رسالہ
الطیب الوجیز فی امتعۃ الورق والابریز(۱۳۰۹ھ)
(سونے اور چاندی کی اشیاء کو استعمال کرنے کے بارے میں مزیدار مختصر کلام)
مسئلہ ۱۷ : از اکولہ صوبہ برابر مرسلہ حافظ یقین الدین صاحب ۲۷ رجب ۱۳۰۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ گھنڈی تکمہ یا بند کے عوض انگوکھے کرتے ہیں چاندی سونے کے بوتام بے زنجیر لگانے جائز ہیں یا نہیں؟ بعض صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے اور سونے چاندی کا استعمال مرد کو مطلقا حرام ہے۔ یہ قول صحیح ہے یا نہیں؟ اگر غلط ہے تو چاندی سونے کی کیا کیا چزیں استعمال کرنی مرد کو جائز ہیں؟ اور چاندی کی انگوٹھی میں کیا کیا شرطیں ہیں؟ بینوا توجروا (بیان کرو تاکہ اجر پاؤ۔ت )
الجواب
سونے چاندی کے بوتام بطور مذکور لگانے جائز ہیں جن کا جواز سیر کبیر وذخیرہ ومنتقی وتتارخانیہ ودرمختار وطحاوی وہندیہ وغیرہا کتب معتمدہ سے ثابت ۔
درمختارمیں ہے :
فی التتارخانیۃ عن السیر کبیر لاباس بازارالدیباج والذھب ۱؎۔
تتارخانیہ میں سیر کبیر سے نقل کیا گیا ہے کہ ریشم اور سونے کی گھنڈیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۹)
عالمگیری میں ہے :
لاباس بلبس الثوب فی غیر الحرب اذ اکان اررارہ دیبااور ذھب کذا فی الذخیرۃ ۱؎۔
جنگ کے بغیر ایسا کپڑا پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں جس کی گھنڈیاں ریشم یا سونے کی ہوں۔ اسی طرح ذخیرہ میں مذکور ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراھیۃ الباب التاسع فی اللبس نورانی کتب خانہ کراچی ۵ /۲۳۲)
اور سونے چاندی کا استعمال مرد کو مطلقا حرام ہو یہ صحیح نہیں۔ شر ع مطہر نے جہاں بے شمار صورتوں کی ممانعت فرمائی ہے وہاں بہت سی صورتوں کی اجازت بھی دی ہے۔ مثلا :
(۱) سونے کی گھنڈیاں
کما سمعت انفا
(جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔ ت)
(۲) سونے کا تکمہ،
فی الدرالمختار عن شرح الوھبانیۃ عن المنتقی لاباس بعروۃ القمیص وزرہ عن الحریر لانہ تبع ۲؎ الخ وستسمع فی اللبس ترخیص الحریر ترخیص النقدین بل سیأتیک نص المسئلۃ عن ردالمحتار۔
درمختار میں شرح وہبانیہ نے ''المنتقٰی'' سے نقل کیاہےکہ قمیص کا تکمہ اور اس کی گھنڈیاں ریشمی ہوں تو کوئی حرج نہیں کیونہ وہ تابع کی حیثیت رکھتی ہیں الخ۔ عنقریب تم سنوگے کہ ریشم کے پہننے میں رخصت دینا سونے چاندی (نقدین) کے استعمال کرنے کی سی رخصت ہے۔ عنقریب فتاوٰی شامی کے حوالے سے تمھارے پاس اس مسئلہ کی تصریح آئے گی۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۹)
(۳) انگوٹھی کے نگ میں سونے کی کیل۔
فی الدرحل مسمار الذھب فی حجر الفص ۲؎
(پتھر کے نگینے میں سونے کی کیل لگانا جائز ہے۔ ت)
(۳؎درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۴۰)
(۴) چاندی کی انگوٹھی کی انگشتری میں سونے کے دندانے۔
فی درالمحتار کا لاسنان المتخذۃ من الذھب علی حوالی خاتم الفضۃ فان الناس یجوز ونہ من غیر نکیر ویلبسون تلک الخواتم ۱؎۔
اوردالمحتار میں ہے کہ جیسے سونے کے دندانے چاند ی کی انگوٹھی کے آس پاس لگے ہوں تو جائز ہے کیونکہ لوگ بغیر کسی انکار کے اس کو جائز کہتے ہیں، اور اس قسم کی انگوٹھیاں پہنتے ہیں۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۳۰)
(۵) کواڑوں یا صندوقچی یا قلمدان وغیرہا میں سونے کی گل میخیں بریخیں اور خودیہ چیزیں سونے چاندی کی ہوں تو عورتوں کو بھی ناجائز یہ بعینہٖ اس صورت کی نظریں ہیں کہ انگرکھا کرتا تاش بادلے کاحرام اور گھنڈی بوتام سونے کے روا کہ یہ قلیل وتابع ہیں۔
فی الہندیۃ لاباس بمسامیر ذھب و فضۃ ویکرہ الباب منہ ۲؎۔
ہندیہ میں ہے سونے یا چاندی کی کیلیں لگانے میں کوئی حرج نہیں البتہ سونے چاندی کا دروازہ بنانا مکروہ ہے۔ (ت)
(۲ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب العاشر نورانی کتب خانہ کراچی ۵ /۳۳۵)
(۶) یوہیں چاندی سونے کے کام کے دو شا لے چادر کے آنچلوں۔عمامے کے پلوؤں، انگرکھے، کرتے، صدری، مزرائی وغیرہا کی آستینوں، دامنوں، چاکوں، پردوں، تولیوں، جیبوں پر ہوں گریبان کا کنٹھا، شانوں پشت کے پان ترنج، ٹوپی کا طرہ، مانگ، گوٹ پر کام۔ جوتےکا کنٹھا۔ گچھا۔ کسی چیز میں کہیں کیسی ہی متفرق بوٹیاں یہ سب جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی تنہا چارانگل کےعرض سے زائد نہ ہو اگرچہ متفرق کام ملاکر دیکھے تو چار انگل سےبڑھ جائے اس کا کچھ ڈر نہیں کہ یہ بھی تابع قلیل ہے۔اور اگر کوئی بیل بوٹا تنہا چار انگل عرض سے زیادہ ہوتوناجائز کہ اگر چہ تابع ہے مگر قلیل نہیں اور کوئی مستقل چیز بالکل مغرق یا ایسے گھنے کام کی ہو کہ مغرق معلوم ہوتو بھی ناروا اگر چہ خود اس کی ہستی ایک ہی انگل عرض کی ہو کہ یہ اگر چہ قلیل ہے مگر تابع نہیں۔ جیسے ریشم یا لچکے پٹھے کے تعویز یا ریشمی کمر بند یا جوتے کی اڈیوں پنجوں پر مغرق کا م یا ریشم یا سونے چاندی کے کام سے مغرق ٹوپی، ہاں ایک قول پر آنچل پلو مطلقا حلال ہیں خواہ کتنے ہی چوڑے ہوں اس میں کار چوبی دو شالے یا بنارسی عمامے والوں کے لئے بہت وسعت ہے مگر یہ زیادہ قوت اسی پہلے قول کو ہے کہ چار انگل سے زیادہ نہ ہو۔
فی الدرالمختار یحرم لبس الحریر علی الرجل الا قدر اربع اصابع کاعلام الثوب وظاہر المذہب عدم ومثلہ لو رقع الثوب بقطعۃ دیباج وظاھر المذھب عدم جمع المتفرق ومقتضاہ حل الثوب المنقوش بالحریر تطریزا ونسجا اذا لم تبلغ کل واحدۃ من نقشۃ اربع اصابع وان زادت بالجمع مالم یرکلہ حریرا قال ط وھل حکم المتفرق من الذھب و الفضۃ کذالک یحرر ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ مرد کے لئے ریشم پہننا حرام ہے البتہ چار انگل کی مقدار ممنوع نہیں جیسے کپڑے پر نقوش وغیرہ بنالینا۔ اور ظاہر مذہب یہ ہےطول میں زیادہ ہوں اوریہی حکم ہے اس کپڑے کا جس کو ریشمی پیوند لگایا گیا ہو اور ظاہر مذہب میں متفرق کو جمع کرنا نہیں اس کا تقاضایہ ہے کہ کپڑے پر ریشمی نقوش خواہ بنائے گئے ہوں یا بُنے ہوئے ہوں جائز ہیں جبکہ اس کا کوئی نقش بھی چار انگلیوں کی مقدار تک نہ پہنچنے پائے اگر چہ جمع کرنے سے زیادہ ہوجائیں بشرطیکہ سارا ریشمی نہ ہو۔ علامہ طحطاوی نے فرمایا متفرق سونے چاندی کا جوحکم پہنچا ہے وہ یوں ہی تحریر کیا جاتاہے .
(۱؎ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیرت ۵ /۲۲۴)
قال فی القنیۃ وکذا فی القلنسوۃ فی ظاھر المذھب یجوز قدر اربع اصابع وفی التبیین عن اسماء رضی اﷲ تعالٰی عنہا انھا اخرجت جبۃ طیالسۃ علیہا لبنۃ شبر من دیباج کسوانی وفرجاھا مکفوفان بہ فقالت ھذہ جبۃ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یلبسھا وفی القاموس کف الثوب کفا خاط حاشیّتہ و لبنۃ القمیض نبیقتہ فی الہندیۃ یکرہ ان یلبس الذکور قلنسوۃ من الحریر اوالذھب او الفضۃ اوالکرباس الذی خیط علیہ ابریسم کثیر اوشق من الذھب اوالفضۃ اکثر من قدر اربع اصابع اھ وبہ یعلم حکم العرقیۃ المسماۃ بالطافیۃجمع المتفرق للتفرق ولو فی عمامۃ وکذا المنسوج بذھب یحل اذا کان اربع اصابع والا لایحل للرجل وفی السراج عن السیر الکبیر العلم حلال مطلقا صغیرا کان او کبیرا قال المصنف ھو مخالف لمامر من التقیید باربع اصابع وفیہ رخصۃ عظیمۃ لمن ابتلی بہ فی زماننا ۱؎ اھ ملخصا۔
قنیہ میں ہے اسی طرح ظاہر مذہب کے مطابق ٹوپی میں چار انگشت کے برابر کی مقدار جائز ہے۔ تبیین میں سیدہ اسماء رضی اللہ تعالٰی عنہا کی روایت ہے کہ انھوں نے (زیادت کرانے کے لئے ایک طبالسی جبہ باہر نکالا کہ جس پر ایک بالشت کی مقدار کسروانی ریشم کا گریبان تھا اس کے دونوں اطراف ریشم سے مخطوط تھے پھر مائی صاحبہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جبہ مبارک ہے جو آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے، قاموس اللغات میں ہے (کف الثوب) اس وقت کہاجاتاہے کہ جب کسی چیز کا کنارہ مخطوط و، فتاوٰی عالمگیر ی میں ہے کہ مردوں کو سونا چاندی ریشمی لباس پہننا یا ایسی سوتی ٹوپی پہننا جس پر بہت سے ریشم کی سلائی کی گئی ہو یا سونا چاندی چار انگلیوں کی مقدار سے زیادہ ہو تو یہ عمل مکروہ ہے (عبارت مکمل ہوگئی) اور اس سے عرفیہ جس کو طافیہ کہا جاتاہے کا حکم معلوم کیا جاسکتاہے ، جبکہ متفرق کو جمع نہ کیا جائے اگر چہ پگڑی میں ہو، اسی طرح سونے کی تاروں سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال جائز ہے جبکہ بمقدار چار انگشت ہو، ورنہ مرد کے لئے جائز نہیں۔ سراج میں سیر کبیر کے حوالے سے منقول ہے نقوش علی الاطلاق جائز ہین خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ مصنف نے فرمایا کہ یہ چار انگلیوں کی قید کے مخالف ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں بڑی رخصت ہے اس شخص کے لئے جو ہمارے دورمیں اس میں مبتلا ہوگیا ہے (ملخص مکمل ہوا)
(۱؎درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۹ ۔ ۲۳۸)