جواب سوال ہشتم ونہم: ان دونوں سوالوں کا جواب بعد ملاحظہ اصل سوم وجوابات سابقہ ظاہر کہ بعد اسقاط اعتبار ملک ولحاظ سکونت یہ ان سے جدا کوئی صورت نہیں۔
جواب سوال دہم: ملک کا حال وہی ہے جو اوپر گزرا،اور شوہر کے پاس جانا مطلقا جائز جبکہ ستر حاصل اور تحفظ کامل اور ہر گونہ اندیشہ فتنہ زائل او ر موقع غیر موقع ممنوع وباطل ہو۔ اور شوہر جس مکان میں رہے اگر چہ ملک مشترک بلکہ غیر کی ملک ہو اس کے پاس رہنے کی بھی بشرائط معلومہ مطلقا اجازت بلکہ جب نہ مہر معجل کا تقاضا نہ مکان مغصوب ہونے کے باعث دین یاجان کا ضررہو اور شوہر شرائط سکنائے واجبہ مذکورہ فقہ بجا لایا ہو تو واجب انھیں شرائط سے واضح ہوگا کہ مسکن میں اوروں کی شرکت سکونت کہاں تک تحمل کی جاسکتی ہے اتنا ضروری ہے کہ عورت کو ضرر دینا بنص قطعی قرآن عظیم حرام ہے۔ اور شک نہیں کہ اجنبی مرد تو مرد ہیں سو تن کی شرکت بھی ضرررساں ، اور جہاں ساس ، نند، دیورانی، جٹھانی سے ایذا ہو تو ان سے بھی جدا رکھنا حق زنان والتفصیل فی ردالمحتار۔
جواب سوال یازدہم: یہ تقریبا وہی سوال ہے محار م کے یہاں بشرائط جائز، جواب سوم بھی ملحوظ رہے ورنہ خدا کے گھر یعنی مساجد سے بہتر عام محفل کہاں ہوگی۔ اور ستر بھی کیسا کہ مردوں کی ادھر ایسی پیٹھ کہ منہ نہیں کرسکتے اور انھیں حکم کہ بعد سلام جب تک عورتیں نہ نکل جائیں نہ اٹھو مگر علماء نے اولا کچھ تخصیصیں کیں جب زمانہ فتن کا آیا مطلقا ناجائز فرمادیا۔
جواب سوال دوازدہم: اگر جانے میں اس حالت میں جانے سے انکار کروں تو انھیں منہیات کا چھوڑنا پڑے گا تو جب تک ترک نہ کریں جانا ناجائز، اور جانے کہ میں جاؤں تو میرے سامنے منہیات نہ کرسکیں گے تو جانا واجب۔ جبکہ خود اس جانے میں منکر کا ارتکاب نہ ہو۔ اور اگرنہ یہ نہ وہ تو محل عاروطعن وبدگوئی وبدگمانی سے احتراز لازم۔ خصوصا مقتدا کو۔ ورنہ بشرائط معلومہ جبکہ حالت مذکورہ سوال ہو کہ اسے نہ حظ نہ توجہ، اگر چہ تحریم نہیں مگر حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ شہنا کی آواز سن کر کانوں میں انگلیاں دیں اور یہی فعل حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نقل کیا اس سے احتراز کی طرف داعی خصوصا نازک دل عورتوں کے لئے حدیث انجشہ ابھی گزری اور صلاح پر اعتمادنری غلطی ع
بساکیں آفت از آواز خیزد
(بہت دفعہ آواز سے آفت آپڑتی ہے۔ ت)
ع حسن بلائے چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے۔
جواب سوال سیزدہم: جواب پنجم ملاحظہ ہو، عورت کا عورت کے ساتھ ہونا زیادت عورت ہے نہ حفاظت کی صورت سونے پر سونا جتنا بڑھاتے جائے محافظ کی ضرورت ہوگی نہ کہ ایک توڑا دوسرے کی نگہداشت کرے۔
جواب سوال چہاردہم: گناہ میں کسی کا اتباع نہیں ہاں وہ صورتیں جہاں منع صرف حق شوہر کے لئے ہے جیسے مہر معجل نہ رکھنے والی کا ہفتے کے اندر والدین یا سال کے اندر دے کر محارم کے یہاں جانا وہاں شب باش ہونا یہ اجازت شوہر سے جائز ہوجائے گا۔ والا لا۔
جواب سوال پانزدہم:
الرجال قوامون علی النساء ۱؎
(مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ ت) مرد کو لازم کہ اپنی اہلیہ کو حتی المقدور مناہی سے روکے
یایھاالذین اٰمنوا قواانفسکم و اھلیکم نارا ۲؎
(اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ۔ عورت بحال نافرمانی دہری گناہگار ہوگی۔ ایک گناہ شرع، دوسرے گناہ نافرمانی شوہر، اس سے زیادہ اثر جو عوام میں مشتہر کہ بے اذن جائے تو نکاح سے جائے غلط اور باطل۔ مگر جبکہ شوہر نے ایسے جانے پر طلاق بائن معلق کی ہو، مرد ہر مجلس خالی عن المنکرات میں شریک ہوسکتا ہے اور نہی عن المنکر کے لئے مجالس منکرہ میں بھی جانا ممکن جبکہ مشیر فتنہ نہ ہو،
والفتنۃ اکبر من القتل ۳؎
(فتنہ قتل سے بڑا ہے۔ ت) مگر تجسس واتباع عورات ودخول دار غیر بے اذن کی اجازت نہیں ۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴ / ۳۴) (۲؎القرآن الکریم ۶۶/ ۶) (۳؎القرآن الکریم ۲/ ۲۱۷)
جواب سوال شانزدہم: عورتوں کے لئے محرم عورت کے معنی اصل پنجم میں گزرے اور نہ بھیجنے میں اصلا محذور شرعی نہیں اگر چہ مجلس محارم زن کے یہاں ہو بلکہ اگر واعظ اکثر واعظان زمانہ کی طرح کہ جاہل وناعاقل وبیباک وناقابل ہوتے ہیں مبلغ علم کچھ اشعار خوانی یا بے سرو پاکہانی یا تفسیر مصنوع یا تحدیث موضوع، نہ عقا ئد کا پاس نہ مسائل کا احتفاظ۔ نہ خدا سے شرم نہ رسول کا لحاظ ، غایت مقصود پسند عوام اور نہایت مراد جمع حطام۔ یا ذاکر ایسے ہی ذاکرین غافلین مبطلین جاہلین سے کہ رسائل پڑھیں تو جہال مغرور کے اشعار گائیں تو شعراء بے شعور کے انبیاء کی توہین خدا پر اتہام اور نعت ومنقبت کا نام بدنام، جب تو جانا بھی گناہ بھیجنا بھی حرام۔ اور اپنے یہاں انعقاد مجمع اثام۔ آج کل اکثرمواعظ ومجالس عوام کا یہی حال پر ملال۔
فاناﷲ وانا الیہ راجعون۔
اسی طرح اگر عادت نساء سے معلوم یا مظنون کہ بنام مجلس وعظ وذکر اقدس جائیں اور سنیں نہ سنائیں بلکہ عین وقت ذکر اپنی کچریاں پکائیں جیسا کہ غالب احوال زنان زمان، تو بھی ممانعت ہی سبیل ہے کہ اب یہ جانا اگر چہ بنام خیر مگر مروجہ غیرہے ذکر وتذکیر کے وقت لغو ولفظ شرعا ممنوع وغلط، اور اگر ان سب مفاسد سے خالی ہو اور وہ قلیل ونادر ہے تو محارم کے یہاں بشرائط معلومہ بھیجنے میں حرج نہیں اور غیر محارم یعنی مکان غیر یا غیر مکان میں بھیجنا اگر کسی طرح احتمال فتنہ یا منکر کا مظنہ یا وعظ وذکر سے پہلے پہنچ کر اپنی مجلس جمانا یا بعد ختم اسی مجمع زنان کا رنگ منانا ہو تو بھی نہ بھیجے کہ منکر ونامنکر اور بلحاظ تقریرجواب سوم و ہفتم یہ شرائط عام تر، ا ورا گر فرض کیجئے کہ واعظ وذاکر عالم سنی متدین ماہر اور عورتیں جاکرحسب آداب شرع بحضور قلب سمع میں مشغول رہیں اور حال مجلس وسابق ولاحق وذہاب وایاب بلکہ جملہ اوقات میں جمیع منکرات وشنائع مالوفہ وغیر مالوفہ معروفہ وغیر معروفہ سب سے تحفظ تام وتحرز تمام پر اطمینان کافی ووافی ہو، اور سبحان اللہ کہاں تحرز اور کہاں اطمینان تو محارم کے یہاں بھیجنے میں اصلا حرج نہیں ہے نہ اجانب
فہذا ممااستخیر اﷲ تعالٰی فیہ
(یہ وہ جس میں اللہ تعالٰی سے خیر کی دعا ہے۔ ت) وجیز کردری میں فرمایا: عورت کاوعظ سننے کو جانا
لاباس بہ ہے ۱؎۔
جس کا حاصل کراہت تنزیہی۔
(۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الفصل الثامن عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۵۷)
امام فخر الاسلام نے فرمایا: وعظ کی طرف عورت کا خروج مطلقا مکرو ہ ہے۔ جس کا اطلاق مفید کراہت تحریمی، اور انصاف کیجئے تو عورت کا بستر کامل وحفظ شامل اپنے گھر کے پاس مسجد میں صلحاء محارم کے ساتھ تکبیر کے وقت جاکر نماز میں شریک ہونا اور سلام ہوتے ہی دو قدم رکھ کر گھر میں جانا ہر گز فتنہ کی گنجائشوں تو سیعوں کا ویساہی احتمال نہیں رکھتا جیسا کہ غیر محلہ غیر جگہ بے معیت محرم مکان اجانب واحاطہ مقبوضہ اباعد میں جاکر مجمع ناقصات العقل والدین کے ساتھ مخلے بالطبع ہونا پھر اسے علماء نے بلحاظ زمان مطلقا منع فرمادیا باآنکہ صحیح حدیثوں میں اس سے ممانعت کی ممانعت موجود اور حاضرین عیدین پر تو یہاں تک تاکید اکید کہ حیض والیاں بھی نکلیں۔ اگر چادر نہ رکھتی ہوں دوسری اپنی چادروں میں شریک کرلیں۔ مصلے سے الگ بیھٹی خیر ودعاء مسلمین کی برکت لیں تو یہ صورت اولٰی بالمنع ہے شرع مطہر فقط فتنہ ہی سے منع نہیں فرماتی بلکہ کلیۃً اس کا سدباب کرتی اور حیلہ ووسیلہ شرک کے یکسر پر کترتی ہے غیر وں کے گھر جہاں نہ اپنا قابو نہ اپنا گزر حدیث میں تو اپنے مکانوں کی نسبت آیا
لاتسکنوھن الغرف ۱؎
عورتوں کو بالاخانوں پر نہ رکھو۔ یہ وہی طائر نگاہ کے پرکترتے ہیں شرع مطہر نہیں فرماتی کہ تم خاص لیلٰی وسلمٰی پر بدگمانی کرو یا خاص زید وعمر وکے مکانوں کو مظنہ فتنہ کہو یا خاص کسی جماعت زنان کو مجمع نا بایستنی بتاؤ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتی ہے کہ
ان من الخرز سوء الظن
(بدگمانی میں حفاظت ہے۔ ت) ؎
نگہ دارد آں شوخ درکیسہ دُر کہ داند ہمہ خلق راکیسہ بُر
(نگاہ رکھ اے ہوشیار آدمی جیب میں موتی والے۔ کیونکہ جیب کترے ہر ایک کو جانتے ہیں۔ ت)
(۱؎ تاریخ بغداد ترجمہ یحیٰی بن زکریا نمبر ۷۵۲۰ دارالکتاب العربی بیروت ۱۴/ ۲۲۴)
صالح وطالح کسی کے منہ پر نہیں لکھا ہوتا ظاہر ہزار جگہ خصوصا اس زمن فتن میں باطن کے خلاف ہوتاہے۔ اور مطابق بھی ہو تو صالحین وصالحات معصوم نہیں اور علم باطن و ادراک غیب کی طرف راہ کہاں اور سب سے در گزرے تو آج کل عامہ ناس خصوصا نساء میں بڑا ہنر آن ہوی جوڑلینا طوفان لگادینا ہے کاجل کی کوٹھڑی کے پاس ہی کیوں جائے کہ دھبا کھائیے۔ لاجرم سبیل یہی ہے کہ بالکل دربا ہی جلا دیا جائے ع
وہ سرہی ہم نہیں رکھتے جسے سودا ہو سامان کا
شرع مطہر حکیم ہے اور مؤمنین اور مومنات پر رؤف ورحیم۔ اس کی عادت کریمہ ہے کہ ایسے مواضع احتیاط میں مابہ باس کے اندیشہ سے مالاباس بہ کہہ کر منع فرماتی ہے جب شراب حرام فرمائی اس صورت کے برتنوں میں نبیذ ڈالنی منع فرمادی جن میں شراب اٹھایا کرتے تھے کہ زید کہے بارہا ایسے مجامع ہوتے ہیں کبھی فتنہ نہ ہوا جان برادر علاج واقعہ کیابعد الوقوع چاہئے
ماکل مرۃتسلم الجرۃ
(مٹکا ہر مرتبہ سالم نہیں رہتا۔ ت) ع ہر بار سبو زچاہ سالم نرسید (بھرا مٹکا ہر بار کنویں سے سالم نہیں پہنچتا۔ ت)
اکل وشرب وغیرہما کی صدہا صورتوں میں اطباء لکھتے ہیں یہ مضرہے اور لوگ ہزار بارکرتے ہیں طبیعت کی قوت ضد کی مقاومت تقدیر کی مساعدت کہ ضرر نہیں ہوتا اس سے اس کا بے غائلہ ہونا سمجھا جائےگا خدا پناہ دے بری گھڑی کہہ کرنہیں آتی اجنبیوں سے علماء کا ایجاب حجاب آخر اسی سد فتنہ کے لئے ہے پھر سوا چند توفیق رفیق بندوں کے چچا ماموں خالہ پھوپھی کے بیٹوں کنبے بھر کے رشتہ داروں کے سامنے ہونے کا کیسا رواج ہے اور اللہ بچاتا ہے فتنہ نہیں ہوتا اس سے بدتر عام خدا ناترس ہندیوں کے وہ بدلحاظی کے لباس آدھے سر کے بال اور کلائیاں اور کچھ حصہ گلووشکم وساق کا کھلا رہنا تو کسی گنتی شمارہی میں نہیں، اور زیادہ بانکپن ہو ا تو دوپٹہ شانوں پر ڈھلکا ہوا کریب یا جالی باریک یا خاص ململ کا جس سے سب بدن چمکے اور اس حالت کے ساتھ ان رشتہ داروں کے سامنے پھرنا بااینہمہ وہ رؤف ورحیم حفظ فرماتاہے فنتہ نہیں ہوتا ان اعضاء کا ستر کیا بعینہٖ واجب تھا حاشا بلکہ وہی وداعی وسد باب پھر اگر ہزار بار داعی نہ ہوئے تو کیا وہ حکم حکمت باطل ہوجائینگے شرع مطہر جب مظنہ پر حکم دائر فرماتی ہے اصل علت پر اصلا مدار نہیں رکھتی وہ چاہے کبھی نہ ہو نفس مظنہ پر حکم چلے گا فقیر کے پاس تویہ ہے اور جو اس سے بہتر جانتا ہو مجھے مطلع کرے بہرحال اس قدریقینی کہ بھیجنا محتمل اور نہ بھیجنا بالاجماع جائز وبے خلل، لہذا فقیر غفراللہ تعالٰی لہ کے نزدیک اسی پر عمل رہا واعظ وذاکر وہ بشرطیکہ جس منکر پر اطلاع پائے حسب قدرت انکارو ہدایت کرے ہر مجلس میں جاسکتا ہے
واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
کتب عبدہ المذنب احمد رضا عفی عنہ بمحمدن المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
رسالہ مروج النجا لخروج النساء
ختم شد