مسئلہ ۱۲۲: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ معانقہ بے حالت سفر بھی جائز ہے یانہیں؟ اور زید کہ اسے قدوم مسافر کے ساتھ خاص اور اس کے غیر میں ناجائز بتاتا ہے۔ قول اس کا شرعاکیسا ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : کپڑوں کے اوپر سے معانقہ بطور بروکرامت واظہار محبت بے فساد نیت ومواد شہوت بالاجماع جائز، جس کے جواز پر اعادیث کثیرہ وروایات شہیرہ ناطق۔ اور تخصیص سفر کا دعوٰی محض بے دلیل۔ احادیث نبویہ وتصریحات فقہیہ اس بارے میں بروجہ اطلاق وارد۔ اور قاعدہ شرعیہ ہے کہ مطلق کو اپنے اطلاق پر رکھنا واجب۔ اور بے مدرک شرعی تقیید اور تخصیص مردود وباطل ورنہ نصوص شرعیہ سے امان اٹھ جائے کما لایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں ۔ت) ابن ابی الدنیا کتاب الاخوان اور دیلمی مسند الفردوس میں اور ابوجعفر اپنی کتاب میں حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
واللفظ للعقیلی انہ قال سئلت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن المعانقۃ فقال تحیۃ الامم وصالح ودھم وان اول من عانق خلیل اﷲ ابراہیم ۱؎۔
(الفاظ محدث عقیلی کے ہیں کہ تمیم داری نے فرمایا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معانقہ کو پوچھا۔ فرمایا: تحیت ہے امتوں کی اور اچھی دوستی ان کی، اور بیشک پہلے معانقہ کرنے والے ابراہیم خلیل اللہ ہیں علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔
اگردونوں نے قمیص یا جبہ پہن رکھا ہو تو بالاتفاق جائز ہے اھ مختصرا (ت)
(۳؎ مجمع الانہر کتاب الکراہیۃ فصل فی بیان احکام النظر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۵۴۱)
ہدایہ میں ہے:
قالوا الخلاف فی المعانقۃ فی ازار واحد وامااذا کان علیہ قمیص اوجبۃ فلا باس بھا بالاجماع وہو الصحیح ۱؎۔
فقہائے کرام نے فرمایا اختلاف اس معانقہ میں ہے جو صرف ایک چادر کے ساتھ ہو لیکن جب قمیص یا جبہ پہن رکھا ہو تو بالاتفاق گلے ملنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور یہی صحیح ہے۔ (ت)
(۱؎ الھدایۃ کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی الاستبراء مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/ ۴۶۶)
درمختارمیں ہے:
لوکان علیہ قمیص اوجبۃ جاز بلا کراھۃ بالاجماع وصححہ فی الہدایۃ وعلیہ المتون ۲؎۔
اگر آدمی قمیص یا جبہ پہنے ہو پھر معانقہ کرنا بغیر کراہت بالاتفاق جائز ہے۔ ہدایہ میں اس کو صحیح قرار دیا گیا اور متون فقہ اسی کے مطابق ہیں۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ باب الاستبراء مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۴)
معانقہ کرنا بایں صورت کہ جبہ یاقمیص پہن رکھی ہو بالاتفاق مکروہ نہیں۔ اور یہی صحیح ہے اھ ملتقطا (ت)
(۳؎ شرح النقایۃ للبرجندی باب الکراہیۃ نولکشور لکھنؤ ۳/ ۱۸۱)
اسی طرح امام نسفی نے کافی پھر علامہ اسمعیل نابلسی نے حاشیہ درر، اور شیخ محقق نے لمعات میں تصریح فرمائی۔ اور اسی پر فتاوٰی ہندیہ وحدیقہ ندیہ وشرح درر مولٰی خسرو وغیرہا میں جزم کیا اور یہی وقایہ ونقایہ وکنز واصلاح وغیرہا متون کا مفاد اور شروح ہدایہ وحواشی درمختار وغیرہا میں مقرر، ان سب میں کلام مطلق ہے کہیں تخصیص سفر کی بو نہیں۔ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:
اما معانقۃ اگر خوف فتنہ نباشد مشروع است خصوصا نزد قدوم از سفر ۴؎۔
اگر کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو معانقہ جائز ہے بالخصوص اس وقت جبکہ سفر سے واپسی ہو۔ (ت)
(۴؎ اشعۃ اللمعات کتا ب الادب باب المصافحۃ والمعانقۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/ ۲۰)
یہ خصوصا بطلاں تخصیص پرنص صریح ہے رہیں احادیث نہی ان میں زید کے لئے حجت نہیں کہ ان سے اگر ثابت ہے تو نہی مطلق، پھر اطلاق پر رکھئے تو حالت سفر بھی گئی حالانکہ اس میں ز ید بھی ہم سے موافق۔ اور توفیق پر چلے توعلماء فرماتے ہیں وہاں معانقہ بروجہ شہوت مراد، اور پر ظاہر کہ ایسی صورت میں تو بحالت سفر بھی بلکہ مصافحہ بھی ممنوع تابمعانقہ چہ رسد، امام فخر الدین زیلعی تبیین الحقائق اور اکمل الدین بابرتی عنایہ اور شمس الدین قہستانی جامع الرموز اور آفندی شیخی زادہ شرح ملتقی الابحر اور شیخ محقق دہلوی شرح مشکوٰۃ اور امام حافظ الدین شرح وافی اور سید امین الدین آفندی حاشیہ شرح تنویر مولٰی عبدالغنی نابلسی شرح طریقہ محمدیہ میں اور ان کے سوا اور علماء ارشاد فرماتے ہیں:
وھذا لفظ الاکمل قال وفق الشیخ ابومنصور (یعنی الما تریدی امام اہل السنت و سید الحنفیۃ) بین الاحادیث فقال المکروہ من المعانقۃ ماکان علی وجدالشہوۃ عبر عنہ المصنف (یعنی امام برہان الدین الفرغانی) بقولہ فی ازار واحد فانہ سبب یفضی الیہا فاما علی وجہ البر والکرامۃ اذا کان علیہ قمیص اوجبۃ فلا باس بہ اھ ۱؎۔
یہ الفاظ امام اکمل الدین بابرتی کے ہیں انھوں نے فرمایا شیخ ابومنصور ماتریدی جو اہلسنت کے امام اور احناف کے پیشوا ہیں انھوں نے بظاہر باہم متعارض حدیثوں میں مطابقت اور موافقت کی روش اختیار کی، چنانچہ فرمایاو ہ معانقہ مکروہ ہے جو شہوانی جذبات کے ساتھ ہو جس کی تعبیر مصنف یعنی امام برہان الدین فرغانی نے اپنے قول ''فی ازار واحد'' (صرف ایک چادر کے ساتھ) کی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا سبب ہے جو شہوت رانی تک پہنچادیتاہے۔ لیکن اگر معانقہ نیکی او ر اکرام کے جذبے کے ساتھ ہو اور قمیص یا جبہ پہن کر کیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں اھ (ت)
(۱؎ الغنایۃ علی ہامش فتح القدیر کتا ب الکراہیۃ فصل فی الاستبراء مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۸/ ۴۸۵)
اور کیونکر رواہوگا کہ بحالت سفر کے معانقہ کو مطلقا ممنوع ٹھہرائے حالانکہ احادیث کثیرہ میں ثابت کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بارہا بے صورت مذکورہ بھی معانقہ فرمایا:
حدیث اول: بخاری ومسلم ونسائی وابن ماجہ بطریق عدیدہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
وہذا لفظ مولف منہا دخل حدیث بعضہم فی بعض قال خرج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجلس بفناء بیت فاطمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فقال ادعی الحسن بن علی فحبستہ شیئا فظننت انھا تلبسہ سخابا اوتغسلہ فجاء یشتد وفی عنقہ السخاب فقال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بیدہ ھکذا فقال الحسن بیدہ ہکذا حتی اعتنق کل واحد منہما صاحبہ فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اللھم انی احبہ فاحببہ واحب من یحبہ ۱؎۔
یعنی ایک بار سید دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا۔ حضرت زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلارہی ہوں گی اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے گلے میں ہار پڑا تھا سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دست اقدس بڑھائے حضورکو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلا دئے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے۔ حضور نے گلے لگا کر دعا کی : الٰہی! میں اسے دوست رکھتاہوں تو اسے دوست رکھ، جو اسے دوست رکھے گا اسے دوست رکھ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب اللباس با ب السخاب للصبیان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۷۴)
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل الحسن والحسین قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۸۲)
حدیث دوم : صحیح بخاری میں امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی:
کان النبی صلی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یاخذ بیدی فیقعدنی علی فخذہ ویقعد الحسن علی فخذہ الاخری ثم یضمھا ثم یقول اللھم ارحمہما فانی ارحمہما ۲؎۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھالیتے اور دوسری پر امام حسن کو پھر دونوں کو لپٹا لیتے۔ پھر دعا فرماتے الٰہی!میں ان پر مہر کرتاہوں تو ان پر رحم فرما۔
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الادب باب وضع الصبی علی الفخذ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸)