ہفتم: یہ اور وہ سب یعنی مکان غیروغیر مکان میں جانا بشرائط مذکورہ جائز ہونے کی نو صورتیں ہیں:
(۱) قابلہ(۲) غاسلہ (۳) نازلہ (۴) مریضہ (۵) مضطرہ (۶) حاجہ (۷) مجاہدہ (۸) مسافرہ (۹) کاسبہ۔
قابلہ: یہ کہ کسی عورت کو درد زہ ہو یہ دائی ہے۔
غاسلہ: جب کوئی عورت مرے یہ نہلانے والی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اگر شوہر دار ہے تو اذن شوہر ضرور جبکہ مہر معجل نہ ہو یا تھا تو پاچکی۔
نازلہ: جب اسے کسی مسئلہ کی ضرورت پیش آئے اور خود عالم کے یہاں جائے بغیر کام نہیں نکل سکتا۔
مریضہ: کہ طبیب کو بلا نہیں سکتی نبض کو دکھانے کی ضرورت ہے اسی طرح زچہ ومریضہ کا علاجاً حمام کو جانا جبکہ وہاں کسی طرف سے کشف عورت اور بند مکان میں گرم پانی سے گھر میں نہانا کفایت نہ ہو۔
مضطرہ: کہ مکان میں آگ لگی یا گرا پڑتا ہے یا چور گھس آئے یادرندہ آتا ہے غرض ایسی کوئی حالت واقع ہوئی کہ حفظ دین یا ناموس یا جان کے لئے گھر چھوڑ کر کسی جائے امن وامان میں جائے بغیر چارہ نہیں اور عضو شق نفس اور مال اس کا شقیق ہے۔
حاجہ: ظاہر ہے اور زائرہ اس میں داخل کہ زیارت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تتمہ حج بلکہ متممہ حج ہے۔
مجاھدہ: جب عیاذا باللہ عیاذا باللہ عیاذا باللہ اسلام کو حاجت اور بحکم امام نفیر عام کی نوبت ہو فرض ہے کہ ہر غلام بے اذن مولٰی ہر پسر بے اذن والدین ہر پردہ نشین بے اذن شوہر جہاد کو نکلے جبکہ استطاعت جہاد وسلاح وزاد ہو۔
مسافرہ: جو عورت سفر جائز کو جائے مثلا والدین مدت سفر پر ہیں یا شوہر نے کہ دور نوکر ہے اپنے پاس بلایا اور محرم ساتھ ہے تو منزلوں پر سراوغیرہ میں اترنے سے چارہ نہیں۔
کاسبہ: عورت بے شوہر ہے یاشوہر بے جوہر کہ خبر گیری نہیں کرتا۔ نہ اپنے پا س کچھ کہ دن کاٹے، نہ اقارب کو توفیق یا استطاعت ، نہ بیت المال منتطم۔ نہ گھر بیٹھے دستکاری پر قدرت، نہ محارم کے یہاں ذریعہ خدمت ، نہ بحال بے شوہری کسی کو اس سے نکاح کی رغبت تو جائز ہے کہ بشرط تحفظ وتحرز اجانب کے یہاں جائز وسیلہ رزق پیدا کرے جس میں کسی مرد سے خلوت نہ ہو حتی الامکان وہاں ایسا کام لے جو اپنے گھر آکر کرلے جیسے سینا پیسنا، ورنہ اس گھر میں نوکری کرلے جس میں صرف عورتیں ہوں یا نابالغ بچے، ورنہ جہاں کا مرد متقی پرہیز گار ہو اور ساٹھ ستر برس کی پیر زال بدشکل کریہہ النظر کو خلوت میں بھی مضائقہ نہیں۔
تنبیہ: ان کے سوا تین صورتیں اور بھی ہیں: شاہدہ، طالبہ، مطلوبہ۔
شاھدہ: وہ جس کے پاس کسی حق اللہ مثل رؤیت ہلال رمضان وسماع طلاق وعتق وغیرہا میں شہادت ہو اور ثبوت اس کی گواہی وحاضری دارالقضا پر موقوف خواہ بشرط مذکور کسی حق العبد مثل عتق غلام و نکاح معاملات مالیہ کی گواہی اور مدعی اس سے طالب اور قاضی عادل اور قبول مامول اوردن کے دن گواہی دے کرواپس آسکے۔
طالبہ: جب اس کا کسی پر حق آتا ہو اور بے جائے دعوٰی نہیں ہوسکتا۔
مطلوبہ :ـ جب اس پر کسی نے غلط دعوٰی کیا اور جواب دہی میں جانا ضرور۔
یہ صورتیں بھی علماء نے شمار فرمائیں۔ مگر بحمداللہ تعالٰی پردہ نشینوں کو ان کی حاجت نہیں کہ ان کی طرف سے وکالت مقبول اور حاکم شرع کا خود آکر نائب بھیج کر ان سے شہادت لینا معمول۔ یہ بیان کافی وصافی، بحمداللہ تعالٰی تمام صور کو حاوی ووافی، بعونہٖ تعالٰی اب جواب جزئیات ملاحظہ ہو۔
جواب سوال اول: وہ مکان محارم ہے یا مکان غیر یا غیر مکان اور وہاں جانے کی طرف حاجت شرعیہ داعی یا نہیں سب صور کا مفصل بیان مع شرائط ومستثنیات گزرا۔
جواب سوال دوم: اگریہ مرا د کہ نامحرم بھی ہیں تو وہی سوال اول ہے اور اگر یہ مقصود کہ نامحرم ہی ہیں تو جواب ناجائز مگر بصور استثناء۔
جواب سوال سوم: زن محرم کے یہاں اس کی زیارت عیادت تعزیت کسی شرعی حاجت کے لئے جانا بشرائط مذکورہ اصل اول جائز مگر کتب معتمدہ مثل مجموع النوازل وخلاصۃ وفتح القدیر وبحرالرائق واشباہ وغمزالعیون وطریقہ محمدیہ ودرمختار وابوالسعود وشرنبلالیہ وہندیہ وغیرہ میں ظاہر کلمات ائمہ کرام شادیوں میں جانے سے مطلقا ممانعت ہے اگر چہ محارم کے یہاں علامہ احمد طحطاوی نے اسی پر جزم اور علامہ مصطفی رحمتی وعلامہ شامی نے اسی کا استظہار کیا اور یہی مقتضی ہے حدیث عبداللہ بن عمرو وحدیث خولہ بنت الیمان وحدیث عبادہ بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا ،
فلتنظر نفس ما ذا تری،
(پس ہر جان کو غور کرنا چاہئے جو کچھ غور کرناہے۔ ت) اوراگر شادیاں ان فواحش ومنکرات پر مشتمل ہوں جن کی طرف ہم نے اصل اول میں اشارہ کیا تو منع یقینی ہے اور شوہر دا ر کو تو شوہر بہر حال اس سے روک سکتا ہے جبکہ مہر معجل سے کچھ باقی نہ ہو۔
جواب سوال چہارم: نہ مگر باستثناء مذکور۔
جواب سوال پنجم: وہ مکان اگر اس زن محرم کا مسکن ہے تو اس کے پاس جانا تفصیل مذکور جواب سوم پر ہے ورنہ یوں کہ نامحرموں کے یہاں دو بہنیں جائیں کہ وہاں ہر ایک دوسرے کی محرم ہوگی اجازت نہیں کہ ممنوع وممنوع مل کر نا ممنوع نہ ہوں گے۔
جواب سوال ششم: اگر وہ مکان ان زنان محارم کا ہے تو جواب جواب سوم ہے کہ گزرا ورنہ جواب ہفتم کہ آتا ہے۔
(اے اللہ! فتنوں، آفتوں اورعورتوں کے مکر سے تیری پناہ ۔ ت) یہ مسئلہ مکان اجانب میں زنان اجنبیہ کے پاس عورتوں کے جانے کا ہے علماء کرام نے مواضع استثناء ذکر کرکے فرمادیا:
و فیما عداذٰلک وان اذن کانا عاصیین منہ ۱؎۔
ان کے ماوراء میں اورا گر شوہر اذن دے تو وہ بھی گنہ گار ۔
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب النکاح الفصل الخامس عشر فی الحظرولاباحۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲/ ۵۳)
اس نفی کا عموم سب کو شامل پھر ان مواضع میں ماں کے پاس جانا بھی شمار فرمایا اور دیگر محارم کے پاس بھی، اور اس کی مثال خانیہ۱ وغیرہا میں خالہ وعمہ وخواہر سے دی نیز علماء نے قابلہ وغاسلہ کا استثناء کیا اور پر ظاہر کہ وہ نہ جائیں گی مگر عورات کے پاس اگر زنان اجنبیہ کے پاس جانا مواضع استثناء سے مخصوص نہ ہوتا تو استثناء میں مادر وخالہ وخواہر وعمہ وقابلہ وغاسلہ کے ذکر کے کوئی معنی نہ تھے احادیث ثلثہ مشارالیہا میں ارشاد ہوا عورتوں کے اجتماع میں خیر نہیں ۲حدیثین اولین میں اس کی علت فرمائی کہ وہ جب اکٹھی ہوتی ہیں بیہودہ باتیں کرتی ہیں ۳؎۔ حدیث ثالث میں فرمایا ان کے جمع ہونے کی مثال ایسی ہے جیسے صیقل کرنے لوہا تپایا جب آگ ہوگیا کوٹنا شروع کیا جس چیز پر اس کا پھول پڑا جلادی۴
رواھن جمیعا الطبرانی فی الکبیر
(جمیع احادیث کو طبرانی نے کبیر میں روایت کیا)
(۱؎فتاوٰی قاضی خاں کتاب النکاح باب النفقۃ نولکشور لکھنؤ ۱/ ۱۹۴)
(۲؎ المعجم الکبیر مروی عن عبداللہ بن عمر حدیث ۱۳۲۲۸ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۱۲/ ۳۱۷)
(۳؎المعجم الکبیر خولہ بنت الیمان حدیث ۶۳۲ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۲۴/ ۲۴۶)
(المعجم الاوسط حدیث ۷۱۲۶ مکتبہ المعارف الریاض ۸/ ۶۴)
(۴؎ مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتا ب الاذکار باب ماجاء فی مجالس الذکر دارالکتب بیروت ۱۰ /۷۷۔۷۸)
عورتیں کہ بوجہ نقصان عقل ودین سنگدل اور امر حق سے کم منفعل ہیں
ولذا لم یکمل منھن الا قلیل
(عورتوں سے کوئی کام کامل نہ ہو مگر قلیل ۔ ت) لوہے سے تشبہ دی گئیں اور نار شہوات و خلاعات کہ ان میں رجال سے سو حصہ زائد مشتعل لوہار کی بھٹی اور ان کا مخلے بالطبع ہوکر اجتماع لوہے اور ہتھوڑے کی صحبت ا ب جو چنگاریاں اڑیں گی دین، ناموس ، حیاء، غیرت، جس پر پڑیں گی صاف پھونک دیں گی، سلمٰی پار سا ہے ہاں پارسا ہے وبارک اللہ۔ مگر جان برادر! کیا پارسائیں معصوم ہوتی ہیں کیا صحبت بد میں اثر نہیں جب قیموں سے جدا خود سر و آزاد ایک مکان میں جمع اور قمیوں کے آنے دیکھنے سے بھی اطمینان حاصل
فانما خلقت من ضلع اعوج ۵؎
کج سے بنی کج ہی چلے گی آپ نادان ہے تو شدہ شدہ سیکھ کر رنگ بدلے گی جسے تشقیف زنان کی پرو ا نہیں یا حالات زماں سے آگاہ نہیں اول ظالم کا تو نام نہ لیجئے اورثانی صالح سے گزراش کیجئے ع
معذور دارمت کہ تواو را ندا ندیدہ
(مجھے معذور رکھ کر تونے اسے دیکھا نہیں۔ ت)
(۵؎ صحیح البخاری کتاب الانبیاء ۱/ ۴۶۹ و کتاب النکاح ۱/ ۷۷۹ قدیمی کتب خانہ کراچی)
(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۷۵)
مجمع زنان کی شناعت وہ ہیں کہ
لاینبغی ان تذکرفضلا ان تسطر
(جن کا ذکر نامناسب ہے چہ جائیکہ لکھا جائے ۔ت) جسے ان نازک شیشوں کو صدمے سے بچانا ہو تو راہ یہی ہے کہ شیشیاں شیشیاں بھی بے حاجت شرعیہ نہ ملنے پائیں کہ آپس میں مل کر بھی ٹھیس کھاجاتی ہیں حاجات شرعیہ وہی جو علمائے کرام نے استثناء فرمادیں، غرض احادیث مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہلکا نہیں کہ اجتماع نساء میں خیر وصلاح نہیں آئندہ اختیار بدست مختار۔