Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
7 - 146
وفی ردالمحتار العلم عندنا یدخل فیہ السجاف وما یخیط علی اطراف الاکمام ومایجعل فی طوق الجبۃ وھو المسمی قبۃ وکذا العروۃ و الزر و مثلہ فیہا یظھر طرۃ الطربوش ای القلنسوۃ مالم تزد علی عرض اربع اصابع وما علی اکناف العباءۃ علی ظھرہا وما فی اطراف الشاش سواء کان تطریزا بالابرۃ اونسجا وما یرکب فی اطراف العمامۃ المسمی صجقا فجمیع ذٰلک لاباس بہ اذا کان عرض اربع اصابع وان زاد علی طولھا و فاذا کانت منقشۃ بالحریر وکان احد نقوشہا اکثر من اربع اصابع لاتحل و ان کان اقل تحل وان زاد مجموع نقوشہا علی اربع اصابع، وفی الہندیۃ تکرہ عصابۃ المفتصد وان کانت اقل من اربع اصابع لان اصل بنفسہ کذا فی التمرتاشی اھ ط ۱؎ اھ ملتقطا، اقول وما وقف علیہ ط وامر بتحریرہ فھو بحمد اﷲ تعالٰی محرر عندی لاشبھۃ فیہ و لقدرأیتنی کتبت علی ھامشی نسختی ردالمحتار عند قولہ وھل حکم المتفرق، الخ۔ مانصہ، اقول : معلوم ان الحریر والذھب والفضۃ کلھا متساویۃ فی حرمۃ البس حیث حرم فالترخیص فی لبس الحریر ترخیص فیہما واﷲ تعالٰی اعلم ۲؎ اھ۔ ثم رأیت العلامۃ الشامی ذکر بعد نحو ورقتین عین ماذکرتہ وﷲ الحمد حیث قال ''قد استوی کل من الذھب والفضۃ والحریر فی الحرمۃ فترخیص العلم و الکفاف من الحریر تر خیص لہما من غیرہ ایضا بدلالۃ المساواۃ ویؤید عدم الفرق مامر من اباحۃ الثوب المنسوج من ذھب اربعۃ اصابع وکذا کتابۃ الثوب بذھب او فضۃ ۱؎ الخ ۔ فہذا تحریرہ وﷲ الحمد۔
فتاوٰی شامی میں ہمارے نزدیک نقوش میں نقش ونگار پردے کے بھی داخل ہیں اور وہ جس کی آستینوں پر سلائی کی گئی ہو اور جو کچھ طوق جبہ پر کام کیا گیا جس کو ''قبہ'' کہاجاتاہے اور اسی طرح تکمہ اور گھنڈی، اور یہی حکم ظاہر ہوتاہے ٹوپی کے کناروں پر نقش ونگار کا جبکہ وہ چوڑائی میں چار انگشت کی مقدار سے زیادہ نہ ہوں۔ اور جو کچھ گڈری کے کناروں اور اس کے پشت پر ہو اور جو کچھ سنہری نقش دار لباس کے کناروں پر کام کیا ہوا ہو، خواہ سوئی کے ساتھ بیل بوٹے بنائے گئے ہوں، چاہے بنے ہوئے ہوں یا پگڑی کے کناروں میں جس کو ''صجق'' کہا جاتاہے جوڑے گئے ہوں ان سب میں حرج نہیں۔ بشرطیکہ چوڑائی میں بمقدار چار انگلی ہوں اگرچہ اس پر یشمی نقوش ہوں اور اس کا کوئی ایک نقش چار انگلیوں کی مقدار سے زیادہ ہوں تو جائز نہیں اور اگر کم ہو تو جائز ہے اگر چہ اس کے مجموعی نقوش چار انگلیوں کی مقدار سے بڑھ جائیں۔ فتاوٰی ہندیہ یعنی عالمگیری میں ہے پچھنے لگوانے والے کی پٹی اگر چارا نگلیوں کی مقدار سے کم ریشمی ہوں تب بھی اس کا استعمال مکروہ ہے (اس لئے کہ وہ تابع نہیں۔ بلکہ خود بذتہ، اصل ہے یونہی تمر تاشی میں مذکور ہے (طحطاوی کی عبارت پوری ہوگئی)۔ میں (مراد صاحب فتاوٰی) کہتاہوں کہ جس میں علامہ طحطاوی نے توقف کیا تھا اور اس کی تحریر کا حکم دیا تھا بحمداللہ تعالٰی وہ میرے نزدیک محرر ہے جس میں کوئی شبہہ نہیں۔ بیشک میں نے ردالمحتار کے اپنے نسخہ کے حاشیہ میں علامہ موصوف کے قول ھل حکم المتفرق الخ جس کی موصوف نے تصریح فرمائی، لکھا ہے۔ میں کہتاہوں یہ تو معلوم ہے کہ ریشم سونا اور چاندی پہننے کی حرمت برابر ہے۔ کیونکہ سب کا استعمال کرنا حرام ہے۔ لہذا ریشم کی رخصت ان سب کی رخصت ہے۔ اللہ تعالٰی خوب جانتاہے پھر میں نے علامہ شامی کو دیکھا کہ انھوں نے دو اوراق کے بعد بالکل وہی کچھ ذکر کیا جو کچھ میں نے ذکر کیا تھا اللہ تعالٰی ہی لائق حمدوثنا ہے۔ چنانچہ انھوں نےفرمایا سونا ، چاندی اور ریشم یہ سب حرام ہونے میں مساوی اور برابر ہیں۔ لہذا ریشمی نقش ونگار اور کفاف (کناروں کا مخطوط ہونا) کی رخصت دینا بعینہٖ سونے چاندی کی رخصت دینا ہے۔ کیونکہ دلالت حرمت میں یہ سب برابر ہیں، پس اس بات کی تائید گزشتہ عدم تفریق سے ہوتی ہے کہ سونے چاندی کے تاروں سے بنا ہوا کپڑا بمقدار چار انگشت مباح ہے اور سونے چاندی کی کتابت (تحریر) کابھی یہی حکم ہے۔ الخ۔ لہذا یہ ان کی تحریر ہے۔ خدا ہی کے لئے حمد وستائش ہے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی اللبس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۶۔ ۲۲۵)

(۲؎ جدالممتار علی ردالمحتار)

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۶)
ان عبارات سے بھی یہ واضح ہوا کہ چاندی سونے کے کام بشرائط مذکورہ ہر طرح جائز ہیں خواہ اصل کپڑے کی بناوٹ میں ہوں یا بعد کی کلابتوں کا مدانی وغیرہ سے بنائے جائیں خواہ کوئی جدا چیز۔ جیسے فیتوں۔ لیس، بیچک، بانکڑی وغیرہا ٹانکی جائے، ہاں یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ عورتوں یا بدوضع آوارہ فاسقوں کی مشابہت نہ پیدا ہو، مثلا مرد کو چولی دامن میں گوٹا پٹھا ٹانکنا مکروہ ہوگا اگر چہ چارانگلی سے زیادہ نہ ہو کہ وضع خاص فساق بلکہ زنانوں کی ہے۔ علماء فرماتے ہیں اگر کوئی شخص فاسقانہ وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے (جیسے ہمارے زمانے میں نیچری وردی) تو ددرزی اور موچی کو ان کا سینا مکروہ ہے کہ یہ معصیت پر اعانت ہے اس سے ثابت ہوا کہ فاسقانہ تراش کے کپڑے یا جوتے پہننا گناہ ہے۔
فی فتاوٰی الامام قاضیخاں ان الاسکاف اوالخیاط اذا استوجر علی خیاطۃ شیئ من ذی الفساق ویطعی لہ فی ذٰلک کثیرا جرلا یستحب لہ ان یعمل لانہ اعانۃ علی المعصیۃ ۲؎۔
امام قاضی خاں کے فتاوٰی میں ہے کہ موچی اور درزی اگر بدکار لوگوں کی وضع کے مطابق جوتے اور کپڑے تیار کرنے کی اجرت مانگے اور اسے اس کام پر بہت زیادہ اجرت دی جائے تو اس کے لئے یہ کام کرنا مستحب نہیں رہتا کیونکہ اس میں گناہ پر مدد کرنا پایا جاتاہے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان  کتاب الحظروالاباحۃ    فصل فی اللبس   مطبع نولکشور لکھنؤ        ۴ /۷۸۰)
(۷) وہ کپڑے پہننے جن پر سونے چاندی کے پانی سے لکھا ہوجائزہے۔

(۸) یوہی جائز الاستعمال برتنوں وغیرہ پر ان کا ملمع،
فی الہندیۃ لایکرہ لبس ثیاب کتب علیہا بالفضۃ والذھب وکذلک استعمال کل مموہ لانہ اذا زوب لم یخلص منہ شیئ کذا فی الینا بیع ۱؎ اھ وفی الدرحل کتابۃ الثوب بذھب اوفضۃ والمطلی لاباس بہ بالاجماع ۲؎ اھ ملخصا۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے ایسے کپڑے پہننے مکروہ نہیں کہ جن پر سونے یا چاندی سے کتابت کی گئی ہو اور اسی طرح تمام ملمع کاری والے کپڑوں کے استعمال کا یہی حکم ہے کیونکہ جب اسے ڈھالا جائےتو اس سے کچھ برآمد نہیں ہوتا ینابیع میں یہی مذکور ہے۔ درمختار میں ہے کہ کپڑے پرسونے چاندی کی کتابت جائز ہے اور ملمع کاری میں بالاجماع کوئی مضائقہ نہیں اھ ملتقطا (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الکراھیۃ     الباب العاشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۴)

(۲ ؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ   مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۳۷)
 (۹) اسی طرح کسی چیزمیں چاندی سونے کے تار پتر جوٹے ہونا بشرطیکہ وہ شیئ جس عضو سے استعمال میں آتی ہے اس عضو کی جگہ سے جدا ہوں مثلا گلاس یا کٹورے میں وہاں منہ لگا کر پانی نہ پئیں۔ تخت، پلنگ ، کرسی، کاٹھی میں موضع نشست پر نہ ہوں، رکاب میں پاؤں ان پر نہ رہے لگام، تلوار، نیزہ، تیر کمان، بندوق قلم، آئینہ کے گھرمیں ہاتھ کی گرفت سے الگ ہوں، دمچی پوزی میں چاندی سونے کے پھول جائز کہ وہ جسم لگنے کی جگہ نہیں۔ چھڑی میں نیچے کی شام روا اوپر کی ناجائز کہ وہ ہاتھ رکھنے کی جگہ ہے، حقہ میں چاندی سونے کی مُنہنال حرام کہ پینے میں اس سے منہ لگتاہے مگر دہن نَے سے نیچے سِر کی ہو کہ اسے منہ ہاتھ نہ لگایا جائے تو رواہ وعلی ہذا القیاس اشیائے کثیرہ جنھیں بعد علم قاعدہ فہیم آدمی سمجھ سکتاہے اسی قلیل سے تھیں کواڑوں ، صندوق، قلمدان، انگوٹھی کے رنگ میں سونے کی کیلیں جن کا ذکر اوپر گزرا۔
فی الدرالمختار حل الشرب من اناء مفضض ای مزوق بالفضۃ والرکوب علی سرج مفضض والجلوس علی کرسی مفضض لکن یشترط ان یتقی موضع الفضۃ بفم وجلوس ونحوہ وکذا الاناء المضبب بذھب اوفضۃ والکرسی المضبب بہما وحلیۃ مرأۃ و مصحف بہما کما لو جعلہ فی نصل سیف اوسکین اوقبضتہا او لجام او رکاب ولم یضع یدہ موضع الذھب والفضۃ ۱؎ اھ ملخصا،
درمختار میں ہے جس برتن پر چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہو اس سے پانی پینا جائز ہے اور چاندی کی ملمع کاری والی زین پر سوار ہونا اور اسی نوع کی کرسی پر بیٹھنا بھی جائز ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ جہاں چاندی پیوستہ ہو وہاں منہ نہ لگایا جائے اور نہ اس جگہ بیٹھے اورنہ سوار ہو، اسی طرح سے جس برتن سے سونا چاندی پیوستہ ہوں اور وہ کرسی جس پر یہ دونوں لگے ہوئے ہوں شیشہ اور مصحف جن پر سونے چاندی کا زیور لپٹا ہو، تلوار یا چھری کی دھار  یا ان دونوں کے دستے، لگان یا رکاب پر سونا چاندی لگے ہوں لیکن بوقت استعمال ان سے ہاتھ مس نہ ہوں تویہ سب جائز ہیں۔
 (۱؎ درمختار     کتا ب الحظرولاباحۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۳۶ و ۲۳۷)
Flag Counter