Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
32 - 146
مسئلہ ۸۸: از الموڑہ محلہ نقاری ٹولہ متصل تحصیل مرزا قاسم بیگ عنایت بیگ ۴ ذیقعدہ ۱۳۲۰ھ

جناب مولانا صاحب مخدوم ومطاع بندہ زاداللہ اشفاقہم بعد از تسلیم مع التکریم مدعا یہ ہے کہ ایک لڑکی ہے اس نے اپنے نان ونفقہ کا دعوٰی کیا ہے۔ اور اس لڑکی کو اس کے خاوند نے مارکر نکال دیا اس نے اپنے نان ونفقہ کا دعوٰی کیا ہے مگر اس میں یہ ہے کہ اس لڑکی کا دعوٰی کیا فوجداری میں صاحب مجسٹریٹ نے یہ حکم دیا کہ بڑے سول سرجن کا ملاحظہ کراؤ تو اس میں یہ ہے کہ اگر بڑا ڈاکٹر ملاحظہ کرے تو اس میں نکاح سے باہر ہوگی یانہ ہوگی، دیکھنا بڑے ڈاکٹر کا جائز ہے یانہیں؟ بینو ا توجروا
الجواب

بڑا ڈاکٹر خواہ چھوٹا، مسلمان ہو خواہ غیر مذہب کا اپنا ہو یا خواہ پرایا۔ باپ ہو یا خواہ بیٹا۔ غرض شوہر کے سوا کوئی مرد ہو اسے دکھانا حرام قطعی ہے سخت گناہ شدید ہے۔ اول تو نان نفقہ کے دعوے میں عورت کا ستر عورت دکھانے کی ضرورت نہیں، اگر ضرورت ہو بھی کہ مرد دعوٰی کرے یہ عورت مرد کے قابل نہیں تو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ حاکم کسی مسلمان عورت کوحکم دے کہ وہ دیکھ کر بیان کرے مرد کو دکھانا مذہب اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۸۹: مرسلہ محمد اکرم حسین از دوہری بوساطت مولانا حامد حسین صاحب رامپوری مدرس اول مدرسہ اہل سنت بریلی ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۲۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ شوہر اپنی بی بی اور بی بی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے یا نہیں؟ اور اس کا چھونا کیسا ہے یعنی مرد کو اپنی عورت کو اور عورت اپنے شوہر کو چھو سکتی ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب

زن وشو کا باہم ایک دوسرے کو حیات میں چھونا مطلقا جائز ہے  حتی کہ فرج وذکر کو بلکہ بہ نیت صالحہ موجب ثواب واجر ہے
کما نص علیہ سیدنا الامام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
 ( جیسا کہ ہمارے سردار امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی تصریح فرمائی۔ ت) البتہ بحالت حیض ونفاس زیر ناف زن سے زیر زانو تک چھونا منع ہوتاہے
علی قول الشیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما بہ یفتی
 (امام اعظم اور قاضی امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ارشاد کے مطابق یہ حکم ہے اور اس کے مطابق فتوٰی دیا جاتاہے۔ ت) اسی طرح اور عوارض خاصہ مثل اعتکاف واحرام وغیرہا کے باعث ان عوارض تک ممانعت ہوجاتی ہے۔ اور شوہر بعد وفات اپنی عورت کو دیکھ سکتا ہے مگر اس کے بدن کو چھو نے کی اجازت نہیں
لا نقطاع النکاح بالموت
(اس لئے کہ موت واقع ہوجانے سے نکاح منقطع ہوجاتا ہے۔ ت) اور عورت جب تک عدت میں ہے شوہر مرد کا بدن چھوسکتی اسے غسل دے سکتی ہے جبکہ اس سے پہلے بائن نہ ہو چکی ہو۔
لبقاء النکاح فی حقہا بالعدۃ نص علی ذٰلک فی تنویر الابصار والدرالمختار وغیرہما من معتمدات الاسفار۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
اس لئے کہ عدت کی وجہ سے عورت کے حق میں اس کا نکاح باقی رہتا ہے چنانچہ تنویرا لابصار اور درمختار اور ان کے علاوہ دیگر متعدد بڑی کتب میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۹۰ : ۲۱ ربیع الآخر شریف ۱۳۲۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وہ کون اشخاص ہیں کہ جن سے نکاح حرام اوروہ کون کون ہے جن سے پردہ کرنا درست نہیں۔ بینوا توجروا۔ (بیان فرمائیے اجر پائیے۔ ت)
الجواب

پردہ صرف ان سے نادرست ہے جو بسبب نسب کے عورت پر ہمیشہ ہمیشہ کو حرام ہوں اور کبھی کسی حالت میں ان سے نکاح ناممکن ہو جیسے باپ، دادا،نانا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، بیٹا، پوتا، نواسا، ان کے سواجن سے نکاح کبھی درست ہے اگر چہ فی الحال ناجائز ہو جیسے بہنوئی جب تک بہن زندہ ہے یا چاچا، ماموں، خالہ، پھوپھی کے بیٹے، یا جیٹھ، دیور ان سے پردہ واجب ہے اور جن سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے کبھی حلال نہیں ہوسکتا مگر وجہ حرمت علاقہ نسب نہیں بلکہ علاقہ رضاعت ہے جیسے دودھ کے رشتے سے باپ ،د ادا، نانا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، بیٹا، پوتا، نواسا، یا علاقہ صہر ہو جیسے خسر، ساس، داماد ، بہو، ان سب سے نہ پردہ واجب نہ نادرست ہے کرنا نہ کرنا دونوں جائز اور بحالت جوانی یا احتمال فتنہ پردہ کرنا ہی مناسب۔ خصوصا دودھ کے رشتے میں کہ عوام کے خیال میں اس کی ہیبت بہت کم ہوتی ہے جن سے نکاح حرام ہے ان کی بعض مثالیں اوپر گزریں اورپوری تفصیل آٹھ دس ورق میں آئے گی کتب فقہ میں مفصل مسطور ہے جو خاص امرد رپیش ہو اسی سے سوال کافی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹۱ : نامحرم عورتوں کو اندھے سے پردہ کرنا لازم ہے اس زمانہ میں یا نہیں ؟ اور مقتضٰی احتیاط کیا ہے؟
الجواب

اندھے سے پردہ ویسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ والے سے اور اس کا گھر میں جانا عورت کے پاس بیٹھنا ویسا ہی ہے جیسا آنکھ والے کا۔

حدیث میں ہے رسول اللہ صلی ا للہ تعالٰی تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
افعمیا وان انتما الستما تبصرانہ ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیا تم دونوں اندھی ہو کیا تم اسے دیکھ نہیں رہی ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ جامع الترمذی     ابواب الاستیذان والادب         باب ماجاء احتجاب النساء من الرجال     امین کمپنی دہلی        ۲/ ۱۰۱)
مسئلہ ۹۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ خلوت اجنبیہ کے ساتھ جائز اور زنان شوہر دار پر پردہ کرنا واجب ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب

خلوت اجنبیہ کے ساتھ حرام ہے۔ احادیث امیر المومنین عمر وعبداللہ بن عمر و جابر بن سمرہ وعامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں مرفوعا وراد :
الالا یخلون رجل بامرأۃ الاکان ثالثھما الشیطان ۱؎ وفی الاشباہ وتحرم الخلوۃ بالاجنبیۃ ویکرہ الکلام معہا۔
سن لو یعنی آگاہ ہوجاؤ کہ کوئی مرد کسی غیر محرم عورت کے پاس اکیلا نہیں بیٹھتا مگر حال یہ ہوتا ہے کہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتاہے۔ (لہذا وہ لعین انھیں برائی میں ڈالنے کی کوشش کرتاہے) اور الاشباہ والنظائر (کتب فقہ میں ہے) کہ غیر محرم عورت کے ساتھ تنہا بیٹھنا (اور خلوت اختیار کرنا ) شرعا حرام ہے اور اس سے باتیں کرنا مکروہ  اور ناپسندیدہ کام ہے۔ (ت)
 (۱؎ جامع الترمذی     کتاب الرضاع باب ماجاء فی کراہیۃ الدخول علی المغیبات     امین کمپنی دہلی        ۱/ ۱۴۰)

(جامع الترمذی     ابواب الفتن     باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ               امین کمپنی دہلی    ۲/ ۳۹)

(موارداالظمآن     حدیث ۲۳۸۲    کتاب المناقب         المطبعۃ السلفیہ ومکتبتہا     ص۵۶۸)

(المستدرک للحاکم     کتاب العلم خطبہ عمررضی اللہ عنہ         دارالفکر بیروت        ۱/ ۱۵۔ ۱۱۴)
اور زنان حرام کو بنص قرآن سترواجب اور جو ان عورتوں کو اس زمانہ میں حجاب لازم۔
فی الدرالمختار وینظر من الاجنبیۃ الی وجھھا فحل النظر مقید بعدم الشہوۃ والافحرام وہذا فی زمانہم اما فی زماننا فمنع من الشابۃ قہستانی وغیرہ انتھی ۳؎ ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے کسی اجنبیہ (غیر متعلقہ) عورت کو (مرد) دیکھ سکتا ہے لیکن اس دیکھنے کا جائز ہونا اس قید سے مقید ہے کہ دیکھنے والا بشہوت نہ دیکھے ورنہ عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے اور یہ حکم بھی ان کے زمانے میں تھا (مرادیہ کہ زمانہ سابق میں تھا) لیکن اب ہمارے زمانے میں یہ حکم ہے کہ جوان عورت کو دیکھنا ممنوع ہے۔ قہستانی وغیرہ میں یہی مذکور ہے انتہی ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۲؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث احکام الانثی     ادارۃ القرآن کراچی        ۲/ ۱۷۵)

(۳؎ درمختار         کتاب الحظروالاباحۃ     باب فی النظروالمس     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۴۲۔۲۴۱)
Flag Counter