مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کمثل صاحب المسک وکیر الحداد لایعد مک من صاحب المسک اما ان تشتریہ اوتجد ریحہ وکیر الحداد یحرق بیتک او ثوبک اوتجد منہ ریحاخبیثۃ وفی حدیث ان لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ، رواہ البخاری ۱؎ عن ابی موسٰی الاشعری والمتاخر لابی داؤد والنسائی عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
اچھے مصاحب اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تو تو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا۔ اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دھواں تو ضرور پہنچے گا۔ (امام بخاری نے اسے حضرت ابوموسٰی اشعری سے روایت کیا ہے اور پچھلی حدیث ابوداؤد ونسائی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب فی العطار قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۸۲)
(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب من یومران یجالس آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۰۸)
فحش گیت شیطانی رسم اور کافروں کی ریت ہے۔ شیطان ملعون بے حیا ہے اور اللہ عزوجل کمال حیا والا۔ بیحیائی کی بات سے حیا والا ناراض ہوگا اور وہ بے حیاؤں کا استاد انھیں اپنا مسخرہ بنائے گا۔
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الجنۃ حرام علی کل فاحش ان ید خلھا اخرجہ ابن ابی الدنیا ۲؎ فی فضل الصمت و ابو نعیم فی الحلیۃ عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
جنت ہر فحش بکنے والے پر حرام ہے۔ (محدث ابن ابی الدنیا نے فضل الصمت میں اور محدث ابو نعیم نے حلیہ، میں حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے اس کی تخریج فرمائی۔ ت)
یونہی بے ضرورت وحاجت شرعیہ لوگوں سے فحش کلامی بھی ناجائز وخلاف حیاء ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار، رواہ الترمذی ۱؎ والحاکم والبیھقی فی الشعب عن عمران بن حصین رضی اﷲتعالٰی عنہم بسند صحیح۔
حیاء ایمان سے ہے، اور ایمان جنت میں ہے اور فحش بکنا بے ادبی ہے اور بے ادبی دوزخ میں ہے۔ (ترمذی اور حاکم نے اس کی روایت فرمائی اور امام بیہقی نے ''شعب الایمان'' میں سند صحیح کے ساتھ حضرت عمران بن حصین رضی للہ تعالٰی عنہم سے اس کو روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ جامع الترمذی کتاب البروالصلۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۲)
(المستدرک للحاکم کتاب الایمان دارالفکر بیروت ۱/ ۵۲)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
الحیاء والعی شعبتان من الایمان والبذاء والبیان شعبتان من النفاق۔ احمد ۲؎ و الترمذی وحسنہ الحاکم وصححہ عن ابی امامۃ الباھلی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
شرم اور کم سخنی ایمان کی دو شاخیں ہیں اور فحش بکنا اور زبان کا طرار ہونا نفاق کے دو شعبے ہیں (امام احمد اور ترمذی نے اس کی روایت اور تحسین فرمائی اور حاکم نے بتصحیح اس کی روایت کی اور سب نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا۔ ت)
(۲؎ جامع الترمذی کتاب البروالصلۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۳)
(المستدرک للحاکم کتاب الایمان ۱/ ۵۲ مسند احمد بن حنبل عن ابی امامۃ باہلی ۵/ ۲۶۹ )
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
ماکان الفحش فی شیئ قط الاشانہ وماکان الحیاء فی شیئ قط الازانہ۔ احمد ۳؎ والبخاری فی الادب المفرد والترمذی وابن ماجۃ عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
فحش جب کسی چیز میں دخل پائے گا اسے عیب دار کردے گا اور حیاء جب کسی چیز میں شامل ہوگی اس کا سنگار کردے گی۔ (امام احمد اور بخاری نے ''الادب المفرد'' میں ترمذی اور ابن ماجہ نے بسند حسن حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ ت)
(۳ سنن ابن ماجہ کتاب الزہد باب الحیاء ایچ ایم سعید کمپی کراچی ص ۳۱۸)
(مسند احمد بن حنبل عن انس المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۱۶۵)
اذارایت الرجل بذی اللسان وقاحا دل علی انہ مدخول فی نسبہ، حکاہ المناوی فی التیسیر ۲؎۔
جب تو کسی کو دیکھے کہ فحش بکنے والا بے حیاء ہے تو جان لے کہ اس کی اصل میں خطا ہے۔ (مناوی نے تیسیر میں اس کی حکایت فرمائی ۔ ت)
(۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر برمز عن ابی الدرداء تحت حدیث ۳۱۹۵ مکتبہ الامام الشافعی الریاض ۱/ ۴۳۸)
بچپن سے جو عادت پڑتی ہے کم چھوٹتی ہے تو اپنے نابالغ بچوں کو ایسی ناپاکیوں سے نہ روکنا ان کے لئے معاذاللہ جہنم کا سامان تیار کرنااور خود سخت گناہ میں گرفتار ہونا ہے۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اے ایمان والو! بچاؤ اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کو اس آگ سے جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت درشت خو فرشتے موکل ہیں کہ اللہ کاحکم نہیں ٹالتے اور جو انھیں فرمایا جائے وہی کرتے ہیں۔
اللہ عزوجل مسلمانوں کونیک عادتوں کی توفیق دے اور بری عادتوں بری باتوں سے پناہ بخشے آمین ۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
(۳؎القرآن الکریم ۶۶/ ۶)
مسئلہ ۶۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ کسی لڑکے کو اپنے ماں باپ اور بہنوں کے ایک مکان کی موجودگی میں اسی مکان کی کوٹھری میں کسی غیر عورت کے ساتھ زنا کاری اور ہم مجلس ہوناکیسا ہے یعنی ماں باپ کو اس کی حرکت کا متحمل ہونا چاہئے یانہیں، کیا کرنا چاہئے؟ بینوا توجروا (بیان فرمائے اجروثواب پائے۔ ت)
الجواب
زناکاری یا اجنبیہ عورت سے خلوت جہاں ہو حرام ہے خصوصاباپ کے محل حضور میں دوسراکبیرہ سخت واشد اور اس میں شامل ہے یعنی باپ کے ساتھ گستاخی اس کو ایذا رسانی ، ایسے شخص کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں فرمایا کہ ''وہ اور دیوث جنت میں نہ جائیں گے'' باپ کوایسی حرکت ناپاک کا تحمل کرنا ہرگز روا نہیں بلکہ جہاں تک حد قدرت ہو باز رکھے۔ نہ باز رہے تو گھر سے دور کرے ورنہ اس کی آفت اس پر بھی آئے گی۔ والعیاذباللہ تعالٰی (خدا کی پناہ۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔