام پر لپک جاتاہے اکثر نمازی اس کی اقتداء سے متنفر ہوکر علیحدہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی سچی شہادتوں سے تحقیق ہوچکا ہے کہ زید ولدالزنا ہے علاوہ اس کے جھوٹی گواہیاں عدالتوں میں دیتاہے اور لباس وصورت اس کی خلاف شر ع ہے لیکن بعض شخص بوجہ عدم واقفیت اور بعض بسبب قرابت ورعایت کے سکوت کرکے اقتدا کرلیتے ہیں اس کی صورت اور لباس کا نقشہ یہ ہے سر کے بال کترے ہوئے، نہ منڈائے نہ دراز، داڑھی ایک مشت سے کم جس پر سیاہ خضاب، لباس اچکن بٹن دار،جیب گھڑی لگی ہوئی، پاجامہ نیچا، ٹخنے چھپے ہوئے، پاؤں میں بوٹ، بائیں ہاتھ میں کبڑی لکڑی ہے اور وہ علم اور تعزیوں اور میلوں میں جایاکرتاہے اوررقص و نشاط کے جلسوں میں بھی شریک رہتاہے بلکہ اپنے یہاں کی تقریبوں میں ڈھول باجا ناچ رنگ کراتاہے حضرت محمد شیر میاں مرحوم کا مرید ہے صرف اس بیعت سے اپنے آپ کو افضل الخلائق گمان کرتاہے اور قابل الامامت سمجھتاہے اگر انصاف کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو پیر کی بھی اطاعت اس میں مطلق نہیں ہے کیا ایسا شخص جو عقیدہ اور عمل اور صورتا اور سیرتا زید جیسا ہو امامت کے اور اہتمام مسجد کے قابل شرعا ہو سکتا ہے اور کیا ان لوگوں کی نماز جو اس کی اقتداء کرتے ہیں فساد وکراہت سے خالی ہو گی احکام شرع مبین جواب تحریر فرمائیں اور زید فرائض وواجبات اور سنن اور مکروہات ومفسدات نماز نہیں جانتا ہے۔
الجواب: سر کے بال ترشواکرچھوٹے چھوٹے رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کہ خلاف ستن ہے اور پائچے ٹخنے سے نیچے بھی مکروہ تنزیہی یعنی صرف خلاف اولٰی جبکہ بہ نیت تکبر نہ ہو
صرح بہ فی العلمیگیریۃ ۱؎ وفیہ حدیث فی صحیح البخاری انک لست ممن یصنعہ خیلاء ۲؎۔
فتاوٰ ی عالمگیری میں (مسئلہ مذکور ہ کی) تصریح کی گئی اور اس بارے میں صحیح بخاری کی حدیث موجود ہے تم ان لوگوں میں سے نہیں جو بربنائے تکبر تخنوں سے نیچے ازارلٹکاتے ہیں۔ (ت) [حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوال پر حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایاتھا]
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۳۳) (۲؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب من جرازارہ من غیر خیلاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۶۰)
اور ولد الزناء کے پیچھے بنی نماز مکروہ تنزیہی ہے جبکہ وہ سب حاضرین سے مسائل نماز وطہارت کا علم زیادہ نہ رکھتا ہو اورکبڑی لکڑی بھی رکھنا فی نفسہٖ بُرا نہیں جبکہ نیچریہ ونصارٰی سے تشبہ مقصود نہ ہو اور بٹن دار اچکن اور جیب اور اس کی گھڑی مباح ہے مگر انگریزی وضع کا بوٹ ممنوع ہے اور داڑھی کترواکر ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہے سیاہ خضاب حرام ہے، عَلَم تعزیوں اور فسق کے میلوں اور رقص کے جلسوں میں جانا حرام ہے۔ اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔ ان افعال کا مرتکب ضروف فاسق معلن ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنا جائز نہیں اور پڑھی ہو تو پھیرنا واجب ہے نہ ایسے شخص کو مہتمم مسجد بنانے کی اجازت واللہ تعالٰی اعلم۔