چہارم : سونے چاندے خواہ کلابتوں کے بٹن یا آنچل پلو پر رو پہلے سنہرے کلابتوں یا کامدانی کا کام حلی سے مشابہ نہیں بلکہ خود حلی ہے۔
درمختارمیں ہے :
المنسوج بذھب یحل اذ اکان ھذا المقدار اربع اصابع والا لا یحل للرجل ۱؎۔
سونے کے تاروں سے بنا ہوا کپڑا جائز ہے جبکہ اس کی مقدار چار انگلی ہو ورنہ مردوں کے لئے جائز نہیں (جبکہ زائد ہوں) (ت)
(۱ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۸)
ردالمحتارمیں ہے :
الحلی کما فی القاموس مایتزین بہ ولا شک ان الثوب المنسوج بالذھب حلی ۲؎۔
جس شیئ سے زیب وزینت کی جائے وہ حلی (زیور) ہے جیسا کہ قاموس میں ہے اور اس میں کوئی شک وشبہہ نہں کہ جو کپڑا سونے کے تاروں سے بنا گیا وہ حلی (زیور) میں شمار ہے۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۴)
مگر یہ حلیہ ہی شرع نے جائز فرمایا ہے جبکہ تابع قلیل ہو ولہذا ردالمحتارمیں اسے حلی بتا کر مسئلہ شرح کی تائید سے نقل فرمائی :
اگر سونے کے تاروں سے کپڑے پر نقش ونگار بنائے جائیں تو عورتوں کے لئے اس کے استعمال کرنے میں کچھ حرج نہیں لیکن مردوں کے استعمال کے لئے (شرط یہ ہے کہ) اس کی مقدار بقدر چار انگشت ہو اور اس سے زائد مکروہ ہے۔ (ت)
(۳؎ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۴)
عبارات متون لا یتحلی الرجل بذھب ۴؎ الخ
(مرد کے لئے سونا پہننا جائز نہیں الخ۔ ت) میں تحلی باشیائے مستقلہ کا ذکر ہے نہ کہ توابع کا ولہذا چاندی کی انگوٹھی پیٹی پر تلے مستقل ہی چیزوں کا استثناء فرمایا۔ عام مراد ہوتاتو خود ان کی بالاتفاق تصریحات اباحت منسوج بالذھب قدر اربع اصابع وزر وعروہ ذہب وغیرہا کا صریح مناقض ہوتا۔
(۴؎درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۴۰)
یہیں سے ظاہر ہواکہ سونے کے بٹن اور کلابتوں کی گھنڈیوں میں فرق ضائع ہے وہ اگر حلی ہیں تو یہ کیا نہیں اور لا یتحلی (جائز نہیں۔ ت) استثناء میں ان کا ذکر نہیں تو ان کا بھی نہیں، یوں ہوتا تو گھنڈیاں بھی ممنوع ہوجائیں۔
پنجم : قطع نظر اور تنقیحات مسئلہ تعلیق سے جب حقیقت لبس تابع قلیل میں معاف ہے۔ توشبہہ لبس کہ تعلیق میں ہے بدرجہ اولی ہدایہ وکافی وتبیین وغیرہا میں ہے :
وھذا لفظ الامام النسفی فی الکافی اجمعنا ان القلیل من الملبوس حلال وھو الاعلام فکذا القلیل من اللبس والااستعمال والجامع انہ انموذج لنعیم الآخرۃ ترغیبا فیما ھو فی الاٰخرۃ لامقصود ۱؎۔
الکافی میں امام نسفی کے یہ الفاظ آئے ہیں ہم نے اس پر اتفاق کیا کہ تھوڑا ملبوس جائز ہے۔ او روہ کپڑے کے نقش ونگار ہیں اور اسی طرح تھوڑا پہننا اور استعمال کرنا بھی (جائز ہے) اور (دونوں میں )جامع یہ ہے کہ یہ طریقہ تعلیم آخرت کے لئے نمونہ ہے تاکہ اموراخرت کی طرف رغبت پیدا ہو لہذا بالذات مقصود نہیں (جیسا کہ دلائل وشواہد سے معلوم ہوتاہے۔)۔ (ت)
(۱؎ تبیین الحقائق کتا ب الکراھیۃ فصل فی اللبس المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ بولاق مصر ۶ /۱۵۔ ۱۴)
(الہدایۃ کتاب الکراھیۃ فصل فی اللبس مطبع یوسفی لکھنؤ ۴ /۴۵۴)
ششم : ہمارا دعوٰی نہ تھا کہ ہر چیز جو دوسرے کے ساتھ استعمال میں آتی ہو مطلقا تابع ہے
واقعات امام صدر شہید وفتاوٰی صغرٰی وفتاوٰی ذخیرہ ومحیط وغایۃ البیان وبعض شروح جامع صغیر و شرح قدروری وفتاوٰی منصوریہ وشرح نقایہ برجندی ومجمع الانہر وغیرہا میں نص فرمایا اور منیۃ الفقہاء و جامع الرموز وتتارخانیہ وتکملہ طوری وغیرہا
میں اسی پر جز م واعتماد کیا
کما فصلناہ کل ذٰلک فی فتاوٰنا
(جیسا کہ ہم نے ان سب باتوں کو (اپنے مشہور زمانہ) فتاوٰی رضویہ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ت)یہاں وارد نہیں بلکہ تبعیت اس لئے کہ لبس اس کی طرف مضاف نہیں ہوتا۔ ہدایہ وتبیین وبرجندی ودر کی عبارتیں گزریں
لانہ تابع کالعلم فی الثوب فلا یعد لابسالہ ۲؎
(اس لے کہ وہ تابع ہے جیسا کہ کپڑے کے نقش ونگار، پھر اسے پہننے والا شمار نہیں کیا جاتا۔ ت)
(۲؎الہدایۃ کتاب الکراھیۃ فصل فی اللبس مطبع یوسفی لکھنؤ ۴ /۴۵۵)
شرح ملتقی کی عبارت گزری :
اللبس لایکون مضافا الیہ بل یکون تبعا فی اللبس ۳؎۔
پہننا اس کی طرف منسوب نہیں بلکہ وہ پہننے میں تابع ہے۔ (ت)
(۳؎ مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر کتاب الکراھیۃ فصل فی اللبس مطبع یوسفی لکھنؤ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۵۳۴)
اورا س کا وہ حصہ جائز ہے جو تا بع ہو، اس لئے کہ پہننا اس کی طرف منسوب نہیں۔ (ت)
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۱۷۸)
ہفتم : زنجیروں کے لئے نہ زر کی طرح کوئی نص فقیر نے پایا نہ جواز پر کوئی صاف دلیل بلکہ وہ بظاہر مقصود بنفسہا ہیں۔ نہ زر کی طرح کپڑے کی، کوئی غرض ان سے متعلق نہ علم کی طرح ثوب میں مستہلک کہ تابع ثواب ٹھہریں، نہ ان سے سنگار اور زینت کے سوا کوئی فائدہ مقصود اور وہ زیور زناں سے کمال مشابہ ہیں۔ ان کی ہیئت وحالت بالکل سہاروں کی سی ہے کہ ایک طرف ان کے کنڈوں میں بالیاں پروکر ان کو دونوں جانب سے پیشانی کے بالوں میں لاکر کانٹا ڈال کر ملاد یتے ہیں وہ بھی ان زنجیروں کی طرح لڑیاں ہی ہیں بلکہ ان سے علاوہ تزین ایک فائدہ بھی مقصود ہوتاہے کہ بالیوں کا بوجھ کانوں پر نہ پڑے یہ انھیں اٹھا کر سہارا دئے رہیں اسی لئے ان کو ''سہارے'' کہتے ہیں۔ اور ان زنجیروں کی لڑیاں سوا زینت کے کوئی فائدہ نہیں دیتیں تو بہ نسبت سہاروں کے ان کی لڑیاں جھومر کی لڑیوں سے اشبہ ہیں اور سہاروں کی طرح یہ بھی داخل ملبوس ہیں بلکہ ان کا صرف زینت کے لئے بالذات مقصود اور کپڑے کی اغراض سے محض بے تعلق ونامستہلک ہونا جھومر کی طرح انکے اور بھی زیادہ لبس مستقل کا مقتضی ہے اور ذہب وفضہ میں اصل حرمت ہے تو جب تک صریح دلیل سے جواز ثابت نہ ہو زنجیروں پر عدم جواز ہی کاحکم دیں گے،
ہدایہ میں ہے :
الاصل فیہ التحریم ۲؎۔
اصل اس کی حرمت ہے (یعنی سونے، چاندی میں اصل یہ ہے کہ دونوں مردوں کے لئے حرام ہیں اور عورتوں کے لئے جواز ہے۔ (ت)
(۲؎ الہدایۃ کتاب الکراھیۃ فصل فی اللبس مطبع یوسفی لکھنؤ ۴ /۴۵۵)
تبیین الحقائق میں ہے :
الفضۃ والذھب من جنس واحد والاصل الحرمۃ فیہما ۳؎ اھ ھذا ماعندی والعلم بالحق عند ربی، واﷲ تعالٰی اعلم۔
سونا ، چاندی ایک ہی جنس ہیں۔ اور ان دونوں میں اصل حرمت ہے۔ (یعنی بلحاظ اصل دونوں حرام ہیں) اور یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے) یہ میری تحقیق اور عندیہ ہے۔ لیکن واقعی اور صحیح علم میرے رب کے پاس ہے ، کیونکہ اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)
(۳؎ تبیین الحقائق کتاب الکراھیۃ فصل فی اللبس المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ بولاق مصر ۶/ ۱۶)
مسئلہ ۵: از پیلی بھیت کچہری کلکٹری مرسلہ جناب مولوی عرفان علی صاحب رضوی برکاتی بیسلپوری ۱۰ ذی الحجہ ۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عورتوں کو زیور پہننا جائز ہے یا ناجائز؟ برتقدیر اول کیا بجنے اور نہ بجنے والے ہر قسم کے زیوارات سونے اور چاندی کے بلا تخصیص جائز ہیں؟ جائز وناجائز ہر دو صورتوں میں کتب فقہ کی دو ایک عبارتیں اورکم سے کم دو تین حدیثیں نقل فرمادیجئے۔، بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجرپاؤ۔ ت)
الجواب : عورتوں کو سونے چاندی کا زیور پہننا جائز ہے۔
قال اﷲ تعالٰی اومن ینشؤا فی الحلیۃ۔۱؎
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ، کیا وہ جو زیور میں پروان چڑھے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴۳ /۱۸)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الذھب والحریر حل لاناث امتی وحرام علی ذکورھا، رواہ ابوبکر بن ابی شیبہ عن زید بن ارقم والطبرانی۲؎ فی الکبیر عنہ و عن واثلۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما
سونااور ریشم میری امت کی عورتوں کو حلال اور مردوں پر حرام ہے۔ (ابوبکر بن ابی شیبۃ حضرت زید بن ارقم سے اور طبرانی نے الکبیر میں ان سے اور حضرت واثلہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کو راویت کیا ہے۔ ت)
بلکہ عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے بعض صالحات کہ کود اور ان کے شوہر دونوں صاحب اولیاء کرام سے تھے ہر شب بعد نماز عشا پورا سنگار کرکے دلھن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں اگر انھیں اپنی طرف حاجت پاتیں حاضر رہتیں ورنہ زیور ولباس اتار کر مصلی بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہوجاتیں۔ اور دلھن کو سجانا تو سنت قدیمہ اور بہت احادیث سے ثابت ہے بلکہ کنواری لڑکیوں کو زیور ولباس سے آراستہ رکھنا کہ انکی منگنیاں آتیں۔ یہ بھی سنت ہے۔