مسئلہ ۹۳: از محلہ شہر کہنہ سہسوانی ٹولہ مرسلہ تفضل حسین صاحب
علمائے دین کیا فرماتے ہیں کہ جو شخص نامحرم عورتوں سے اپنی پیٹھ اور ہاتھ اور پیر وقت نہانے کے ملوائے اور وقت سونے کے اپنے پیر دبوائے اور ناچنے والی عورتوں کو یعنی طوائفوں کو مرید کرے اور نال ان لوگوں کا کھائے، اور بعد مرید کرنے وہ طوائفیں جو کام کرتی تھیں وہی کام کرتی رہیں اس شخص کے ہاتھ پر بیعت جائز ہے یانہیں؟
الجواب: نامحرم عورتوں سے ہاتھ اور پیٹھ اور پنڈلیاں ملوانا یا دبوانا اگر نہ تو تنہائی میں ہو نہ محل فتنہ ہو تو حرج نہیں ورنہ گناہ ہے اور رنڈیوں سے اگر توبہ لے کر مرید کرے اور انھیں ہدایت کرے اور وہ نہ مانیں تو انھیں دورکرے اور ان کاحرام مال کسی حال میں نہ لے تو جائز ہے۔ مگر آج کل جو یہ طریقہ رائج ہے کہ دنیا پرست پیر رنڈیوں کو بلا توبہ مرید کرلیتے ہیں اور انھیں توبہ کی ہدایت نہیں کرتے اور ان کے نہ ماننے پر بقدر مقدور ان پر سختی نہیں کرتے ان سے بیزاری وجدائی نہیں کرتے ان کا حرام مال کھاتے ہیں ایسے پیر ضرور سخت شدید فاسق ہیں جو ایسا ہو اس کے ہاتھ پر بیعت ناجائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹۴: از سنھبل محلہ کوٹ ضلع مراد آباد مرسلہ حافظ اکرام صاحب ۲۷ صفر ۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اپنی حقیقی ہمشیرہ کے شوہر سے عورت کو پردہ کرنا فرض ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : بہنوئی کاحکم شرع میں بالکل مثل حکم اجنبی ہے بلکہ اس سے بھی زائد کہ وہ جس بے تکلفی سے آمدورفت نشست وبرخاست کرسکتاہے غیر شخص کی اتنی ہمت نہیں ہوسکتی لہذا صحیح حدیث میں ہے:
قالوا یارسول اﷲ ارأیت الحمو قال الحمو الموت ۱؎۔
صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ! جیٹھ، دیور، اور ان کے مثل رشتہ داران شوہر کا کیا حکم ہے۔ فرمایایہ تو موت ہیں۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب النکاح باب لایخلون رجل بامرأۃ الاذومحرم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۸۷)
(جامع الترمذی ابواب الرضاع ۱/ ۱۳۹ و مسند احمد بن حنبل عن عقبہ بن عامر ۴/ ۱۴۹ و ۱۵۳)
خصوصا ہندوستان میں بہنوئی کہ باتباع رسوم کفار ہند سالی بہنوئی میں ہنسی ہواکرتی ہے۔ یہ بہت جلد شیطان کا دروازہ کھولنے والی ہیں۔
والعیاذ باللہ تعالٰی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹۵: مسئولہ محمد حسین سوداگر لکھیم پور ضلع کھری اودھ بر دکان محمد ضامن علی سودا گر ۴ رجب المرجب ۱۳۳۳ھ
علماء دین اس مسئلہ میں کیا فتوٰی دیتےہیں کہ ایک شخص نے ایک طوائف سے تعلقات ناجائز کئے جس کو عرصہ آٹھ برس کا ہوگیا۔ شروع زمانہ میں طوائف قسم کی رو سے پابند کی گئی مگر بعد کو عہد شکنی کی، ایک سال تک غیر پابندی کے ساتھ تعلقات رہے لیکن بعد کو پھر طوائف نے بہ کوشش خود پابندی اختیار کی۔ ظاہرہ ہر چند کوشش کی لیکن اس وقت تک پابند ظاہر ہے۔ اس درمیان میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جو اس وقت تک بعمر گیارہ ماہ ہے وہ شخص اس ناجائز تعلق سے کنارہ کش ہونا چاہتاہے مگر احباب لوگ رائے دیتے ہیں کہ اگر لڑکی اپنی عمرکو پہنچ کر اپنے پیشہ میں رہی تو اس شخص کا نامہ اعمال خراب ہوگالہذا اس شخص کو یہ دریافت طلب ہے کہ دفعۃ وہ شخص تعلقات سے کنارہ کشی اختیار کرے تو شرع سے اس کے ذمہ گناہ عائد ہوگا یا نہیں، اگر صریح گناہ ہے تو اس کی بریت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے اس شخص کے بیوی اور بچے بھی موجود ہیں اس وجہ سے وہ نکاح سے بھی علیحدہ رہنا چاہتاہے اور وہ شخص عرصہ سات برس سے اسی طوائف کے مکان پر مقیم ہے کبھی گاہے گاہے مہینہ پندرہ روز کو بتلاش روزگار باہر بھی چلا جاتاہے طوائف اور اس کے دیگر عزیز و اقارب کا مکان ایک ہی ہے لیکن اس کی نشست وبرخاست کی سرحد علیحدہ ہے اس میں کسی کا گزر نہیں بے پردگی ضرور ہے بہر حال جو کچھ احکام شرعی ونیز علمائے دین کی رائے ہو بواپسی ڈاک دستخط ثبت فرما کر احقر کے نام روانہ فرمائیں تاکہ اس شخص کو اس سے نجات ملے اور وہ شخص اپنی حرکات ناشائستہ سے توبہ بھی کرتاہے۔ فقط۔
الجواب : اللہ عزوجل ہدایت دے، شخص مذکورہ پر فرض قطعی ہے کہ فورا فورا یا تو اس عورت سے نکاح کرلے یا ابھی ابھی اسے جدا کردے جو آن دیر میں گزرے گی استحقاق عذاب الٰہی اس پر برابر رہے گا اور بے اس کے اس کی توبہ ہر گز مقبول نہیں۔
حدیث میں فرمایا کہ:
المستغفر من الذنب وہو مقیم علیہ کالمستھزئی بربہ، رواہ البیہقی ۱؎ فی شعب الایمان وابن عساکر عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔
جو گناہ پر قائم رہ کر توبہ کرے وہ اپنے رب جل جلالہ سے (معاذاللہ) تمسخر کرتاہے۔ (امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عسا کر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت فرمائی۔ ت)
(۱؎ شعب الایمان حدیث ۷۱۷۸ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵/ ۴۳۶)
اور وہ لڑکی شرعاً اس کی لڑکی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
للعاھر الحجر ۲؎
(بچہ اس کا ہے جس کے بستر پرپیدا ہو) اور زانی کے لئے کنکروپتھر ہیں۔ (یعنی اس سے نسب ثابت نہیں)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الوصایا باب قول الموصی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۸۳)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۲۳۹)
اور جب یہ تو بہ کرے گاوہ اگر گناہ کرے گی اس کا وبال اس پر عائد نہ ہوگا۔اللہ تعالٰی فرماتاہے:
لاتزر وازرۃ وزر اخرٰی ۱؎۔
کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائیگی (روز قیامت )۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴)
ہاں اگر یہ گناہ سے بچ کر آئندہ کسی تدبیر سے لڑکی کو گناہ سے بچا سکے تو ضرورہے کہ ایساکرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹۶: از مارواڑ موضع کنوٹوٹرہ علاقہ بھاؤنگر مسئولہ مولوی فضل امیر امام مسجد روزیک شنبہ بتاریخ ۱۲ صفر المظفر ۱۳۳۴ھ
اگر مسجد کے اندر وعظ یا میلاد کی محفل ہوتی ہو توکیا عورتوں کو مسجد کے اندر باپردہ آنے کی اجازت ہے یا کہ نماز پڑھنا عورتوں کو مسجد کے اندر جائز یاکہ نہیں؟
الجواب : عورتیں نماز مسجد سے ممنوع ہیں اور واعظ یا میلاد خواں اگر عالم سنی صحیح العقیدہ ہو اور اس کا وعظ وبیان صحیح ومطابق شرع ہو اور جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو اور کوئی احتمال فتنہ نہ ہو اور مجلس رجال سے دور ان کی نشست ہو تو حرج نہیں مگر مساجد کے جانے میں ان شرائط کا اجتماع خیال و تصور سے باہر شاید نہ ہوسکے،
ومن لم یعرف اھل زمانہ فھو جاہل ۲؎
(جو کوئی اپنے زمانے والوں کو نہ پہچانے تو نادان (اور ناسمجھ) ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب الوتر والنوافل مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۹)
مسئلہ ۹۷: از بنارس چھاؤنی محلہ دبٹوری محال تھانہ سکرور رسیدہ مولوی عبدالوہاب بروز چہار شنبہ بتاریخ ۲۱ صفرالمظفر ۱۳۳۴ھ
یہ کہ ایسے شخص کے سامنے جو ابھی جوان ہو اور وہ پیری مرید کرتا ہو تو عورتوں کو بلا پردہ جانا جائز ہے یانہیں؟ اور جبکہ خود پیر صاحب خواہش سے مجبور کرکے بلاتے ہیں۔
الجواب : بے پردہ بایں معنٰی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یاگلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز تو اس طورپو تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقا حرام ہے خواہ وہ پیر ہو یا عالم ۔ یا عامی جوان ہو، یا بوڑھا ، اور اگر بدن موٹے اور ڈھیلے کپڑوں سے ڈھکا ہے نہ ایسے باریک کہ بدن یا بالوں کی رنگت چمکے۔ نہ ایسے تنگ کہ بدن کی حالت دکھائیں اور جانا تنہائی میں نہ ہو او رپیر جوان نہ ہو، غرض کوئی فنتہ نہ فی الحال ہو، نہ اس کا اندیشہ ہو تو علم دین امور راہ خدا سیکھنے کے لئے جانے اور بلا نے میں حرج نہیں ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔