Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
8 - 146
وفی ردالمحتار قولہ مفضض وفی حکمہ المذھب قہستانی قولہ ای مزوق وفسرہ الشمنی بالمرصع بھا قال فی غرر الافکار یجتنب فی المصحف ونحوہ موضع الاخذ وفی السرج ونحوہ موضع الجلوس وفی الرکاب موضع الرجل و فی الاناء موضع الفم ونحوہ فی ایضاح الا صلاح ویجتنب فی النصل والقبضۃ واللجام موضع الید فالحاصل ان المراد الاتقاء بالعضو الذی یقصد الاستعمال بہ ففی الشرب لما کان المقصود الاستعمال بالفم اعتبر الاتقاء بہ دون الید، ولا یخفی ان الکلام فی المفضض والا فالذی کلہ فضۃ یحرم استعمالہ بای وجہ کان ولو بلامس بالجسد بخلاف القصب الذی یلف علی طرف قبضۃ النتن فانہ تزویق فھو من المفضض فیعتبر اتقاؤہ بالید والفم ولایشبہ ذٰلک مایکون کلہ فضۃ کما ھو صریح کلامھم وھو ظاھر قولہ المضبب ای مشدد بالضباب وھی الحدیدۃ العریضۃ التی یضبب بھا وضبب بالفضۃ شدبھا مغرب ،قولہ وحلیۃ مرأۃ الذی فی المنح والہدایۃ وغیرھما حلقۃ بالقاف قال فی الکفایۃ والمراد بہا التی تکون حوالی المرأۃ لا ماتاخذ المراٰۃ بیدھا فانہ مکروہ اتفاقا ۱؎ اھ ملتقطا وفی الہندیۃ لاباس بالمضبب من السریر اذالم یقعد علی الذھب والفضۃ وکذا الثغر۲؎ اھ ملخصا۔
ردالمحتار میں ہے مصنف کا قول ای مزوق ،علامہ شمنی نے اس کی تشریح''المرصع''(یعنی اس پر چاندی کا جڑاؤ ہو) سے فرمائی یعنی وہ جس پر چاندی جڑی ہوئی ہو، غرر الافکار میں فرمایا مصحف اور اس جیسی کسی چیز (جس پر ہاتھ رکھنے والی جگہ پر سونا چاندی پیوستہ ہو) تو اس کے پکڑنے میں پرہیز کرے اور سونے چاندی کو مس نہ کرے۔ اسی طرح زین یا کرسی جس کے بیٹھنے کی جگہ پر سونا چاندی لگا ہو تو اس سے پرہیز کرے یعنی اس پر نہ بیٹھنے اور رکاب میں پاؤں والی جگہ سونا چاندی ہو ت پاؤں نہ رکھے۔ اوربرتن میں منہ لگانے کی جگہ سونا چاندی ہو تو منہ نہ لگائے یعنی استعمال نہ کرے۔ اور اسی طرح ایضاح الاصلاح میں ہے تیر کے پھل۔ تلوار کے دستے اور لگام کوبھی بایں وجہ ہاتھ نہ لگائے اور اس سے بچے۔ حاصل کلام، یہ ہوا کہ اس حصہ جسم اور عضو کو بچایا جائے جو کسی شے کے استعمال کرنے میں مقصود ہوتاہے۔ چونکہ پینے کے لئے منہ کا استعمال مقصود ہوتاہے لہذا اس کے بچاؤ کا اعتبار ہوگا نہ کہ ہاتھ کا ، اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ کلام سونے اور چاندی کی ملمع کاری میں ہے ورنہ جو چیز تمام کی تمام چاندی کی ہو اس کا استعمال تو سرے سے حرام ہے خواہ استعمال ہاتھ سے ہو یا بغیر ہاتھ لگائے ہو بخلاف اس کا نے کے جو تمباکو کے کانے کے کنارے پر لپیٹ دیا جاتاہے کیونہ وہ ''تزویق'' ہے جو مفضض میں شامل ہے لہذا ہاتھ اور منہ سے اس کے بچاؤ کا اعتبار ہوگا اور یہ اس کے مشابہ نہیں جو تمام چاندی ہو جیسا کہ فقہائے کرام کا صریح کلام ہے اوریہی ظاہر ہے مصنف کا ارشاد المضبب یعنی ضباب کے ساتھ باندھاہوا۔ اور ضباب وہ چوڑا لوہا ہوتاہے جس کے ساتھ کسی چیز کو باندھا جاتاہے ''ضبب بالفضۃ'' کے معنی ہیں چاندی کے ساتھ باندھا گیا (مغرب) قولہ حلیۃ المرأۃ منح الغفار اور ہدایہ وغیرہ میں یہ لفظ حلقۃ صرف قاف کے ساتھ ہے۔ الکفایۃ میں فرمایا کہ اس سے شیشے کا آس پاس (یعنی چاروں اطراف) مراد ہیں نہ کہ وہ جگہ جس کو عورت اپنے ہاتھ سے پکڑتی ہے کیونکہ وہ تو بالاتفاق مکروہ ہے (ملحض مکمل ہوا) فتاوٰی ہندیہ میں ہے کہ سونے چاندی کے تاروں سے جڑا اور کسا ہوا تخت استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ سونے چاندی والی جگہ پر بیٹھنے سے پرہیز کرے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ     داراحیاء التراث العربی بیرت    ۷ /۲۱۸و ۲۱۸)

(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتا ب الکراھیۃ الباب العاشر نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۴)
یہاں تک جن چیزوں کا جواز بیان ہوا یہ سب اور ان کے سوا بعض اور بھی چاندی سونے دونوں کی جائز ہیں۔ اور بعض اشیاء وہ ہیں کہ سونے کی حرام اور چاندی کی جائز انھیں میں انگشتری ہے جس سے سائل نے سوال کیا۔ شرعا چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی کہ وزن میں ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو پہننا جائز ہے اگر چہ بے حاجت مہر اس کا ترک افضل ہے۔ اور مہر کی غرض سے خالی جواز نہیں بلکہ سنت ہے ہاں تکبر یا زنانہ پن کا سنگار یا اور کوئی غرض مذموم نیت میں ہو تو ایک انگوٹھی کیااس نیت سے اچھے کپڑے پہننے بھی جائز نہیں اس کی بات جدا ہے۔ یہ قید ہر جگہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ سارا دارومدارنیت پر ہے۔
فی الدرالمختار یتحلی الرجل بخاتم فضۃ اذالم یرد بہ التزین ویحرم بغیرھا وترک التختم لغیر ذی حاجۃ افضل وکل مافعل تجبرا کرہ وما فعل لحاجۃ لا ۱؎ اھ، ملتقطا،
درمختار میں ہے کہ آدمی چاندی کی انگوٹھی پہن سکتاہے بشرطیکہ نیت زیب وزنیت کی نہ ہو، اور چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی انگوٹھیاں پہننا حرام ہے۔ جس کو پہنے کی ضرورت نہ ہو اس کے لئے انگوٹھی نہ پہننا زیادہ بہتر ہے اور جو کام تکبر کی وجہ سے کیا جائے مکروہ ہے اور جو کام کسی ضرورت کے تحت کیا جائے وہ مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
 (۱؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی اللبس     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۴۰)
وفی الہندیۃ لبس الثیاب الجمیلۃ مباح اذ الم یتکبر وتفسیرہ ان یکون معہا کما کان قبلھا کذا فی السراجیہ ۲؎ اھ،
فتاوٰی ہندیہ میں ہے کہ اچھا لباس پہننا مباح ہے جبکہ تکبرنہ کیا جائے اور تکبر نہ ہونے کی تشریح یا علامت یہ ہے کہ عمدہ لباس پہننے کے بعد بھی وہی حالت و کیفیت ہو جو پہلے تھی۔ یونہی سراجیہ میں بھی مذکور ہے،
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الکراھیۃ الباب التاسع     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۳۳۲)
اقول : وبما فسرت التزین ظھر الجواب عما اورد العلامۃ الشامی علی استثنائہ انہ سیاتی ان ترک التختم لمن لایحتاج الی الختم افضل وظاھر ہ انہ لایکرہ للزینۃ بلا تجبر ۳؎ اھ یعنی ان المسئلۃ تفید الجواز من دون حاجۃ الختم وح لم یبق غرض الاالتزین ورأیتنی کتبت علی ہامشہ مانصہ  اقول: قد فرق وان مسئلۃ الاکتحال بین الزینۃ والجمال فہلا یراد بہ مثلہ بھا فیباح التجمل دون الترین ۱؎ اھ وحاصل مااشرت الیہ ان الزینۃ تطلق ویراد بہا مایعم الجمال وھو جائز بل مندوب الیہ بنیۃ حسنۃ فان اﷲ جمیل یحب الجمال وھو اثرادب النفس وسہا متھا وتطلق ویراد بہا ماینحو التخنث والتصنع مثل المرأۃ وھو مذموم ودلیل علی ضعف النفس ودناء تھا ویرشدک الی الاطلاقین قول علمائنا لایکرہ دھن شارب ولا کحل اذا لم یقصد الزینۃ ۲؎ وقولھم کما فی الفتح بالخضاب وردت السنۃ ولم یکن لقصد الزینۃ ۳؎مع قولہ تعالٰی قل من حرم زینۃ اﷲ ۴؎ فلیکن المراد ھناھو المعنی الثانی فلا ایراد ولاتخالف واﷲ تعالٰی الموفق ھذا فی ردالمحتار التختم سنۃ لمن یحتاج الیہ کما فی الاختیار وانما یجوز التختم بالفضۃ لو علی ھیأۃ خاتم الرجال امالو لہ فصان اواکثر حرم ۱؎ اھ ملخصا۔
میں کہتاہوں کہ جو کچھ میں نے ''تزئین'' کی تشریح کی ہے اس کے استثناء تزئین پر علامہ شامی کے اشکال کا جواب واضح ہوگیا کہ عنقریب آئیگا کہ بغیر حاجت انگوٹھی نہ پہننا (ترک تختم) انگوٹھی پہننے سے بہتر ہے اس سے ظاہر ہے کہ زینت کے لئے پہننا مکروہ نہیں اھ یعنی اس مسئلہ سے معلوم ہوتاہے کہ بغیر حاجت انگوٹھی پہننے سے زیب وزینت کے علاوہ کوئی غرض نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس کے حاشیہ پر لکھا جس کی عبارت یہ ہےاقول: (میں کہتاہوں اہل علم نے سرمہ کے مسئلے میں زینت اور جمال کے درمیان فرق کیا ہے پس یہی معنی ممانثل یہاں کیوں نہیں مرادلیا جاتا۔ لہذا تجمل کے لئے یہ کام مباح ہو نہ کہ زیب وزینت کے لئے اھ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کبھی لفظ زینت بول کر اس سے وہ معنی مراد لیا جاتاہے جو لفظ جمال سے لیا جاتاہے اور وہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ بشرطیکہ نیت اچھی ہو کیونکہ اللہ تعالٰی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتاہے یہ ادب نفس اور اس کے حصہ کا اثر ہے کبھی لفظ زینت کااطلاق کیا جاتاہے اور اس سے تخنث (ہیجڑاپن) اور تصنع (بناوٹ و نمائش) کا مفہوم مراد ہوتاہے۔ جیسا کہ یہ جذبہ عورتوں میں زیادہ پایاجاتاہے۔ اور یہ مذموم ہے اور نفس کی کمزوری، کمینگی اور گھٹیا پن کی علامت ہے۔ پس علمائے کرام کی طرف سے ان الفاظ کے دونوں اطلاق کی وضاحت تمھاری راہنمائی کرے گی۔ مونچھوں کو تیل لگانا اور سرمہ آنکھوں میں لگانا مکروہ نہیں جبکہ زینب وزینت مقصو د نہ ہو، فتح القدیر میں ہے کہ خضاب لگانے کا ذکر حدیث میں وادرد ہو اہے جبکہ زینت کے ارادہ سے نہ ہو باوجود یہ کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ''کس نے اللہ تعالٰی کی زینت کو حرام ٹھہرایا ہے'' اللہ تعالٰی ہی اس کی توفیق دینے والا ہے۔ ردالمحتار میں ہے کہ عورتوں کے لئے انگوٹھی پہننا سنت ہے انھیں اس کی ضرورت اور حتیاج ہوتی ہے جیسا کہ الاختیار میں ہے چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لئے جائز ہے بشرطیکہ انگوٹھی مردانہ وضع کی ہو اور اس کے نگینے دو یا دو سے زیادہ ہوں تو اس کا استعمال ممنوع اور حرام ہے اھ ملخصا (ت)
 (۳؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃفصل فی اللبس     دراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۹) 

(۱؎ جدالممتار علی ردالمحتار)

(۲؎ الدالمختار     کتا ب الصوم  باب مایفسد الصوم وما لایفسد الصوم    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۵۲)

(۳؎ فتح القدیر    کتا ب الصوم  باب مایوجب القضاء والکفارۃ         مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲ /۲۷۰)

(۴؎ القرآن الکریم   ۷ /۳۲) 

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس     دراحیاء التراث لعربی بیروت    ۵ /۲۳۱)
Flag Counter