مسئلہ ۶۵: ا ز ایوان کچہری فوجداری مجسٹریٹ مرسلہ بخش اللہ خاں ۳ رمضان مبارک ۱۳۱۸ھ
کیا فرماتے ہیںعلمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورات طوائف پیشہ خواہ بلا نکاح ایک کی پابند ہوں یا نہ ہوں ان سے اور ان کے ذکور سے اختلاط و اتحاد رکھنا اور شادی اور مجلسوں میں اپنے مکانات پر ان کو بطور برادرانہ بلانا اور اپنی عورتوں کو بے پردہ طوائفوں کے سامنے کرنا اور جو لوگ شامل وشریک ان طوائفوں کے رہتے ہیں ان کو بہ نیت ترقی اعزاز و افتخار ایک دسترخوان پر اور دیگر اہل اسلام کو بھی ان کے ساتھ کھلانا پلانا اور ایسے ذکور رواناث کے یہاں خود جاکر کھانا اور دوسروں کو طوائفوں کی دعوتوں میں لے جانا اور جو مسلمان ایسے برتاؤ کو اچھا نہ سمجھتا ہو اس کو برا کہنا بلکہ اس رواج کے قائم دائم اپنی کوشش کرنا یہ سب جائز ہے یاناجائز؟ اور ایسے شخص کی امامت کا کیاحکم ہے؟ اور موروثوں کو نابالغ بچوں کو فحش گیت گانے یا فحش کلام کرنے سے منع نہ کرنا کس درجہ کا گناہ ہے ؟ کتاب سے بیان فرماؤ رحمن سے ثواب پاؤگے ۔
الجواب
ایسی حرکات نہایت شنیع وناپاک اور ایسے اشخاص سراسر خطا کار وبیباک اور ایسے برتاؤ معاذاللہ باعث عذاب وہلاک ہیں، رنڈی اگر چہ بلا نکاح ایک کی پابند ہو علانیہ فاحشہ زانیہ اور اس کے مرد قلتبان و دیوث ہیں، یہ سب کے سب ہر وقت اللہ عزوجل کے غضب میں ہیں۔
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
تفتح ابواب السماء نصف اللیل فینادی مناد ہل من داع فستجاب لہ ھل من سائل فیعطی ھل من مکروب فیفرج عنہ لا یبقی مسلم یدعواﷲ بدعوۃ الااستجاب اﷲ عزوجل لہ الازانیۃ تسعی بفرجھا او عشار، رواہ احمد بسند مقارب والطبرانی ۱؎ فی الکبیر واللفظ لہ عن عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
آدھی رات کو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور منادی ندا کرتا ہے کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے۔ ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کریں۔ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مشکلکشائی ہو۔ اس وقت جو مسلمان اللہ عزوجل سے کوئی دعا کرتا ہے مولٰی سبحانہ وتعالٰی قبول فرماتا ہے مگر زانیہ کہ اپنی فرج کی کمائی کھاتی ہے۔ یا لوگوں سے بے جا محاصل تحصیلنے والا۔ (امام احمد نے اس کو سند مقارب کے ساتھ روایت کیا۔ اور امام طبرانی نے ''الکبیر'' میں روایت کی اور الفاظ اسی کے ہیں حضرت عثمان بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت فرمائی۔ ت)
(۱؎ کنز العمال بحوالہ طب حدیث ۳۳۵۷ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲/ ۱۰۵)
(مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب الزکوٰۃ باب فی العشار ین والعرفاء دارالکتاب بیروت ۳/ ۸۸)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ:
ثلثۃ لایدخلون الجنۃ ابدا الدیوث و الرجلۃ من النساء ومدمن الخمر۔ رواہ الطبرانی عن عمار بن یاسر رضی اﷲ تعالٰی عنہما بسند حسن۔
تین شخص کبھی جنت میں نہ جائیں گے دیوث اور مردانی وضع بنانے والی عورت اور شرابی (امام طبرانی نے اس کو حضرت عمار بن یاسررضی اللہ تعالٰی عنہما سے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ )
(۲؎ مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب النکاح باب فیمن یرضی لاہلہ بالخبث دارالکتاب بیروت ۴/ ۳۲۷)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
ثلثۃ لایدخلون الجنۃ العاق لوالدیہ و الدیوث ورجلۃ النساء، رواہ الحاکم فی المستدرک ۱؎ و البیھقی فی الشعب بسند صحیح عن ابن عمر رضی اﷲتعالٰی عنہما۔
تین شخص جنت میں نہ جائیں گے ماں باپ کو آزار دینے والا اور دیوث اور مرد بننے والی عورت، (حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے شعب میں صحیح سند کے ساتھ اسے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)
جو جس قوم سے دوستی کرے گا اللہ تعالٰی انھیں کے گروہ میں اٹھائے گا۔ (طبرانی نے معجم کبیر میں اور ضیاء نے مختارہ میں حضرت ابوقرصافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ ت)
المرء مع من احب ۔ رواہ الشیخان ۴؎ عن ابن مسعود عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنھما، ہو متواتر۔
آدمی اپنے دوست کے ساتھ ہوگا (اس کو امام بخاری ومسلم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ تعالٰی عنہ سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا یہ حدیث متواتر ہے۔ ت)
(۴؎ صحیح البخاری کتاب الآداب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۱۱)
(صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب المرء مع من احب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۳۲)
ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کا حال بھی سن لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اول مادخل النقص علی بنی اسرائیل کان الرجل یلقی الرجل فیقول یاھذا اتق اﷲ ودع ماتصنع فانہ لایحل لک ثم یلقاہ من الغدوھو علی حالہ فلا یمنعہ ذٰلک ان یکون اکیلہ وشریبہ وقعیدہ فلما فعلوا ذٰلک ضرب اﷲ قلوب بعضھم ببعض ثم قال لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسٰی ابن مریم ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدونo کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون o الحدیث۔ رواہ ابوداؤد ۱ واللفظ لہ والترمذی وحسنہ عن عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بنی اسرائیل میں پہلی خرابی جوآئی وہ یہ تھی کہ ان میں ایک شخص دوسرے سے ملتا اس سے کہتا اے شخص ! اللہ سے ڈر اور اپنے کام سے باز آ کہ یہ حلا ل نہیں پھر دوسرے دن اس سے ملتا اور وہ اپنے اسی حال پر ہوتا تو یہ مردا س کو اس کے ساتھ کھانے پینے پاس بیٹھنے سے نہ روکتا جب انھوں نے یہ حرکت کی اللہ تعالٰی نے ان کے دل باہم ایک دوسرے پر مارے کہ منع کرنے والوں کا حال بھی انھیں خطا والوں کے مثل ہوگیا۔ پھر فرمایا بنی اسرائیل کے کافر لعنت کے گئے داؤد وعیسی بن مریم کی زبان پر ۔ یہ بدلہ ہے ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو برے کام سے نہ روکتے تھے۔ البتہ یہ سخت بری حرکت تھی کہ وہ کرتے تھے۔ (امام ابوداؤد نے حدیث مذکور کو روایت کیا اور یہ الفاظ انھیں کے ہیں۔ امام ترمذی نے اس کی تحسین فرمائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ۔ت )
(۱؎ جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ المائدۃ تحت آیۃ لعن الذین کفروا الخ امین کمپنی کراچی ۲/ ۱۳۰)
(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۴۰)
اللہ عزوجل فرماتاہے:
واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظلمین ۲؎۔
اور اگر شیطان تجھے بھلادے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھ۔
(۳؎ القرآن الکریم ۶/ ۶۸)
تفسیر احمدی میں ہے:
ھم المبتدع والفاسق والکافر والقعود مع کلھم ممتنع ۱؎۔
ظالم لوگ بدمذہب اور فاسق اور کافر ہیں ان سب کے پاس بیٹھنا منع ہے۔
مروی ہوا اللہ عزوجل نے یو شع علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی بھیجی میں تیری بستی سے چالیس ہزار اچھے اور ساٹھ ہزار برے لوگ ہلاک کروں گا۔ عرض کی الٰہی ! برے تو برے ہیں اچھے کیوں ہلاک ہوں گے۔ فرمایا:
انھم لم یغضبوا بغضبی واٰکلوھم وشاربوھم رواہ ابن ابی الدنیا۲؎ وابوالشیخ عن ابراہیم عن عمر الصنعانی۔
اس لئے کہ جن پر میرا غضب تھا انھوں نے ان پر غضب نہ کیا اور ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک رہے (ابن ابی الدنیا اور ابوالشیخ نے ابراہیم سے انھوں نے عمر صنعانی سے اس کو روایت کیا۔ (ت)
(۲؎ فیض القدیر بحوالہ ابن ابی الدنیا تحت حدیث ۲۱۳۶ دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۳۹۹)
ایسے لوگ شرعا مستحق تذلیل واہانت ہیں اور نماز کی امامت ایک اعلٰی درجہ کی تعظیم وتکریم ہے۔ شرع مطہر جس کی اہانت کاحکم دے اس کی تعظیم کیونکر رواہوگی، ولہذا علماء کرام فرماتے ہیں کہ فاسق اگر چہ سب موجود میں سے علم میں زائد ہو اسے امام نہ کیا جائے کہ امامت میں اس کی تعظیم ہو حالانکہ شرعا اس کی توہین واجب ہے۔ مراقی الفلاح وفتح اللہ المعین وطحطاوی علی الدرالمختار میں ہے:
اما الفاسق الاعلم فلا یقدم لان فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا ۳؎۔
امام کے طور پر کسی فاسق کو برائے امامت آگے کرنا جائز اور درست نہیں خواہ وہ بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے اور فاسق کی تعظیم نہیں بلکہ ازروئے شرع اس کی توہین ضروری ہوتی ہے۔ (ت)
(۳؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتا ب الصلوٰۃ باب الامامۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۲۴۳)
اپنی عورتوں کو رنڈیوں کے سامنے بے پردہ حجاب کرنے والے ان سے میل ملاقات کرانے والے یا سخت احمق مجنون بدعقل ہیں یا نرے بے حیا بے غیرت بے شرم۔ عورت موم کی ناک بلکہ رال کی پڑیاں بلکہ بارود کی ڈبیا ہے آگ ایک ادنٰی سے لگاؤ میں بھق سے ہوجانے والی ہے عقل بھی ناقص اوردین بھی ناقص اور طینت میں کجی اور شہوت میں مرد سے سو حصہ بیشی، اور صحبت بد کاا ثر مستقل مردوں کو بگاڑدیتا ہے۔ پھر ان نازک شیشوں کا کیا کہنا ، جو خفیف ٹھیس سے پاش پاش ہوجائیں۔ یہ سب مضمون یعنی عورات کا ناقصات العقل والدین اور کج طبع اورشہوت میں زائد اور نازک شیشیاں ہونا صحیح حدیثوں میں ارشاد ہوئے ہیں۔ اور صحبت بد کے اثر میں تو بکثرت احادیث صحیحہ وارد ہیں۔ ازاں جملہ یہ حدیث جلیل کہ مشکوٰۃ حکمت نبوت کی نورانی قندیل ہے۔