مسئلہ ۱۲۱: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں کہ زید کہتاہے کہ معانقہ ہر وقت میں حرام اور مصافحہ کرنا مسنون ، عمرو کہتاہے کہ معانقہ کرنا وقت آمدورفت سفر اور یوم عید اور ہنگام خوشی اور خصوصا معانقہ کرنا ایک دلیل قوی بنا بر افزونی اخلاص ومحبت مابین اہل اسلام ہے۔ جب زید معتقد اس امر کا ہے کہ معانقہ حرام اور مصافحہ مسنون زید مرتکب گناہ صغیرہ کا ہے یا گناہ کبیرہ کا پس جس شخص پر گناہ کبیر ہ عاید ہو ا یا صغیرہ تو اس پر توبہ جلسہ عام میں آئی یا نہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرمائیے اجر پائے۔ ت) فقط۔
الجواب : کپڑوں کے اوپر معانقہ جہاں خوف فنتہ، شہوت نہ ہو بلاریب مشروع ہے اس کے جواز پر تمام ائمہ مجتہدین کااجماع اور سفر وغیر سفر میں بشرائط مذکورہ مطلقا جائز ۔ تخصیص سفر کی حدیث وفقہ سے ثابت نہیں نہ کہ استغفراللہ مطلقا حرام ہو ابوجعفر عقیلی حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں:
قال سالت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن المعانقۃ فقال تحیۃ الامم وصالح ودھم وان اول من عانق خلیل اﷲ ابراھیم ۱؎۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معانقہ کا مسئلہ دریافت کیا۔ ارشاد فرمایا تحیت ہے امتوں کی اور اچھی دوستی ہے ان کی، اور بیشک پہلے جس نے معانقہ کیا اللہ تعالٰی کے خلیل ابراہیم ہیں علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔
اس حدیث میں صریح تائید ہے عمرو کے قول کی کہ معانقہ ایک دلیل قوی ہے۔ افزونی محبت پر۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:
امامعانقۃ اگر خوف فتنہ نباشد مشروع است خصوصا نزد قدوم از سفر ۲؎ الخ۔
اگر کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو گلے ملنا جائز ہے خصوصا جبکہ آدمی سفر سے آئے الخ۔ (ت)
(۲؎ اشعۃ اللمعات کتاب الادب باب المصافحۃ والمعانقۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/ ۲۰)
درمختار میں ہے:
وکرہ تحریما تقبل الرجل ومعانقتہ فی ازار واحد ، وقال ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی لاباس بالتقبیل والمعانقۃ فی ازار واحد ولو کان علیہ قمیص اوجبۃ جاز بلا کراہۃ بالاجماع وصححہ فی الہدایۃ وعلیہ المتون ۳؎ انتہی ملخصا۔
کسی مرد کو بوسہ دینا اور اس سے گلے ملنا ایک چادر میں مکروہ تحریمی ہے۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ایک ازار میں بوسہ دینے او ر معانقہ کرنے میں حرج نہیں اوراگر وہ کرتہ پہنے ہو یا جبہ تو بغیر کسی کراہت کے بالاجماع جائز ہے ہدایہ میں اس کی تصحیح فرمائی اور اسی کے مطابق سارے متون ہیں انتہی ملخصا۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ باب الاستبراء مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۴)
اور ایسا ہی شیخ محقق نے کافی سے نقل کیا:
حیث قال وگفتہ اندکہ خلاف درجائیست کہ برہنہ تن باشند اما باقمیص وجبہ لاباس بہ است باجماع وھو الصحیح کذافی الکافی ۱؎۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ لوگوں نے کہا ہے کہ معانقہ وغیرہ میں اس جگہ اختلاف ہے کہ جہاں ننگے ہوں، لیکن اگر کرتہ یا جبہ پہنے ہوں تو پھر بالاجماع کوئی حرج نہیں، اوریہی صحیح ہے یونہی کافی میں مذکور ہے۔ (ت)
(۱؎ اشعۃ اللمعات کتاب الادب باب المصافحۃ والمعانقۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/ ۲۱)
البتہ اگر دونوں ننگے بدن ہوں تو اس صورت کو بعض روایات میں مکروہ کہا ہے۔ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک یوں بھی کچھ حرج نہیں۔ بیشک جہاں خوف فتنہ ہو مثلا عورت یا امرد خوبصورت سے معانقہ کرنا خصوصا جبکہ بنظر شہوت ہو تو اس صو رت کی کراہت وعدم جواز میں کسی کو کلام نہیں شرح وقایہ کی کتاب الکراہیۃ میں ہے:
وکرہ تقبیل الرجل و عناقہ فی ازارواحد وجازمع قمیص ومصافحۃ ش عطف علی الضمیر فی جاز ھذا عند ابی حنیفہ ومحمد رحمہما اﷲ تعالٰی وقال ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی عنہ لاباس بھما فی ازار واحد وامامع القمیص فلا باس بالاجماع والخلاف فیما یکون للمحبۃ واما بالشھوۃ فلا شک فی الحرمۃ اجماعا ۲؎ انتہی۔
کسی مرد کو بوسہ دینا اور ایک چادر میں اس سے گلے ملنا مکروہ ہے البتہ کرتہ پہنے ہوں تو جائز ہے۔ اور مصافحہ کرنا بھی جائز ہے۔ (تشریح) ''مصافحتہ،'' اس عبارت کا عطف ''جاز'' کی ضمیر پر ہے۔ اور یہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہے لیکن امام ابویوسف نے فرمایا: اللہ تعالٰی سب پررحم فرمائے بوسہ دینا اور معانقہ کرنا اگر ایک چادرمیں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر قمیص پہنے ہو تو پھر بالاتفاق کچھ مضائقہ نہیں۔ او ر یہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ یہ کام پیار ومحبت کے انداز میں ہو لیکن اگر شہوت سے ہو تو پھر اجماعا حرمت میں کوئی شک نہیں انتہی (ت)
(۲؎ شرح الوقایہ کتاب الکراہیۃ مسئلۃ التقبیل والاعتناق ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۴/ ۵۴ تا ۵۶)
جن روایتوں میں معانقہ سے نفی آئی ہے ان میں جمعا بین الاحادیث یہی صورت مقصود، امام ابومنصور ماتریدی رحمۃ للہ تعالٰی علیہ نے کہ اہل سنت کے پیشوا ہیں اس معنی کی تصریح فرمائی کماذکرہ الشیخ المحقق فی شرح المشکوٰۃ (جیسا کہ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں بیان فرمایا ۔ ت) سو اس صورت میں مصافحہ بھی نادرست ہے کمالایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ ت) احادیث کثیرہ میں وارد ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام سے بار ہا بحالت سفر اور بلا سفر معانقہ فرمایا اور اسے جائز رکھا۔ صحیح ترمذی میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جب زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ شریف آئے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے معانقہ کیااور بوسہ دیا:
عن عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قالت قدم زید بن حارثۃ المدینۃ و رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی بیتی فاتاہ فقرع الباب فقام الیہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عریانا یجر ثوبہ واﷲ مارأیتہ عریانا قبلہ ولابعدہ فاعتنقہ وقبلہ ۱؎۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب زید بن حارثہ مدینہ منورہ میں تشریف لائے اس وقت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرماتھے۔ جب حضرت زید نے آکر دروازے پر دستک دی تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام برہنہ ہی اٹھ کر اسی حالت میں ان سے ملنے تشریف لے گئے۔ حالت یہ تھی کہ اس وقت اپنا کپڑا گھسیٹے جارہے تھے خدا کی قسم میں نے آپ کو اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی برہنہ نہیں دیکھا، پھر آپ نے انھیں گلے لگالیا اور انھیں بوسہ دیا۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی کتاب الاستیذان والادب باب ماجاء فی المعانقۃ والقبلۃ امین کمپنی کراچی ۲/ ۹۸۔۹۷)
سنن ابوداؤد اور بیہقی میں شعبی سے مروی ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گلے لگایا اور بوسہ دیا،
عن الشعبی ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تلقی جعفر بن ابی طالب فالتزمہ وقبلہ بین عینیہ ۲؎۔
امام شعبی سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جعفر بن ابی طالب سے ملے تو انھیں گلے لگایا اور دو آنکھوں کے درمیان انھیں بوسہ دیا۔ (یعنی ان کی پیشانی چومی)۔ (ت)
(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی قبلۃ مابین العینین آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۵۳)
امام احمد وابوداؤد ونسائی وغیرہم بہیسہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی کہ ان کے والد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اذن لے کر قمیص مبارک کے اندر اپنا سر لے گئے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو گلے لگاکر بوسہ دینا شروع کیا اور عرض کی یا رسول اللہ! کیا چیز روکنا جائز نہیں؟ فرمایا: پانی۔
عن امرأۃ یقال لھا بہیسۃ عن ابیھا قالت استأذن ابی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فدخل بینہ وبین قمیصہ فجعل یقبل ویلتزم ثم قال یانبی اﷲ ماالشیئ الذی لایحل منعہ قال الماء ۱؎ الحدیث۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الزکوٰۃ باب مایجوز منعہ آفتاب عالم پر یس لاہور ۱/ ۲۳۵)