امام ابوالقاسم سلیمن بن احمد طبرانی جناب ہالہ بن ابی ہالہ فرزند ارجمند حضرت ام المومنین خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی، وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور آرام فرماتے تھے۔ ان کی آواز سن کر جاگے اور انھیں سینہ اقدس سے لگایا اور بغایت محبت فرمایا ۔ ہالہ، ہالہ، ہالہ!
عن ھالۃ بن ابی ھالۃ انہ دخل علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وہو راقد فاستیقظ فضم ھالۃ الی صدرہ وقال ھالۃ ھالۃ ھالۃ ۲؎۔
طبرانی معجم کبیر اور ابن شاہین کتاب السنۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مع اپنے اصحاب کے ایک غدیر میں تشریف لے گئے۔ پھر فرمایا ہر شخص اپنے اپنے یار کی طرف پیرے۔ اور خود حضور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف پیرگئے اور انھیں گلے لگاکر فرمایا یہ میرا یار ہے۔
عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما قال دخل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ غدیرا فقال لیسبح کل رجل الی صاحبہ فسبح کل رجل منہم الی صاحبہ حتی بقی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فسبح رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی ابی بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ حتی اعتنقہ ف فقال لوکنت متخذا خلیلا لاتخذت ابابکر خلیلا ولکنہ صاحبی ۳؎۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے ساتھی ایک تالاب میں داخل ہوگئے۔ پھر فرمایا: ہر آدمی اپنے ساتھی کی طرف تیرے۔ پھر ہر شخص اپنے اپنے دوست کی طرف تیرنے لگا، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور صدیق اکبر رہ گئے پھرآپ اپنے ساتھی ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تیرنے لگے اور انھیں گلے لگایا اور فرمایا: اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرا دوست ہے۔ (ت)
ف: خط کشیدہ الفاظ حدیث المعجم الکبیر کی حدیث ۱۱۹۳۸ میں ۱۱/ ۳۳۹ پر ملاحظہ ہوں۔
ظاہر ہے کہ یہاں سفر سے آنا جانا بھی نہ تھا اور سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کرتہ اٹھانے کو عرض کیا: حضور نے اپنے بدن اقدس سے کرتہ اٹھادیاوہ حضور کو لپٹ گئے اور تہیگا ہ اقدس پر بوسہ دیا اور حضور نے منع نہ فرمایا:
عن اُسید بن حضیر رجل من الانصار قال بینما ھو یحدث القوم وکان فیہ مزاح بیننا یضحکھم فطعنہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی خاصرتہ بعود فقال اصبرنی قال اصطبر قال ان علیک قمیصا ولیس علی قمیص فرفع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن قمیصہ فاحتضنہ وجعل یقبل کشحہ قال انما اردت ہذا یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔
حضرت اسید بن حضیر سے روایت ہے کہ جو ایک انصاری آدمی تھے، وہ لوگوں سے باتیں کررہے تھے ، اور وہ ہمارے درمیان ایک مزاح کرنے والے آدمی تھے جو لوگوں کو ہنسایا کرتے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لکڑی سے ان کے پہلوں میں ٹھونک ماری تو وہ کہنے لگے میرے لئے صبر کیجئے، آپ نے فرمایا: میں صبر کرتاہوں، وہ کہنے لگے کہ آپ تو کرتہ پہنے ہوئے ہیں۔ پھر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے جسم اقدس سے کپڑا اٹھایا تو وہ آپ کے جسم اقدس سے لپٹ گئے اورآپ کے پہلو مبارک کو بوسہ دینے لگے۔ اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں تویہی ارادہ رکھتاتھا۔ (ت)
(۱؎سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی قبلۃ الجسد آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۵۳)
احمد یعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں ایک بار حسن وحسین رضی اللہ تعالٰی عنہما دوڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے، حضور نے اپنے بدن اقدس سے چپٹا لیا۔
عن یعلی قال ان جاء حسن وحسین رضی اﷲ تعالٰی عنہما یستبقان الی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضمھھا الیہ ۲؎۔
(۲؎ مسند امام احمد بن حنبل عن یعلٰی بن مرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۱۷۲)
ابوداؤد اپنے سنن میں حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ملتا حضور مجھ سے مصافحہ فرماتے ایک دن میرے بلانے کو آدمی بھیجا میں گھر میں نہ تھا، جب آیا خبر پائی، حاضر ہوا، حضور نے مجھے اپنے بدن سے لپٹا لیا۔
عن ایوب بن بشیر عن رجل من عنزۃ انہ قال قلت لابی ذر ھل کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصافحکم اذا لقیتموہ قال مالقیتہ قط الاصافحنی وبعث الی ذات یوم ولم اکن فی اھلی فلما جئت اخبرت انہ ارسل الی فاتیتہ وہو علی سریرہ فالتزمنی فکانت تلک اجود واجود ۱؎۔
حضرت ایوب بن بشیر قبیلہ عنزہ میں سے ایک صاحب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں فرمایا میں نے حضرت ابوذر سے پوچھا: جب تم لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کرتے تو کیا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تم سے مصافحہ کرتے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میری حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر آپ نے مجھ سے مصافحہ کیا، ایک دن آپ نے مجھے آدمی بھیج کر بلایا مگر اس وقت میں گھر پر نہ تھا۔ جب میں واپس آیا اور مجھے آپ کے یاد فرمانے کی اطلاع ہوئی تو حاضر خدمت ہوا اور اس وقت آپ ایک تخت پر جلوہ افروز تھے پھر آپ نے اسی حالت میں مجھے گلے لگایا۔ یہ موقعہ بڑا اچھا اور بڑا شاندار تھا۔ (ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی المعانقۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۵۲)
مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی تفسیر فتح العزیز میں فرماتے ہیں:
حافظ خطیب بغدادی از جابررضی اللہ تعالٰی عنہ روایت می کند کہ روزے نزدآں حضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حاضر بودیم ارشاد فرمودند کہ حالاشخصے می آید کہ حق تعالٰی بعد ازیں کسے رابہتر از وپیدانہ کردہ است وشفاعت او را روز قیامت مثل شفاعت پیغمبران باشد، جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ گوید مہلتے نگزشتہ بود کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف آوردند۔ پس آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برخاستند وبر پیشانی ایشاں بوسہ دادند ودرکنار گرفتہ ساعتے آنست حاصل کردند ۲؎۔
حافظ خطیب بغدادی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر تھے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ابھی ایک شخص آئے گا کہ اللہ تعالٰی نے اس کے بعد اس سے بہتر کوئی نہیں پیدا فرمایا۔ قیامت کے دن لوگوں کے حق میں اس کی شفاعت انبیاء کرام کی طرح ہوگی۔ حضرت جابر (اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو) نے فرمایا کہ کچھ زیادہ دیر نہ گزری کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لے آئے پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے (استقبال) کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ان سے بغلگیر ہوئے اور کچھ دیر تک ایک دوسرے سے مانوس ہوتے رہے ۔(ت)
(۲؎ فتح العزیز(تفسیر عزیزی) پارہ عم سورۃ اللیل مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی ص۰۷۔ ۳۰۶)
یہ سب صورتیں معانقہ بے سفر کی ہیں اور شیخ محقق ترجمہ مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
سیوطی درجمع الجوامع از معصب بن عبداﷲ آوردہ کہ چوں آں حضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ابن ابی جہل رادید بایستادہ و بجانب اورفت واعتناق کرد فرمود مرحبا بالراکب المھاجر ۱؎
علامہ سیوطی ''جوامع الجوامع'' میں حضرت مصعب بن عبداللہ سے روایت لائے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بن ابوجہل کو دیکھ تو اٹھ کھڑے ہوئے اور چند قدم چل کر اس کی طرف تشریف لے گئے پھر اسے گلے لگایا اور ارشاد فرمایا: خوش آمدید اے ہجرت کرنے والے سوار! (ت)
(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ کتاب الادب باب المصافحۃ والمعانقۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/ ۲۳)
بالجملہ احادیث اس بارے میں بکثرت وارد، اور فقہاء کا قول سن ہی چکے کہ بے خوف فتنہ کپڑوں کے اوپر معانقہ بالاجماع بلا کراہت جائز ہے تو قول زید کہ معانقہ کرنا ہر وقت میں حرام ہے محض غلط وباطل ہے۔ اور شریعت مطہرہ پر کھلا افتراء وہ اپنے اس قول میں صحیح حدیثوں کو جھٹلاتا اور اجماع ائمہ کا خرق کرتاہے اگر سچا ہے تو حدیث وفقہ سے اپنا دعوٰی علی الاطلاق ثابت کردے ورنہ خدا ورسو ل پر بہتان کرنے کا اقرار کرےا ور جب معانقہ بشرائط مذکورہ بالا بلا تخصیص وقت وحال حدیث وفقہ سے مشروع ٹھہرا تو جس وقت وجس زمانہ میں کیا جائے گا مشروع ہی رہے گا اور مجرد خصوصیت وقت باعث حرمت نہ ہوجائیگی پس وہ معانقہ جو بعد نماز عید ہمارے زمانہ میں رائج ہے بشرائط مسطورہ بالا بلاشبہہ مشروع وجائز ہے اصل اس کی احادیث واجماع سے ثابت۔ گو تخصیص اس وقت کی قرون ثلثہ میں نہ پائی جائے،
کما صرح بمثل ذٰلک الامام العلامۃ النووی فی الاذکار والفاضل علاؤ الدین فی الدرالمختار وغیرہما فی غیرہما
جیسا کہ امام نووی نے ''الاذکار'' میں اور فاضل علاؤ الدین نے ''درمختار'' میں اور ان دونوں کے علاوہ باقی اہل علم نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کی تصریح فرمائی ۔(ت)
اور جو گناہ علانیہ کیا ہو اس کی توبہ بھی علانیہ چاہئے اور پوشیدہ کی پوشیدہ ۔