Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
29 - 146
رسالہ

مروج النجاء لخروج النساء(۱۳۱۶ھ)

(عورتوں کے نکلنے کے بارے میں خلاصی کی چراگاہیں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۷۲ تا ۸۷: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسائل ذیل میں:

(۱) عورات کو اس مکاں میں جہاں محارم وغیرمحارم مرد اور عورتیں ہوں جانا جائز ہے یاناجائز؟

(۲) جس گھر میں نامحرم مرد وعورات ہیں وہاں عورت کو کسی تقریب یا شادی یاغمی میں برقعہ کے ساتھ جانا اور شریک ہونا جائز ہے یانہیں؟

(۳) جس مکان کا مالک نامحرم ہے لیکن اس جلسہ عورات میں نہیں ہے اور اس کا سامنا بھی نہیں ہوتا ہے مگر مالک مکان کی جورو اس عورت کی محرم ہے تو اس کو وہاں جانا جائز ہے یانہیں؟

(۴) ایسے گھر میں جس کے مالک تو نامحرم ہیں۔ مگر اس گھر میں کوئی عورت بھی اس عورت کی محرم نہیں ہے تو اس عورت کو جانا جائز ہے یانہیں؟
 (۵) ایسے گھر میں کہ جس کا مالک نامحرم ہے۔ مگر وہاں ایک عورت اس عورت کی محرم ہے۔ اور جو عورت محرم ہے وہ مالک مکان کی نامحرم ہے۔ تو اس عورت کو جاناجائز ہے یانہیں؟

(۶) ایسے گھر میں جہاں مالک تو نامحرم ہے مگر اس گھر میں عورات اس عورت کی محرم ہیں اور مالک جو نامحرم ہے وہ گھر میں جہاں جلسہ عورات ہے آتا نہیں ہے تو اس عورت کو جانا جائز ہے یانہیں؟

(۷) جس گھر کا مالک تو نامحرم ہے اور گھر میں آتا نہیں اور عورات بھی اس گھر کی نامحرم ہیں تو اس عورت کو جاناجائز ہے یانہیں؟

(۸) جس گھر کا مالک محرم ہے اور لوگ نامحرم ہیں تو جانا جائز ہے یاناجائز ہے؟

(۹) جس گھرمیں مالک نامحرم ہے مگر دوسرے شخص محرم ہیں حالانکہ سامنا نا محرموں سے نہیں ہوتا تو اس عورت کا جانا جائز ہے یاناجائز؟

(۱۰) جس گھر کے دو مالک ہیں ایک اس عورت کاخاوند اور دوسرا نامحرم ہے تو اس گھر میں جانا جائز ہے یا ناجائز ۔
 (۱۱) جس گھر میں عام محفل ہے جہاں مذکور الصدر سب اقسام موجود ہیں اور عورات پردہ نشین و غیر پردہ نشین دونوں قسم کی موجود ہیں اور مر د بھی محارم اور غیر محارم ہیں مگر یہ عورت نامحرم مرد سے چادر وغیرہ سے پردہ کئے ان عورتوں میں بیٹھ سکتی ہے تو ایسی حالت میں جانا جائز ہے یاناجائز ہے؟

(۱۲) جس گھر میں ایسی تقریب ہورہی ہے جس میں منہیات شرعیہ ہورہے ہیں اس میں کسی مرد یا عورت کو اس طرح سے جانا کہ وہ علیحدہ ایک گوشہ میں بیٹھے جہاں مواجہہ تو اس کی شرکت میں نہیں ہے مگر آواز وغیرہ آرہی ہے گو اس آواز وغیرہ ناجائز امور سے اسے حظ بھی نہیں ہے اور نہ متوجہ اس طرف ہے تو جانا جائز ہے یانہیں؟

(۱۳) جس گھر میں مالک وغیرہ نامحرم مگر اس عورت کے ساتھ محارم عورات بھی ہیں گو اس گھر کے لوگ ان عورات کے نامحرم ہیں تو اس کو جانا جائز ہے یانہیں؟

(۱۴) شقوق مذکور الصدر میں سے جو شقوق ناجائز ہیں ان میں سے کسی شق میں عورت کو شوہر کا اتباع جائز ہے یانہیں؟

(۱۵) مرد کو اپنی بی بی کو ایسی مجالس ومحافل میں شرکت سے منع کرنے اور نہ کرنے کا کیا حکم ہے اور عورت پر اتباع وعدم اتباع سے کس درجہ نافرمانی کا اطلاق اور کیا اثر ہوگا اور مرد کو شریک ہونے اور نہ ہونے کا کیا حکم ہے؟
 (۱۶) جس مکاں میں مجمع عورات محارم وغیر محارم کا ہو اور عورات محارم ونامحارم ایک طرف خاص پردہ میں باہم مجتمع ہوں اور مجمع مردوں کا بھی ہر قسم کے اسی مکاں میں عورات سے علیحدہ ہو لیکن آواز نامحرم مردوں کی عورات سنتی ہیں اورایسے مکان میں مجلس وعظ یا ذکر شریف نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام منعقد ہے تو ایسے جلسہ میں اپنے محارم کو بھیجنا یا نہ بھیجنا کیا حکم ہے اور نہ بھیجنے سے کیا محظور شرعی لازم ہوتا ہے اور انعقاد ایسی مجالس کا اپنے زنانہ مکانات میں کیساہے اور اس ذاکریا واعظ کو اپنے محارم یا غیر محارم کے ایسے مکان میں جانا چاہئے یا نہیں فقط
بینوا توجروا عنداﷲ الوہاب
 (بیان کرو اللہ وہاب سے اجر پاؤگے۔ ت) مقصود سائل عورات محارم سے وہ قرابت دار  ہیں جن کے مرد فرض کرنے سے نکاح جائز نہ ہو۔ بینوا توجروا
الجواب

صور جزئیہ کے عرض جواب سے پہلے چند اصول وفوائد ملحوظ خاطر عاطر رہیں کہ بعونہ عزمجدہ شقوق مذکورہ وغیر مزبورہ سب کا بیان مبین اور فہم حکم کے مؤید ومعین ہوں وباللہ التوفیق۔

اول: اصل کلی یہ ہے کہ عورت کا اپنے محارم رجال خواہ نساء کے پاس ان کے یہاں عیادت یا تعزیت یا اور کسی مندوب یا مباح دینی یا دنیوی حاجت یا صرف ملنے کے لئے جانا مطلقا جائز ہے جبکہ منکرات شرعیہ سے خالی ہو مثلا بے ستری نہ ہو، مجمع فساق نہ ہو۔ تقریب ممنوع شرعی نہ ہو، ناچ یا گانے کی محفل نہ ہو، زنان فواحش وبیبیاک کی صحبت نہ ہو، چوبے شریعت کے شیطانی گیت نہ ہوں ۔ سمدھنوں کی گالیاں سننا سنانا نہ ہو، نامحرم دولھا کو دیکھنا دکھانا نہ ہو، رتجگے وغیرہ میں ڈھول بجانا گا نا نہ ہو۔
دوم: اجانب کے یہاں جہاں کے مردوزن سب اس کے نامحرم ہوں شادی غمی زیارت عیادت ان کی کسی تقریب میں جانے کی اجازت نہیں اگر چہ شوہرکے  اذن سے، اگر اذن دے گا خود بھی گنہگار ہوگا سواچند صور مفصلہ ذیل کے۔ اور ان میں بھی حتی الوسع تستر وتحرز اور فتنہ سے تحفظ فرض۔

سوم: کسی کے مکان سے مراد اس کا مکان سکونت ہے نہ مکان ملک مثلا اجنبی کے مکان میں بھائی کرایہ پر رہتا ہے جانا جائز بھائی کے مکان میں اجنبی عاریۃً ساکن ہے جانا ناجائز۔

چہارم: محارم میں مردوں سے مراد وہ ہیں جن سے بوجہ علاقہ (عہ) جزئیت ہمیشہ ہمیشہ کو نکاح حرام کہ کسی صورت سے حلت نہیں ہوسکتی نہ بہنوئی یا پھوپھا یاخالو کہ بہن پھوپھی خالہ کے بعد ان سے نکاح ممکن علاقہ جزئیت رضاع ومصاہرت کو بھی عام مگر زنان جوان خصوصا حسینوں کو بلا ضرورت ان سے احتراز ہی چاہئے۔
عہ:  ارادالحد المتفق علیہ من ائمتنا واحترزبہ عن اللعان عندابی یوسف فانہ عندہ حرمۃ ابدیۃ۔
اور برعکس رواج عوام بیاہیوں کو کنواریوں سے زیادہ کہ ان میں نہ وہ حیا ہوتی ہے، نہ اتنا خوف ، نہ اس قدر لحاظ اور نہ ان کا وہ رعب، نہ عامہ محافظین کو اس درجہ ان کی نگہداشت اور ذوق چشیدہ کی رغبت انجان نادان سے کہیں زائد،
لیس الخبر کالمعاینۃ
 (خبر معائنہ کی طرح نہیں ہوتی۔ ت) تو ان میں موانع ہلکے اور مقتضی بھاری اور صلاح وتقوٰی پر اعتماد سخت غلط کاری ، مرد خود اپنے نفس پر اعتماد نہیں کرسکتا اور کرے تو جھوٹا اذ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ نہ کہ عورت جو عقل ودین میں اس سے آدھی اور رغبت نفسانی میں سو گنی۔ ہر مرد کے ساتھ ایک شیطان اور ہر عورت کے ساتھ دو۔ ایک آگے اور ایک پیچھے،
تقبل شیطان وتدبر شیطان ۱؎ والعیاذ باﷲ العزیز الرحمٰن اللھم انی اسألک العفو والعافیۃ فی الدین والدنیا والاٰخرۃ لی وللمؤمنین وللمؤمنات جمیعا ، اٰمین!
اللہ عزیز و رحمن بچائے۔ یا اللہ! میں تجھ سے دنیا وآخرت میں اپنے لئے اور تمام مومنین و مومنات کے لئے معافی وعافیت طلب کرتا ہوں آمین!(ت)
 (۱؎ صحیح مسلم      کتاب النکاح باب ندب من رأی امراۃ فوقعت فی نفسہ الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۴۴۹)
پنجم:  محرم عورتوں سے وہ مراد کہ دونوں میں جسے مرد فرض کیجئے نکاح حرام ابدی ہو ایک جانب سے جریان کافی نہیں مثلا ساس بہو تو باہم نامحرم ہی ہیں کہ ان میں جسے مرد فرض کریں د وسرے سے بیگانہ ہے سوتیلی ماں بیٹیاں بھی آپس میں محرم نہیں کہ اگر بیٹی کو مرد فرض کرنے سے حرمت ابدیہ ہے کہ وہ اس کے باپ کی مدخولہ ہے مگر ماں کو مرد فرض کرنے سے محض بیگانگی کہ اب وہ اس کے باپ کی کوئی نہیں۔
ششم: رہے وہ مواضع جو محارم واجانب کسی کے مکان نہیں اگر وہاں تنہائی و خلوت ہے تو شوہر یامحرم کے ساتھ جانا ایساہی ہے جیسے اپنے مکان میں شوہر ومحارم کے ساتھ رہنا اور مکان قید وحفاظت ہے کہ ستروتحفظ پر اطمینان حاصل اوراندیشہائے فتنہ یکسر زائل۔ تو یوں بھی حرج نہیں اس قید کے بعد استثناء یک روزہ راہ کی حاجت نہیں کہ بے معیت شوہر یا محرم عاقل بالغ قابل اعتمادحرام ہے اگر چہ محل خالی کی طرف۔ وجہ یہ ہے کہ عورت کا تنہا مقام دور کو جانا اندیشہ فتنہ سے عاری نہیں تو وہی قیداس کے اخراج کو کافی، اور اگر مجمع محل جلوت ہے تو بے حاجت شرعی اجازت نہیں خصوصا جہاں فضولیات وبطالات وخطیئات وجہالت کا جلسہ ہو۔ جیسے سیرو تماشے، باجے تاشے، ندیوں کے پن گھٹ، ناؤؔ چڑھانے کے جمگھٹ، بینظیرکے میلے پھول والوں کے جھمیلے۔ نوچندی کی بلائیں، مصنوعی کر بلائیں۔ علم تعزیوں کے کاوے ،تخت جریدوں کے دھاوے ،حسین آباد کے جلوے ،عباسی درگاہ کے بلوے، ایسے مواقع مردوں کے جانے کے بھی نہیں۔ نہ کہ یہ نازک شیشیاں جنھیں صحیح حدیث میں ارشاد ہوا:
رویدک انجشہ رفقا بالقواریر ۱؎۔
 (۱؎ صحیح بخاری     کتاب الادب باب المعاریض مندوحۃ عن الکذب     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۹۱۷)

(مسند احمد بن حنبل     مروی از انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۳/ ۲۲۷)
اور محل حاجت میں جس کی صورتیں مذکور ہوں گی بشرط تستر وتحفظ وتحرز فتنہ اجازت یک روزہ راہ بلکہ نزد تحقیق مناط اس سے کم میں بھی محافظ مذکور کی حاجت۔
Flag Counter