Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
3 - 146
ظاہر ہے کہ بحال خیاطت فی الثوب زر کو علاقہ سے کیا علاقہ، فتاوٰی ولوالجی پھر شلبی علی التبیین میں ہے :
لابا س بان یلبس المحرم الطیلسان و لایزرہ علیہ فان زرہ یوما فعلیہ دم لانہ صار منتفعا بہ انتفاع المخیط ۳؎۔
اس میں کوئی حرج نہیں کہ محرم (بحال احرام) بڑی چادر پہنے لیکن اسے گرہ نہ لگائے پھر اگر پورا دن اسے گرہ لگا رکھی تو اس دم (جانور ذبح کرنا) لازم ہوگا اس لئے کہ اس نے پہنے ہوئے کپڑے کی طرح اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ (ت)
(۳؎ شلبی علی التبیین     کتاب الحج باب لجنایات         المطبعۃ الکبری الامیریہ بولاق مصر    ۲ /۵۴)
منسک متوسط اور اس کی شرح مسلک متقسط بیان محرمات احرام میں ہے :
(زر الطیلسان) ای ربطہ بالزر  وعقدہ علی عنقہ ۴؎۔
بڑی چادر کو گرہ لگانا یعنی اسے گرہ لگاکر گردن پر باندھنا ۔ (ت)
 (۴؎ المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط     فصل فی المحرمات الاحرام     درالکتاب العربی بیروت   ص۸۱)
فتح القدیر میں ہے :
ان زرالطیلسان  یوما لزمہ دم لحصول الاستمساک بالزر مع الاشتمال بالخیاطۃ ۵؎۔
اگربڑی  چادر کو دن بھر گرہ لگائے تو اس صورت میں اس پر دم (جانور ذبح کرنا) لازم آئے گا اس لئے کہ بوجہ گرہ لگانے اس کا تھم جانا (رک جانا) حاصل ہوا باوجود یہ کہ سلائی پر بھی شامل ہے۔ (ت)
 (۵؎ فتح القدیر    کتاب الحج باب الجنایات    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۲ /۴۴۳)
درمختار میں ہے :
یستحب لبس ازار ورداء فان زررہ اوخللہ اوعقدہ اساء ولادم علیہ ۱؎۔
تہبند اور چار کا پہننا مستحب ہے پھر اگر اسے گرہ لگائے یا اسے کھولے یا اسے گرہ لگا کر باندھے تو اس نے برا کیا لیکن اس پر دم نہیں (یعنی جانورذبح کرنا لازم نہیں)۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الحج     فصل فی الاحرام   مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۶۳)
ظاہر ہے کہ طیلسان وچادر میں گھنڈیاں سلی نہیں ہوتی اور اطحام مذکورہ خیاطت پر موقوف نہیں بلکہ بلاخیاطت صورت ربط ہی زیادہ مقصود بالافادہ ہے کہ محرم کا مخیط سے احتراز تو معہودومشہور ار بجائے خود مذکور ہے ابوداؤد ونسائی وابن خزیمہ وابن حبان وحاکم سب اپنی صحاح میں اور امام اجل ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال قلت یا رسول اﷲ انی رجل اصید  افاصلی فی القمیص الواحد قال نعم وازررہ لوبشوکۃ ۲؎۔
 (حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ سالت میں) عرض کی : میں ایک شکاری آدمی ہوں ایک کرنے میں نماز پڑسکتاہوں، ارشاد فرمایا: ہاں (پڑھ سکتے ہو) لیکن اسے باندھ لو اگر چہ کسی کانٹے ہی سے کیو ں نہ ہو، مطلب یہ کہ اسے جوڑکر نما زپڑھو۔ (ت)
 (۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الصلٰوۃ باب الرجل یصلی فی قمیص واحد آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۹۲)

(شرح معانی  لآثار     کتاب الصلٰوۃ  باب الصلٰوۃ فی الثوب الواحد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۶۰)
یہاں کانٹے کو بھی زر فرمایا ،
والاصل الحقیقۃ والعدول الی المجاز من دون ضرورۃ غیر مجاز
حقیقت اصل ہے۔ اور بغیر کسی ضرورت (حقیقت چھوڑ کر) مجاز کی طرف جانا جائز نہیں۔ (ت)

تو بوتام یا بٹن نفس معنی زر میں داخل ہیں نہ کہ ان کا گھنڈی پر قیاس ہو۔
دوم : لفظ ذھب منسوج وحرج دونوں کو شامل ، بلکہ وہ حجر میں اصل حقیقت پر ہے اور کلابتوں پر اس کا اطلاق از قبیل تسمیۃ الکل باسم الجزء ہے کہ اس میں ریشم بھی ہوتاہے اور گھنڈیاں انھیں منسوجات سے خاص نہیں بلکہ امراء کے یہاں سونے چاندی اور لعل ویاقوت کی بھی ہوتی۔
قال قائلھم
 (ان کے کسی کہنے والے نے کہا۔ ت)ـ: ؎
ترانہ تکمہ لعل ست برقبائے حرر     شدست قطرہ خون منت گریباں گیر
 (ریشمی جبے پر تیرے لئے لعل وگوہر کی گھنڈیاں (بٹن) میرے خون کے ایک قطرہ نے تیرا گریبان پکڑ لیا۔ ت)

تکمہ فارسی میں زر کا ترجمہ ہے جسے عربی میں
زِیْر، دَجَّہ ، جَوْزَہ۔ جَوِیْزہ، حبہ
بھی کہتے ہیں۔ اور وہ حلقہ جسے اردو میں تکمہ بولتے ہیں، فارسی میں انگلہ اور عربی میں عروہ  و وعلہ ہے تو سیرکبیر وذخیرہ وتاتارخانیہ ودرمختار وعالمگیریہ وغیرہا کے نصوص مذکورہ سونے کے بٹن کا خاص جزئیہ ہیں،
ولاکلام لاحد بعد صرائح النصوص
 (صریح اور واضح نصوص کے بعد کسی کو کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ت)
سوم : یہیں سے کھل گیا کہ یہ بٹن بھی گھنڈیوں کی طرح تابع ہں کہ علماء نے مطلقا زر کو تابع بتایا اور زر انھیں میں شامل مگر تکثیر فوائد کے لئے معنی تابع پر بحث کریں اصلا کسی کتاب سے ثابت نہیں کہ تبعیت کےلئے دوختہ یا بافتہ یا نفس ذات تابع میں سیم وزر وابریشم کا کسی چیز مخلوط ہونا ضرور ہو۔ ہاں تابع کی متبوع سے معیت چاہئے کہ نہ خود اجناس مختلفہ سے ترکب، متون مذہب میں تصریح ہے کہ انگوٹھی کے نگ میں سونے کے کیل جائز ہے اور شراح اس کی یہی تعلیل فرماتے ہیں کہ وہ تبع ہے حالانکہ وہ دوختہ بافتہ مخلوب کچھ نہیں۔ نیز تصریح ہے کہ جبہ وغیرہ میں ریشم کا ابرہ یا استرمرد کو ناجائز ہیں کہ دونوں مقصود ہیں اور اس کے اندر ر یشم کا حشو جائز کہ وہ تابع ہے حالانکہ یہ بھی نہ بافتہ ہے نہ مخلوط۔ اس کے جمے ہرنے کہ دو تین ڈورے ڈالتے ہیں اوراگر نہ ڈالیں جب بھی یقینا حکم نہ بدلے گا کہ علماء نے حشویت پر مدار جواز رکھا ہے اور وہ بغیر ڈورے پڑے بھی حشو ہے تو  دختہ بھی نہ ہوا،
جامع صغیر محرر مزہب وہدایہ وکنز و وافی ووقایہ ونقایہ وغرر واصلاح وملتقی ودرر وغرہا میں ہے :
حل مسمار الذھب یجعل فی جحر الفص ۱؎۔
نگینے کے سوراخ میں سونے کی کیل لگانا جائز ہے۔ (ت)
 (۱؎ کنز الدقائق کتا ب الکراھیۃ     ص۳۶۸)
ہدایہ وتبیین الحقائق ومجمع الانہر وجامع الرموز  وتکملہ  والبحر وشرح نقایہ برجندی ودر وغیرہا میں ہے :
لابأس بمسما رالذھب یجعل فی جحر الفص ای فی ثقبۃ لانہ تابع کالعلم فی الثوب فلا یعد لابسالہ ۲؎۔
پتھر کے نگینے یعنی اس کے سوراخ میں سونے کی کیل لگانے میں کچھ حرج نہیں کیونکہ وہ تابع ہے کپڑے کے نقش ونگار میں کچھ حرج نہیں کیونکہ وہ تابع ہے کپڑے کے نقش ونگار کی طرح لہذا آدمی اسے پہننے والا شمار نہیں کیاجاتا (تاکہ ممانعت پیدا نہ ہو)۔ (ت)
 (۲؎ الہدایہ  کتاب الحظروالاباحۃ    ۴ /۴۵۵)
محیط امام شمس الائمہ سرخسی پھر عالمگیریہ پھر ردالمحتارمیں ہے :
لوجعل القز حشو اللقباء فلا باس بہ لانہ تبع ولو جعلت ظھارتہ او بطانتہ فھو مکروہ لان کلیھما مقصود ۱؎۔
اگر جبہ میں ریشم کی بھرتی ہو تو کوئی حرج نہیں اس لئے کہ وہ تابع ہے ہاں اگر ابرہ یا استر ریشمی ہو تومکروہ ہے کیوں؟ اس لئے کہ وہ دونوں مقصو دہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الکراھیۃ الباب التاسع فی اللبس     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۲)

(ردالمحتار   کتا ب الحظر والاباحۃ فصل فی اللبس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۴)
بزازیہ پھر ہندیہ میں ہے :
لاباس بلبس الجبۃ المحشوۃ من الخز ۲؎۔
جس جبے میں ریشم کی بھرتی ہو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتا ب الکراھیۃ الباب التاسع     نورانی کتب خانہ پشاور        ۵ /۳۳۲)
عبارۃ طحطاوی عن المنتقی عن محمد میں یہی تابع ومستقل کا تفرقہ بنایا گی اہے کہ یہ شے مستقل نہیں بلکہ دوسرے کے ساتھ ہے اور تنہا ہوتی تو ناروا ہوتی کہ تابع نہ رہتی خود مستقل ہوجاتی اس کے بعد فقیر نے مجمع الانہر میں اس معنی کی تصریح دیکھی روایت مذکورہ کا تتمہ یہ نقل کیا کہ امام محمد نے فرمایا :
لانہ اذا کان ھو غیرہ فاللبس لایکون مضافا الیہ بل یکون تبعا فی اللبس ۲؎۔
اس لئے کہ جب تابع غیر متبوع ہو تو پہننا ا س کی طرف منسوب نہ ہوگا بلکہ وہ پہننے میں (متبوع کے) تابع ہوگا۔ (ت)
 (۳؎ مجمع الانہر   کتا ب الکراھیۃ فصل فی اللبس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۵۳۴)
صاف روشن ہوگیا کہ غیر سے مراد وہی متبوع ہے نہ یہ کہ گھنڈی تکمے، آنچل، پلو میں ریشم دوسری چیز کے ساتھ مخلوط کرکے لگائیں جب تو جائز ہو اور غیر مخلوط اگر چہ چار انگلی سے زائد ہو ممنوع ٹھہرے یہ قطعا باطل ہے کہ تصریحات تمام کتب کے خلاف ہے بلاشبہہ خاص ریشمی کپڑے کے گوٹ سنجاف پلیٹ کنٹھا ترنج اور ان کے مانند اور توابع سب جائز ہیں جبکہ چار انگلی عرض سے زائد نہ ہو اوریہ وہم کسی عاقل کو نہ گزرے گا کہ کپڑا اگر چہ خالص ریشم کا ہو سینے میں ڈورا تو اس کے ساتھ ہوگا یہی معہ غیرہ ہوگیا حالانکہ یہی کیا ضرور کہ ریشم کی گوٹ وغیرہ سوت کے ڈورے سے سییں بلکہ ریشم سے سییں، جیسا کہ اکثر یہی متعارف ہے جب بھی قطعا بشرط مذکور جائز ہے کیا کوئی اس قید کا پتا بلکہ اس کی ہوا کسی کتاب سے دے سکتا ہے کہ سوت سے سیو تو روا اور ریشم سے توناروا، ہر گز نہیں۔ اور حشو کے ریشم کو تو کہئے اس کے ساتے ایک تاگے کی بھی حاجت نہیں ، کما عرفت (جیسا کہ تونے معلوم کرلیا۔ ت)
Flag Counter