Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
25 - 146
مسئلہ ۶۱: ا زجالندھر محلہ راستہ متصل مکان ڈپٹی شیخ احمد جان صاحب مرحوم مرسلہ محمد احمد صاحب ۲۸ذی الحجہ ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عورت جوان یا بڑھیا کسی عالم شریعت ، واقف طریقت جامع شرائط سے بیعت کرے اور اپنے پیر سے فیض لے حجاب شرعی تو ہو یعنی کل بدن  چھپا ہوا بلا چہرے کے مگر حجاب عرفی نہ ہو تو یہ بیعت کرنے اور اس طریق سے فیض لینا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے جوا ن عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے۔
فی الدرالمختار تمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لخوف الفتنۃ ۲؎۔
درمختار میں ہے کہ جوان عورت کو اندیشہ فتنہ کی وجہ سے مردوں کے سامنے چہرہ کشائی سے روکا جائے۔ (ت)
 (۲؎ درمختار         کتاب الصلوٰۃ باب شروط الصلوٰۃ      مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۶۶)
اسی میں ہے:
اما فی زماننا فمنع من الشابۃ قہستانی ۱؎۔
لیکن ہمارے زمانے میں جوان لڑکی کو نقاب کشائی سے منع کیا گیا ہے۔ قہستانی (ت)
(۱ ؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی النظر     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۴۲۔ ۲۴۱)
اور بڑھیا کے لئے جس سے احتمال فتنہ نہ ہو مضائقہ نہیں۔
فیہ ایضااما العجوز التی لاتشتھی فلا بأس بمصافحتہا ومس یدھا ان امن ۲؎۔
اسی کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایسی بوڑھی عورت جو نفسانی یعنی جنسی خواہش نہ رکھتی ہو اس سے مصافحہ کرنے اور اس کے ہاتھ کو مس کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اطمینان خاطر حاصل ہو۔ (ت)
 ( ۲؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی النظر     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۴۲۔ ۲۴۱)
مگر ایسے خاندان کی نہ ہو جس کا یوں بھی سامنے آنا اس کے اولیاء کے لئے باعث ننگ وعار یا خود اس کے واسطے وجہ انگشت نمائی ہو۔
فانا قدامرنا ان ننزل الناس منازلھم کما فی حدیث ۳؎ ام المومنین الصدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا وفی حدیث مرفوع ایاک وما یسوء الاذن ۴؎۔
اس لئے کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ ہم لوگوں سے ان کے مراتب کے مطابق سلوک کریں جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث میں آیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ اپنے آپ کو ان باتوں سے بچاؤ جو کانوں کو بری لگیں(ت)
 (۳؎ سنن ابی داؤد کتاب الادب باب تنزیل الناس منازلھم     آفتاب عالم پریس لاہور     ۲/ ۳۰۹)

(۴؎ مسند احمد بن حنبل     بقیہ حدیث ابی الغادیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت    ۴/ ۷۶)
خصوصا جبکہ اس کے سبب جانب اقربا سے احتمال ثوران فساد ہو
فان الفتنۃ اکبر من القتل
 (کیونکہ فتنہ برپاکرنا قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۶۲: از جالندھر محلہ راستہ متصل مکان ڈپٹی شیخ احمد جان صاحب مرحوم مرسلہ محمد احمد صاحب ۲۸ ذی الحجہ ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی اپنے پیر ومرشد کے پیرچوم لے بطوربزرگی کے تو درست ہے یانہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب : جائز ہے۔ ابوداؤد ۵؂وغیرہ کی احادیث کثیرہ سے ثابت ہے
کحدیث وفد عبدالقیس وغیرھم من الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم ۱؂
 (جیسا کہ وفد عبدالقیس وغیرہ کی حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مروی ہے۔ ت) اس بارہ میں فقیر غفراللہ  تعالٰی لہ نے مفصل کلام لکھا کہ ہمارے مجموعہ فتاوٰی میں منسلک ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
 (۵؎ سنن ابی داؤد     کتاب الادب باب قبلۃ الرجل     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/ ۳۵۳)

(۱؎ سنن ابی داؤد     کتاب الادب باب قبلۃ الرجل     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/ ۳۵۳)
مسئلہ ۶۳: از جالندھر محلہ راستہ متصل مکان ڈپٹی شیخ احمد جان صاحب مرحوم مرسلہ محمد احمد صاحب ۲۸ ذی الحجہ ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت نہایت نیک بخت ہے وہ چاہتی ہے کہ کسی بزرگ عالم شریعت اور واقف طریقت سے بیعت حاصل کرکے صفائی قلب اور صفائی باطن حاصل کروں مگر اس کا خاوند اس کارخیر سے بند کرتا ہے۔ آیا اگر وہ عورت اپنے خاوند کی چوری کسی صالح بزرگ سے بیعت حاصل کرے تو درست ہے یانہیں ا ور بلا اطلاع اپنے خاوند کے تعلیم سلوک باطنیہ کی اپنے پیر سے جاکر لے تو درست ہے یانہیں؟
بینواتوجروا یوم الحساب
 (بیان فرماؤ تاکہ بروز قیامت اجر وثواب پاؤ۔ ت)
الجواب : عالم عامل عارف کامل کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل کرنے اور اس سے علم دین وراہ سلوک سیکھنے کے لئے شوہر کی اجازت درکا رنہیں۔ نہ اس باب میں اس کی ممانعت کا لحاظ لازم جب کہ اس کے حقوق میں کسی خلل کا اندیشہ نہ ہو۔
فی کتاب الجھاد من البحر والنھر والدروغیرہا انما یلزمھا امرہ فیما یرجع الی النکاح وتوابعہ ۲؎۔
چنانچہ البحرالرائق ، النہر الفائق ، الدروغیرہ اور ان کے علاوہ دیگر کتابوں کتاب الجہاد میں ہے کہ عورت پر مرد کی اطاعت ان معاملات میں ضروری ہے کہ جن کا مرجع نکاح اور اس کے متعلقات ہوں۔
 (۲؎ الدرالمختار         کتاب الجہاد             مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۳۳۹)
ہاں امر غیر واجب عینی کے سیکھنے کو پیر کے گھر بے اذن شوہر جانے کی اجازت نہیں ہوسکتی بلکہ واجب کے لئے بھی جبکہ شوہر کے توسط سے سیکھ سکتی ہو۔
والمسألۃ دائرۃ فی الکتب سائرۃ وقد فصلنا ھا بتوفیق اﷲ تعالٰی فی کتاب النکاح من فتاوٰنا۔
یہ مسئلہ کتب فقہ میں دائر یعنی گھومنے والا اور سائر یعنی چلنے والا ہے چنانچہ اللہ تعالی کے توفیق دینے سے ہم نے اس کو اپنے فتاوٰی کی بحث نکاح میں تفصیل سے بیان کیاہے۔ (ت)
بلکہ اجنبی مردوں کے پاس بے ضرورت شرعیہ باذن شوہر جانے کی اجازت نہیں۔
حتی لو اذن کانا عاصیین کما فی الخلاصۃ والاشباہ ۱؎ والدروغیرہا من الاسفار الغروان بغیت التفصیل فعلیک بفتاوٰنا ومن لم یعرف ناس زمانہ فھو جاھل۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔
حتی کہ اگر شوہر بیوی کو بغیر ضرورت شرعی باہر جانے کی اجازت دے تو بصورت عمل میاں بیوی دونوں گنہگار ہوں گے جیسا کہ خلاصہ، الاشباہ، الدر اور دوسری بڑی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر تمھیں تفصیل مطلوب ہو تو ہمارے فتاوٰی سے رجو ع کریں۔ او ر جو شخص اپنے زمانے کے لوگوں کی معرفت نہیں رکھتا وہ نرا جاہل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ خلاصہ الفتاوٰی     کتاب النکاح الفصل الخامس عشر     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۲/ ۵۳)
مسئلہ ۶۴: از شہر کہنہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص غیر منکوحہ عورت بالغہ سے خدمت لے اور کوئی شے اس لحاظ سے کہ مجھے ملے اور میں دل خوش کروں اور پاؤں دباؤں اور آپس میں باتیں کروں اور ایک ہی مکان میں رہنا اور عورت مذکورہ غیر محرم ہو تویہ سب جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب

جو عورت حد شہوت کو نہ پہنچے یعنی ہنوز نو برس سے کم عمر کی ہے یا حد فتنہ سے نکل گئی یعنی ضعیفہ بڑھیا بد صورت کریہہ منظر ہے اس سے جائز خدمت یعنی اگر چہ خلوت میں بھی ہو حرام نہیں ۔ اور جو عورت اجنبیہ ان دونوں صورتوں سے جدا ہے وہ محل اندیشہ فتنہ ہے اس سے خلوت حرام ہے اور اگر بلا خلوت روٹی پکانے وغیرہ کے کام پر ہے تو مضائقہ نہیں۔ باقی رہا پاؤں دبانا  دبوانا اس سے تنہائی میں باتیں کرکے نفس کو خوش کرنا یہ خود صریح حرام اور شیطانی کام ہے۔ والعیاذباللہ تعالٰی ۔
Flag Counter