فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ) |
ھذاالنقول مع ماذکرہ عن المجتبٰی و القہستانی وشرح ابی المکارم تعارض القول بکراھۃ التحریم ان لم یدع التوفیق محمل التحریم علی المصبوغ بالنجس او نحو ذلک۔۲؎
یہ متعدد نقول بشمول ان اقوال جو المجتبٰی قہستانی اور شرح ابی المکارم میں مذکور ہیں کراہت تحریمی کے معارض اور متصادم ہیں جبکہ دونوں میں اس طرح موافقت اور مطابقت نہ پیدا کی جائے کہ قول بالحرمۃ کا مبنٰی اور محل یہ ہے کہ رنگ کرنے میں نجاست یا اس جیسی کسی ممنوع اورناپاک چیز کی ملاوٹ ہو اور اگر یہ نہ ہو پھر قول بالجواز ہے۔ (یعنی دونوں قولوں میں درحقیقت کوئی تعارض نہیں)۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار بحوالہ تحفۃ الاکمل کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی الللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۸)
باینہمہ انصاف یہ کہ شدت اختلاف کے باعث احتراز اولٰی اور اعتراض بے جا، عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں :
قال الامام الغزالی فی الاحیاء فی شروط المنکر ان یکون کونہ منکرا معلوما بغیر اجتہاد فکل ما ہو فی محل الاجتہاد فلا حسبتہ فیہ ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
حجۃ الاسلام امام غزالی نے ''احیاء علوم الدین'' میں ارشاد فرمایا : منکر کی شرائط میں یہ ہے کہ اس کا منکر ہونا بغیر اجتہاد معلوم ہو پھر جو محل اجتہاد میں ہو۔ میں اس کو منکر گمان نہیں کرتا۔ واللہ تعالٰی اعلم(ت)
(۳؎ الحدیقہ الندیۃ الباب الاول الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱ /۱۵۷)
مسئلہ ۵۴ : عین الیقین طالب علم مدرسہ منظر الاسلام محلہ سوداگران ۱۲ صفر ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ طریقہ مسنونہ دستار باندھنے کا کیاہے دہنی طرف سے یا بائیں طرف سے اور کس طرف سے شروع کرنا کیسا ہے؟ مع دلیل۔
الجواب حدیث میں ہےـ :
کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یجب التیامن فی کل شیئ حتی فی تنعلہ ۱؎۔
رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہربات میں دہنی طرف سے ابتداء کو پسند فرماتے یہاں تک کہ جوتا پہننے میں۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ عمامہ کا پہلا پیچ سر کی دہنی جانب جائے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب النہی عن الاستنجاء بالیمین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۳۲) (اتحاف السادۃ المتقین کتاب اسرار الطہارۃ کیفیۃ الوضوء دارالفکر بیروت ۲ /۳۶۱) (مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۱۰۲)
مسئلہ ۵۵: از مدرسہ منظر الاسلام بریلی مسئولہ مولوی محمد ثناء اللہ صاحب طالب علم ۲۸ جمادی الآخرہ ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ طریقہ مسنونہ دستار باندھنے کا کیا دہنے سے یا بائیں طرف سے۔ اور کس طرف سے شروع کرنا چاہئے؟
الجواب دہنی جانب پہلا پیچ لے جائیں۔
کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یحب التیامن فی کل شیئ حتی فی تنعلہ۲؎۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہرکام میں دائیں طرف سے ابتداء کو پسند فرماتے تھے یہاں تک کہ جوتا پہننے میں بھی (ت)
(۲؎ صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب النہی عن الاستنجاء بالیمین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۳۲) (اتحاف السادۃ المتقین کتاب اسرار الطہارۃ کیفیۃ الوضوء دارالفکر بیروت ۲ /۳۶۱) (مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۱۰۲)
مسئلہ ۵۶: از پبی ڈاکخانہ خاص ضلع پشاور مدرسہ قادریہ محمودیہ مسجد چھنگری مسئولہ مولٰنا مولوی حمداللہ صاحب قادری محمودی ۱۲ شوال ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ بعض صوفیہ بے علم شملہ ثانیہ کو بدعت سیئہ کہتے ہیں۔ فقیر کے تلمیذ مولوی اسرار محمد کا بیان ہے کہ یہ جو بعض لوگ جزء اخیر دستار کو بالائے دستار کشادہ رکھتے ہیں جائز ہے کہ دلیل امتناع موجود نہیں تو اصل اباحت پر باقی ہے۔ یہ اصول فقہ کا مسلمہ مسئلہ ہے۔ فقیر نے اپنے تلمیذ کی تائید کی۔ اس بارے میں فیصلہ مفصلہ تحریر فرمائیں۔ والسلام
الجواب حدیث سے میرے خیال میں ہے کہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو شملے چھوڑے ہیں۔خیال ہے کہ معاذبن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سر پر دست اقدس سے عمامہ باندھا اور دو شملے چھوڑے۔ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سر پر اپنے دست انور سے عمامہ باندھنا اور آگے پیچھے دو شملے چھوڑنا سنن ابی داؤد ۱؎میں ہے۔ تو یہ سنت ہوا نہ کہ معاذاللہ بدعت سیئہ۔ فقیر اسی سنت کے اتباع سے بارہا دو شملے رکھتاہے۔ مگر شملہ ایک بالشت سے کم نہ ہونا چاہئے۔ یہ جو بعض لوگ طرہ کے طو رپرچند انگل اونچا سر پر چھوڑتے ہیں اس کا ثبوت میری نظرمیں نہیں۔ نہ کہیں ممانعت۔ تو اباحت اصلیہ پر ہے۔ مگر اس حالت میں کہ یہ کسی شہرمیں آوارہ وفساق لوگوں کی وضع ہو تو اس عارض کے سبب اس سے احتراز ہوگا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ والسلام۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب العمائم آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۰۸)