(۱۰) یوہیں چاندی کی پیٹی (۱۱) کمر بند (۱۲) تلوار کا پرتلا جائز
فی الدرالمختار ولا یتحلی الرجل بذھب وفضۃ مطلقا الا بخاتم ومنطقۃ وحلیۃ سیف منھا ای الفضۃ ۲؎ اھ، وفی ردالمحتار وحمائلہ من جملۃ حلیتہ شرنبلالیۃ اھ قلت ومثلہ للطحطاوی عن ابن السعود عن الشرنبلالی عن البزازیۃ وعنہا نقل فی الہندیۃ وقال فی الغرائب لاباس باستعمال منطقۃ حلقنا ھافضۃ ۳؎۔
درمختار میں ہے کوئی آدمی مطلقا سونے اور چاندی کا زیور نہ پہنے بجز چاندی کی انگوٹھی کے یا کمر بند (پیٹی یا بیلٹ) اور تلوار کو دستہ بھی استعمال کرنا مذکورہ دھاتوں کے سے جائز ہے اھ۔ ردالمحتار (فتاوٰی شامی) میں ہے کہ تلوار کا پر تلا از قسم زیورہے۔ شربنلالیہ۔ قلت (میں کہتاہوں) یوں ہی طحطاوی میں مذکور ہے ابوالسعود بحوالہ شربنلالی اس نے فتاوٰی بزازیہ سے اس سے فتاوٰی ہندیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ الغرائب میں فرمایا ایسے کمر بند (پیٹی یاا بیلٹ) کے استعمال کرنے کوئی حرج نہیں ہے ،
(۲؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۴۰)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراھیۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۳۲)
(حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس درالمعرفۃ بیروت ۴ /۱۸۰)
(۱۳) ہلتے دانتوں میں چاندی کا تارباندھنا۔
(۱۴) افتادہ دانت کی جگہ چاندی کا دانت لگانا جائز، اور امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک سونے کے تار اور دانت بھی روا۔
فی الدرالمختار لایشد سنہ المتحرک بذھب بل بفضۃ وجوز ھما محمد ۱؎ اھ وفی ردالمحتار عن التاتارخانیۃ جدع اذ نہ او سقط سنہ فعند الامام یتخذ ذٰلک من الفضۃ فقط وعند محمد من الذھب ایضا ۲؎ اھ ملخصا۔
درمختار میں ہے کہ ہلتے ہوئے دانت چاندی سے نہ کہ سونے کی تاروں سے مضبوط نہ کئے جائیں لیکن امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے دونوں سے جائز قرار د یاہے فتاوی شامی میں تتارخانیہ سے نقل کیا گیا ہے کہ کان کٹ جائے یا دانت گر جائے تو امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ صرف چاندی کے بنا کر لگائے جائیں جبکہ امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نزدیک سونے کے لگانے بھی جائز ہیں اھ ملخصا۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۴۰)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس دارحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۳۱)
(۱۵) صاحبین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما حالت جہاد میں سونے چاندی کے خود، زرہ، دستانے بھی جائز رکھتے ہیں مگر امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ناجائز۔
فی االدرالمختار استثنی القہستانی وغیرہ استعمال البیضۃ والجوشن والساعدان منہما فی الحرب للضرورۃ ۳؎ اھ وفی خزانۃ المفتین لاباس بالجوشن والبیضۃ من الذھب و الفضۃ فی الحرب ۴؎ اھ وفی ردالمحتار قال فی الذخیرۃ قالوا ھذا قولھما ۵؎ الخ۔
درمختار میں ہے قہستانی وغیرہ نے جنگی ضرورت کے پیش نظر سونے چاندی کا خود ، ذرہ، اور دستانوں کا استعمال جائز قرار دیا ہے خزانۃ المفتین میں ہے جنگ میں سونے چاندی کی زرہ اور خود کے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور ردالمحتار میں ہے کہ ذخیرہ میں فرمایا گیا کہ لوگوں نے کہاں ہے کہ یہ قول امام صاحب کے دو (مایہ ناز) شاگردوں قاضی امام ابویوسف اور امام محمد کا ہے الخ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۶)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ بحوالہ خزانۃ المفتین کتاب الکراھیۃ الباب العاشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۳۵)
(۵؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ دراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۱۸)
اس تفصیل سے بحمدہٖ اللہ تعالٰی نے اس تحریم مطلق کا بطلان بھی واضح ہوااور تمام اور مسئلہ کا جواب بھی لائح واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۸ : از مارہرہ مطہرہ مسئولہ ابوالقاسم حضرت سید اسمعیل صاحب دامت برکاتہم ۲۷ محرم ۱۳۰۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چاندی سونے کی گھڑیاں رکھنا یا سیم وزر کے چراغ میں بغرض بعض اعمال کے فتیلہ روشن کرنا جس سے روشنی لینا کہ مقصود متعارف چراغ ہے مردا نہیں ہوتا بلکہ قوت عمل وسرعت اثر وتنبیہ موکلات مقصو د ہوتی ہے۔ جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ)
الجواب
دونوں ممنوع ہیں، علامہ سید احمد طحطاوی حاشیہ درمختارمیں فرماتے ہیں :
قال العلامۃ الوافی المنھی عنہ استعمال الذھب والفضۃ اذالاصل فی ھذا الباب قولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام ھذان حرامان علی ذکور امتی حل لاناثھم ولما بین ان المراد من قولہ حل لاناثھم مایکون حلیا لھن بقی ماعداہ علی حرمتہ سواء استعمل بالذات اوبالواسطۃ اھ واقرہ العلامۃ نوح و ایدہ باطلاق الاحادیث الواردۃ فی ھذا الباب اھ ابوا لسعود ومنہ تعلم حرمۃ استعمال ظروف فناجین القھوۃ والساعات من الذھب والفضۃ ۱؎ اھ ملخصا۔
علامہ وافی نے فرمایا کہ سونے چاندی کا استعمال ممنوع ہے اس لئے کہ اصل اس باب میں حضور علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے : یعنی سونا، چاندی دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں البتہ ان کی عورتوں کے لئے حلال ہیں اور جب یہ بیان کیا گیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد ''حل لاناثھم'' (ان کی عورتوں کے لئے حلال ہیں۔ ت) سے مراد وہ سونا ،چاندی ہے جو عورتوں کے لئے بطور زیور ہو، توپھر اس کے علاوہ باقی سونا چاندی خواہ بالذات استعمال کیا جائے یا بالواسطہ، اپنی حرمت پر رہے گا اھ علامہ نوح نے اسی کو برقرار رکھا اور مطلق حدیثوں سے اس کی تائید کی جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں۔ ابوسعود کی عبارت پوری ہوئی۔ لہذا اس سے قہوہ کی پیالیوں اور سونے چاندی کی گھڑیوں کی حرمت معلوم ہوئی۔ تلخیص پوری ہوگئی۔ (ت)
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۱۷۲)
علامہ شامی ردالمحتار میں ان تصریحات علامہ طحطاوی کو ذکر کرکے فرماتے ہیں:
وھو ظاھر ۱؎
(اور یہ ظاہر ہے ۔ ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۱۹)
اسی میں ہے :
الذی کلۃ فضۃ یحرم استعمال بای وجہ کان کما قد مناہ ولو بلامس بالجسد ولذا حرم ایقاد العود فی مجمرۃ الفضۃ کما صرح بہ فی الخلاصۃ ومثلہ بالاولٰی ظروف فنجان القہوۃ والساعۃ وقدرۃ التنباک التی یوضع فیہا الماء وان کان لایمسھا بیدہ ولا بفمہ لان استعمال فیما صنعت لہ ۲؎ الخ۔
جو چیز مکمل چاندی ہے جس طریقے سے بھی اس کا استعمال کیا جائے حرام ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا اگر چہ جس سے مس نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ چاندی کی انگیٹھی میں ''عود'' جلانا حرام ہے جیسا کہ خلاصہ میں اس کی تصریح کی گئی اوریہ بطریق اولٰی اس کی طرح ہے کہ قہوے کی پیالیاں گھڑی اور حقہ کے زیریں حصہ کا استعمال جس میں پانی ڈالا جاتاہے اگر چہ اسے ہاتھ یا منہ سے مس نہ کرے اس لئے کہ جس مقصد کے لئے یہ چیزیں بنائی گئیں ان میں ان کا استعمال ہورہا ہے۔ الخ (ت)
(۲؎ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۔ ۲۱۸)
اوریہ عذر کہ چراغ استصباح یعنی روشنی لینے کے لئے ہوتا ہے اوریہاں اس نیت سے مستعمل نہیں تو جوازچاہیے۔
لما فی الدرالمختار ان ھذا استعملت ابتداء فیما صنعت لہ بحسب متعارف الناس والا فلا کراھۃ ۳؎۔
اس دلیل سے کہ درمختار میں ہے کہ یہ حکم رتب ہے جب ابتداء جس مقصد کے لئے چیز بنائی گئی لوگوں کے تعارف کے مطابق اس میں استعمال کی جائے ورنہ کراہت نہ ہوگی۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۶)
نامقبول ہے کہ اولا عندالتحقیق مطلق استعمال ممنوع ہے اگر چہ خلاف متعارف ہے
لا طلاق الا حادیث والادلۃ کما مر
(اس لئے کہ اس باب میں احادیث اور دلائل بغیر کسی قید کے مطلق ہیں۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ۔ ت) کٹو را پانی پینے کے لئے بنتاہے اور رکابی کھانا کھانے کو، پھر کوئی نہ کہے گا کہ چاندی سونے کے کٹورے میں کھانا کھانا یا اس کی رکابی میں پانی پینا جائز ہے۔
علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں :
ماذکرہ فی الدرر من اناطۃ الحرمۃ بالاستعمال فیما صنعت لہ عرفا فیہ نظر فانہ یقتضی انہ لو شرب او اغتسل بانیۃ الدھن او الطعام انہ لایحرم مع ان ذٰلک استعمال بلاشبھۃ داخل تحت اطلاق المتون و الادلۃ الواردۃ فی ذٰلک ۱؎ الخ۔
جو کچھ درر میں بیان فرمایا کہ حرمت کا مدار عرفا اس کی بناوٹ کے مطابق استعمال کرنے پر ہے۔ اس پر ایک اشکال ہے اس لئے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی پانی پئے، یا غسل کرے تیل اور کھانے کے برتن میں توحرمت نہ ہوں حالانکہ یہ بلا شبہہ استعمال ان متون اور دلائل کے اطلاق کے نیچے داخل ہے جو اس سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں الخ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۱۷)
ثانیا استصباح چراغ خانہ سے مقصود ہوتاہے یہ چراغ اس غرض کے لئے بنتاہی نہیں، اور جس غرض کے لئے بنتاہے اس میں استعمال قطعا متحقق تو استعمال فیما صنح لہ موجود ہے اورحکم تحریم سے مفر مفقود ہاں اگر سونے یا چاندی کی قلعی کرلیں تو کچھ حرج نہیں۔
علامہ عینی فرماتے ہیں :
اما التمویہ الذی لایخلص فلا باس بہ بالاجماع لانہ مستھلک فلا عبرۃ ببقائہ لو نا۲؎ انتہی واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب و الیہ المرجع والمآب۔
رہی وہ ملمع سازی کہ جس کا چھٹکارا نہ ہو تو بالاجماع اس کے ہونے میں کچھ حرج نہیں اس لئے کہ وہ اصالتا ہلاک شدہ ہے لہذا اس کی رنگت کا باقی رہنا معتبر نہیں۔ عبارت پوری ہوئی۔ اور اللہ تعالٰی ٹھیک بات کو خوب جانتاہے اور اسی کی طرف جائے رجوع اور ٹھکانہ ہے۔ (ت)
(۲؎ البنایۃ فی شرح الہدایۃ کتاب الکراھیۃ المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمہ ۴ /۱۹۸)