Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
24 - 146
دیکھنا اور چھونا

پردہ ، حجاب، ستر عورت، زناء، مشت زنی، دیوثی، خلوت اور بلوغ وغیرہ سے متعلق
مسئلہ ۵۷ : 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جیسا کہ مرد کے واسطے غیر عورت کو دیکھنا حرام ہے ویسا ہی عورت کو غیر مرد کی طرف نظر کرنا حرام ہے۔ یا کچھ فرق ہےـ؟ بینوا توجروا (بیہان کرو اجرپاؤ۔ ت)
الجواب

دونوں صوررتوں کا ایک حکم کچھ فرق نہیں۔
فان نظر کل الی عورتہ الاخر محرم قطعا وکذا الی غیر العورۃ ان لم یؤمن الشھوۃ ھو الصحیح فی الفصلین ودرمختار ۱؎ عن التاتارخانیہ عن المضمرات اما عند الا من فالمنع لخوف الافتنان لفساد الزمان وفیہ ایضا یتفق الفصلان فافھم واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ ہرایک کا دوسرے کی عورت (یعنی مقام ستر )کو دیکھنا قطعی حرام ہے اور اسی طرح غیر جائے ستر کو دیکھنا بھی حرام ہے جبکہ شہوت سے امن نہ ہو، دونوں صورتوں میں یہی صحیح ہے۔ درمختار میں تاتارخانیہ سے بحوالہ الضمرات ہے اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تو پھر فتنہ کی وجہ سے ممانعت ہے۔ ااور یہ فساد زمانہ کی وجہ سے ہے۔اور اسی میں یہ بھی ہے کہ دونوں صورتیں برابرہیں لہذا اس کو سمجھ لیجئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ    فصل فی النظر والمس         مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۴۲)
مسئلہ ۵۸: ازگلگت چھاؤنی جوئنال مرسل سید محمد یوسف علی صاحب شعبان ۱۳۱۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کہ زلخ لگانے کا اللہ پاک کیا گناہ فرماتاہے؟ بینوا توجروا( بیان فرمائےے اجر پائے۔ ت)
الجواب

یہ فعل ناپاک حرام وناجائز ہے اللہ جل وعلا نے اس حاجت کے پورا کرنے کو صرف زوجہ و کنیز شرعی بتائی ہیں اور صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ :
فمن ابتغی وراء ذٰلک فاولئک ھم العدون ۱؎۔
جو اس کے سو ااور کوئی طریقہ ڈھونڈھے توو ہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔
 (۱؎ القرآن الکریم     ۷۰ /۳۱)
حدیث میں ہے :
ناکح الید ملعون ۲؎
جلق لگانے والے پر اللہ تعالٰی کی لعنت ہے۔
 (۲؎ الحدیقہ الندیہ     الصنف السابع من الاصناف التسعۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲ /۴۹۱)

(الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ     حدیث نمبر ۱۰۲۲     دارالکتب العلمیہ بیروت        ص۲۵۷)
ہاں اگر کوئی شخص جوان تیز خواہش ہو کہ نہ زوجہ رکھتاہو نہ شرعی کنیز اور جوش شہوت سخت مجبور کرے اوراس وقت کسی کام میں مشغول ہوجانے یا مردوں کے پاس جابیٹھنے سے بھی دل نہ بٹے غرض کسی طرح وہ جوش کم نہ ہو یہاں تک کہ یقین یاظن غالب ہوجائے کہ اس وقت اگر یہ فعل نہیں کرتا تو حرام میں گرفتار ہوجائے گا تو ایسی حالت میں زنا ولواطت سے بچنے کے لئے صرف بغرض تسکین شہوت نہ کہ بقصد تحصیل لذت و قضائے شہوت اگر یہ فعل واقع ہو تو امید کی جاتی ہےکہ اللہ تعالٰی مواخذہ نہ فرمائے گا۔ پھر اس کے ساتھ ہی واجب ہے کہ اگر قدرت رکھتا ہو فورا نکاح یا خریداری کنیز شرعی کی فکر کرے ورنہ سخت گنہ گار ومستحق لعنت ہوگا۔ یہ اجازت اس لئے نہ تھی کہ اس فعل ناپاک کی عادت ڈال لے اور بجائے طریقہ پسندیدہ خدا ورسول اسی پر قناعت کرے۔
طریقہ محمدیہ میں ہے :
اما الاستمناء فحرام الا عند شروط ثلثۃ ان یکون عزب وبہ شبق وفرط شہوۃ (بحیث لو لم یفعل ذٰلک لحملتہ شدۃ الشہوۃ علی الزناء اواللواط والشرط الثالث ان یرید بہ تکسین الشہوۃ لاقضائھا ۱؎ اھ مزیدا من شرحھا الحدیقۃ الندیۃ۔
مشت زنی حرام ہے مگر تین شرائط کے ساتھ جواز کی گنجائش ہے : (۱) مجرد ہو اور غلبہ شہوت ہو (۲) شہوت اس قدر غالب ہو کہ بدکاری زناء یالونڈے بازی وغیرہ کا اندیشہ ہو (۳) تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے محض تکسین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت۔ طریقہ محمدیہ کی عبارت مکمل ہوگئی جس میں اس کی شرح حدیقہ ندیہ سے کچھ اضافہ بھی شامل ہے۔ (ت)
(۱؎ الطریقہ محمدیہ     الصنف السابع   من الاصناف التسعۃ الاستمناء بالید     مکتبہ حنفیہ کوئٹہ    ۲/ ۲۵۵)

(الحدیقہ الندیہ     الصنف السابع من الاصناف التسعۃ   الاستمناء بالید     مکتبہ حنفیہ کوئٹہ    ۲/ ۴۹۱)
تنویر الابصار میں ہے :
یکون (ای) واجبا عند التوقان ۲؎۔
غلبہ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے۔ (ت)
(۲؎درمختارشرح تنویر الابصار     کتاب النکاح   مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۱۸۵)
ردالمحتارمیں ہے :
قلت وکذا فیما یظھر لو کان لایمکنہ منع نفسہ عن النظر المحرم او عن الاستمناء بالکف فیجب التزوج وان لم یخف الوقوع فی الزناء ۳؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
میں کہتاہوں اور اسی طرح کچھ ظاہر ہوتاہے کہ اگر حالت ایسی ہوکہ یہ اپنے آپ کو نظر حرام اور مشت زنی سے نہ روک سکے تو شادی کرنا واجب ہے۔ اگر چہ زناء میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ اللہ تعالٰی ہی بڑا عالم ہے۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار   کتاب النکاح    داراحیاء لتراث العربی بیروت    ۲/ ۲۶۰)
مسئلہ ۵۹: از گلگٹ مرسلہ سردار امیر خاں ملازم کپتان اسٹوٹ ۲۱ ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں جو شخص اپنا ستر غلیظ کھول کر خواہ مخواہ ہر شخص کے سامنے آئے وہ کیساہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب : فاسق، فاجر سخت تعزیر شدید کا مستحق ہے۔ حدیث میں اس پر لعنت آئی کہ:
لعن اﷲ الناظر والمنظور الیہ، رواہ البیہقی فی شعب ۴؎ الایمان عن الحسن مرسلا عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ۔
دیکھنے والا اور جس کی طرف دیکھا گیا دونوں ملعون ہیں (یعنی ان پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔) امام بیہقی نے اس کو شعب الایمان میں بغیر سند نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے حضرت حسن کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۴؎ شعب الایمان للبیہقی     حدیث ۷۷۸۸        دارالکتب العلمیہ بیروت        ۶/ ۱۶۲)
مسئلہ ۶۰ـ: از مارہرہ مطہرہ مرسلہ حضرت میاں صاحب قبلہ دام ظلہم العالی     ۳۰ ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک فاحشہ مسلمہ سے پردہ جو آیا ہے وہ جس مصلحت سے معلوم ہے مگر ایسا موقع ہو کہ باہم فاحشہ اور غیر فاحشہ مسلمہ قرابت اخت عینی کی رکھتے ہوں تو وہ بھی اس حکم میں داخل ہے یا نہیں؟ اور اگر کبھی کبھی بتقاضائے محبت خون اسے اپنے سے مل لینے دے تو کیا مرتکب کبیرہ ہوگی؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجروثواب پاؤ۔ ت)
الجواب:

قول علماء : لاینبغی للمرأۃ الصالحۃ ان تنطر الیہ المرأۃ الفاجرۃ کما فی السراج الوہاج والہندیۃ و ردالمحتار ۱؎۔
یہ مناسب نہیں کہ نیک اور پارسا عورت کی طرف بدکار عورت دیکھے، جیسا کہ سراج وہاج فتاوٰی ہندیہ اور ردالمحتارمیں ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ     بالنظر والمس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۳۸)
اور اسی طرح ارشاد الٰہی عزوجل:
واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظلمین o۲؎
اگر تجھے شیطان (بری مجلس سے اٹھ کر چلے جانا) بھلادے تو یا د آنے کے بعد ظالموں کے ساتھ (کم از کم مزید تو)  نہ بیٹھو۔ (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم       ۶/ ۶۸)
ہر صورت کو عام ہے اور مصلحت بھی عام بلکہ ایسی قرابت قریبہ میں برا اثر پڑنے کا زیادہ احتمال کہ اجنبیہ سے نہ اتنا میل ہوتاہے نہ اس کی طرف اتنا میل۔
والمھاجرۃ لامثال ہذا لایعد من القطع المنھی عنہ فقد صح مثلہ عن الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم فی اقل من ہذا منھم عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
اس قسم کے چھوڑنے کو اس انقطاع میں شمار نہیں کیا جاتا کہ حدیث میں جس کی نہی وارد ہوئی ہے کیونکہ اس سے کم درجہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس نوع کی کارروائی بصحت ثابت ہے ان میں سے نہیں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی ہیں (ت)
ہاں یہ حکم احتیاطی ہے اگر نادرا کبھی کچھ دیر کو اسے مل لینے دے تو کبیرہ نہیں
کما یدل علیہ قولھم لاینبغی
 (جیسا کہ اس پر ان کے قول ''یہ مناسب نہیں'' سے دلیل دی جاسکتی ہے) مگر احتیاط ضروری ہے جب دیکھے کہ اب کچھ بھی برا اثر پڑتا معلوم ہوتا ہے فوراً نقطاع کلی کرے اور اس کی صحبت کو آگ جانے، اور انصاف یہ ہے کہ برا اثر پڑتے معلوم نہیں ہوتا اور جب پڑجاتا ہے  تو پھر احتیاط کی طرف ذہن جانا قدرے دشوار ہے لہذا امان و سلامت جدا رہنے ہی میں ہے وباللہ التوفیق (اور اللہ تعالٰی ہی کی مدد سے توفیق میسر آتی ہے۔ ت)
مولانا قدس سرہ العزیز مثنوی شریف میں فرماتے ہیں: ؎
تاتوانی دور شو از یار بد        یار بد بد تر بود از ماربد

مار بد تنہا ہمیں برجان زند    یار بد بر جان وایمان زند ۱؎
 (جب تک ممکن ہو برے یار (ساتھی) سے دور رہو کیونکہ برا ساتھی برے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے اس لئے کہ خطرناک سانپ تو صرف جان یعنی جسم کو تکلیف یا نقصان پہنچاتا ہے جبکہ برا ساتھی جان اور ایمان دونوں کو برباد کردیتاہے۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ گلدستہ مثنوی         بکھرے موتی     نذیر سنز لاہور    ص۹۴ و ۹۵)
Flag Counter